خوشبوکی شاعرہ پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے 31 برس بیت گئے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )محبت کی خوشبو شعروں میں سمونے والی شاعرہ پروین شاکر جن کا ساحرانہ ترنم اور لطیف جذبات کو لفظوں کا پیرہن دینے کا ہنر انہیں امر کرتا ہے، بلند خیالات کو انوکھے انداز میں بیان کرنے والی اس عظیم شاعرہ کی آج 31 ویں برسی ہے
پروین شاکر نے جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کو اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی کم عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔
دوران تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ وہ استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔ 1986 میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی بی آر اسلام آباد میں سیکریٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔
انہوں نے جذبات کو اپنی تصانیف میں نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا۔ محبت، درد، تنہائی اور فراق و وصال سے لبریز پروین شاکر کی منفرد کتاب خوشبو منظر عام پر آئی تو شاعرہ کے الفاظ کی مہک چارسو پھیل گئی۔
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
خوشبو ان کے کلام کی پہلی کتاب تھی جس نے پھرسے کتابوں کے تحفوں کا رواج ڈالا بے، بے باک اندازمیں دل کی بات کہہ دینا آسان نہیں لیکن پروین شاکرکی شاعری میں اس کی جا بہ جا مثالیں ملتی ہیں۔
مر بھی جاوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے
اپنی منفرد شاعری کی کتاب ’’خوشبو‘‘ سے اندرون و بیرون ملک بے پناہ مقبولیت حاصل کی، انہیں اس کتاب پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ بعد ازاں انہیں پرائڈ آف پرفارمنس ایوارڈ بھی ملا۔
پروین شاکر کی تصانیف صد برگ، انکار، مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکاراور کف آئینہ، ماہ تمام، بارش کی کن من بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی، الفاظ کا انتخاب اور لہجے کی شگفتگی نے پروین شاکر کو مقبول عام شاعرہ بنادیا۔
عظیم شاعرہ پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو ایک ٹریفک حادثے میں 42 برس کی عمر میں انتقال کر گئی تھیں، پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
![]()

