Daily Roshni News

“پیروں” اور ” بابوں” کے پاس جانے کا رجحان

“پیروں” اور ” بابوں” کے پاس جانے کا رجحان

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کچھ لوگ کہتے ہیں کہ “پیروں” اور ” بابوں” کے پاس جانے کا رجحان صرف ہمارے خطے میں ہے۔ جبکہ ایسا دنیا بھر میں ہے۔ سٹیو جابز اور مارک زکر برگ جیسے بڑے لوگ ایک ہندو بابے کے معترف تھے۔

ایک ٹاک جس میں مارک زکر برگ مودی جی کیساتھ ایڈریس کر رہا تھا اس میں کہتا ہے کہ ایک بار میں اتنا مایوس ہوا کہ فیس بک بیچنے کے قریب آگیا۔ اس دوران سٹیو جابز نے مشورہ دیا کہ تم انڈیا میں ایک ہندو بابے کے “Temple” پہ حاضری دواور تمہیں اصل “مقصد” مل جائے گا۔

اس کے بعد مارک انڈیا آیا اور وہاں ایک دن قیام کے وزٹ کو دو دن میں بدلنے پہ مجبور ہوگیا۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے ایسا کیوں ہوا؟

اس بات کا سادہ سا عقلی جواب یہ ہے کہ انسان چاہے جتنا مرضی مضبوط نا ہو جائے کہیں نا کہیں اسے ایک ایسے وجود کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے دل کی مراد سُن سکے۔ جس سے وہ گلہ کر سکے اور جس سے وہ امید جوڑ کر کچھ مانگ سکے۔

کچھ لوگ یہ وجود ” خدا” کے روپ میں پا لیتے ہیں تو وہیں کچھ کو تپسیا کے بعد ” فطرت یا نیچر” سے یہ سب مل جاتا ہے۔ وہیں بہت سے لوگ اس وجود کو کسی مردہ شخص سے توقعات جوڑ کر پا لیتے ہے۔

اگر ہم تاریخ پہ جا کر غور کریں تو پتا لگتا ہے کہ انسان شروع سے ہی مذہبی چلا آ رہا ہے۔ آج سے دو لاکھ سال پہلے کا انسان جسے بولنا تک نہیں آتا تھا وہ “خدا” کے وجود پہ یقین رکھتا تھا۔ اور یہ بات میں اس لئے نہیں کر رہا کہ مجھے ڈیفنڈ کرنا ہے بلکہ اس بات کے پیچھے شواہد موجود ہیں۔ جن کی تردید ناممکن سی ہے۔ لیکن ابھی ڈاٹا مکمل نہیں۔ اور یہ ٹاپک سائنس میں متنازعہ سا ہے۔

اگر ہم مذاہب کی تاریخ دیکھیں تو ہمیں یہ چند ہزار سال پہلے تک لے جاتی ہے۔ جیسا کہ حمورابی کا دور یا اس کے نزدیک نزدیک کوئی تہذیب۔

لیکن

وہیں اگر ہم “خدا” کے وجود پہ یقین کی بات کریں تو پتا چلتا ہے کہ انسان دو لاکھ سال پہلے تک بھی خدا پہ یقین کرتا تھا۔ کبھی وہ مناجات کرکے اس سے مانگتا تو کبھی رقص کرکے منواتا۔ لیکن وہ یقین رکھتا تھا۔

اب حالیہ دور کی بات کریں تو الحاد آجاتا ہے۔

الحاد اب تک بذات خود “مذہب” بن چکا ہے۔

اس بات کی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم بات کر رہے تھے کہ کیسے انسان ایک “بابے” پہ بھی یقین کر سکتا ہے۔

تو اب جبکہ لاکھوں سالوں سے انسان خدا کے وجود پہ یقین کرتا چلا آ رہا ہے تو یہ بات ہمارے لاشعور میں بیٹھ چکی ہے۔ اب جبکہ ہم خدا کے وجود کو ماننے میں ذرا سا متزلزل ہوتے ہیں تو یہ بات ہمیں “خدا” کے متبادل کی طرف لیجاتی ہے۔ وہ شکوہ جو ہم خدا سے کرتے ہیں اس شکوے کو اب راستہ چاہیے۔ مگر چونکہ قدرتی راستہ بند ہے تو ہم پھر غیر قدرتی راستے کی طرف نکل پڑتے ہیں۔

اس راستے میں “پیرانِ کرام” “بابے” “یوگی” اور نیچر جیسے کردار آ جاتے ہیں جن سے انسان کو شکوہ کرکے “سکون” ، “تپسیا” یا پھر “calm” ملتا ہے۔ سو وہ ان کے “پاس” جانے کے بعد خود کو ہلکا محسوس کرتا ہے اور پھر دوبارہ اپنے اصل کام کی طرف توجہ مرکوز کر لیتا ہے۔

جہاں انسان خدا کے وجود سے انکار کرتا ہے وہیں پہ انسان کسی اور شے کو “خدا” ماننا شروع کر دیتا ہے۔ چاہے وہ شے “مادہ” ہو ، “نیچر” ہو یا کوئی اور۔ کیونکہ اس بات کو مانے بغیر ہمارا دماغ کبھی بھی سکون نہیں پا سکتا۔ آپ باہر سے چاہے جتنے بڑے “ملحد” بن جائیں آپ کے اندر کا انسان ایک ایسے وجود کو ضرور مانتا ہے جو کہ “خدا” ہے۔

ضیغم قدیر

منقول

Urdu stories

Loading