اپنی خوشی نہ آئے !
تحریر۔۔۔ناز پروین
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اپنی خوشی نہ آئے !۔۔۔تحریر۔۔۔ ناز پروین)شیکسپیئر کا کہنا تھا کہ دنیا ایک سٹیج ہے ۔ہر شخص آتا ہے اپنا کردار نبھا کر چلا جاتا ہے ۔۔یہ مقولہ تو ہم نے کئی بار سنا ۔لیکن اس کی حقیقت اب ہم پر آشکار ہو رہی ہے ۔جس طرح سے سٹیج پر اداکار آتے ہیں ۔اپنے کردار کے مطابق سکرپٹ یاد کر کے آتے ہیں۔ پرفارمنس دیتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں ۔واقعی یہ دنیا سچ مچ ایک سٹیج ہی تو ہے ۔نہ تو ہم اپنی مرضی سے اپنا کردار چنتے ہیں نہ ہی سکرپٹ ۔بس اوپر والے نے ہمارے لیے جو کچھ لکھ رکھا ہوتا ہے اسی کے مطابق زندگی گزار کر رخصت ہو جاتے ہیں ۔ بقول ابراہیم ذوق
لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے
اتنی بڑی حقیقت جاننے کے باوجود ہم اس دنیا میں دل لگا بیٹھتے ہیں ۔اس کی رنگینیوں میں کھو جاتے ہیں ۔لیکن اچانک جب کوئی بہت قریبی دوست عزیز رشتہ دار ہم سے بچھڑتا ہے تو پھر دنیا کی بے ثباتی کھل کر محسوس ہوتی ہے ۔آج سے کوئی دو ڈھائی سال پہلے اباسین آرٹس کونسل میں بشریٰ فرخ صاحبہ کے توسط سے آنا جانا شروع کیا ۔ ان کی ادبی ثقافتی تقریبات میں شامل ہوتی رہی ۔اباسین آرٹس کونسل کے صدر جناب عبدالرؤف روہیلہ سے سلام دعا ہوئی ۔عزیز اعجاز، ڈاکٹر نذیر تبسم ،ڈاکٹر اعجاز خٹک، اسیر منگل، ارباب فضل رٶوف ،ارباب ہاشم ،جہاں زیب ملک٫ ناصر علی سید ،بشریٰ فرخ ، ثمینہ قادر٫ ڈاکٹر شاہدہ سردار اور ان جیسی درجنوں قد آور شخصیات کے ساتھ بیٹھنا ۔۔مجلسوں میں شامل ہونا بذات خود ایک اعزاز تھا ۔تھوڑے ہی عرصے میں مجھے میڈیا ایڈوائزر منتخب کر لیا گیا۔ اتنے بڑے بڑے ناموں کے ساتھ میرا نام ایگزیکٹو باڈی میں شامل ہوا مجھے اپنے نصیب پر رشک آنے لگا۔۔اسی دوران روہیلہ صاحب سے کبھی کبھار بات چیت کرنے کا موقع ملتا ۔میں ان کی شخصیت سے بہت مرعوب تھی ۔پہلی رپورٹ بنا کر ان کو بھیجی اور ان کی رائے مانگی ۔جس پر زیر لب مسکرا کر بولے یہ آپ کا کام ہے یقیناً ٹھیک ہی کریں گی ۔میٹنگز میں براہ راست بات کرنا مجھے بہت مشکل لگتا تھا ۔کیونکہ آپ کی شخصیت ہی اتنی با رعب تھی۔اباسین آرٹس کونسل کی میٹنگز میں سب اکٹھے ہوتے بات چیت چل رہی ہوتی ۔لیکن جو نہی آپ تشریف لاتے سب خاموش ہو جاتے ۔وقت کی پابندی کا بہت خیال رکھتے ۔کونسل کا پروگرام ہو یا کسی اور تنظیم کا ہمیشہ وقت پر پہنچتے ۔ایک بات جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ یہ کہ آپ کبھی غصے میں نہ آتے ۔آپ کے سامنے اکثر ذکر کیا جاتا کہ فلاں تنظیم کے لوگوں نے آپ کے خلاف اور کونسل کے خلاف مختلف گروپس میں مخالفت کی۔۔۔ باتیں کی ہیں ۔آپ بڑے تحمل سے یہ سب سنتے اور پھر مسکرا دیتے اور کہتے ہم اپنا کام کرتے رہیں گے ہمیں کسی سے کیا لینا دینا ۔میں نے انہیں کبھی کسی کے خلاف بات کرتے نہ سنا ۔ہمہ وقت کونسل کی بہتری اس کے اراکین کی فلاح اور بہبود کے لیے کام کرتے ۔ ایک مہمان نواز شخصیت کے مالک تھے اور گاہے بگاہے اپنے گھر پر روٹری کلب کے ممبرز کے ساتھ ساتھ کونسل کے ممبران کو بھی مدعو کرتے ۔ہر رمضان باقاعدگی سے کونسل کے ممبران کے اعزاز میں افطار ڈنر رکھتے ۔ کچھ مہینے قبل شدید علیل ہو گئے ۔علاج کے لیے اسلام آباد چلے گئے ۔اس کے باوجود سب کے ساتھ رابطے میں رہے۔اس دوران دوست احباب تشویش میں مبتلا رہے ۔واپس آئے ابھی مکمل طور پر صحت یاب نہیں تھے لیکن پھر بھی دوست احباب کی مجلس بلا لی جس میں میں بھی شریک تھی ۔بستر پر لیٹے لیٹے سب سے بات چیت کرتے رہے ۔روٹری کے سالانہ لنچ کے انتظامات کے لیے مشاورت کرتے رہے گرچہ چہرے سے عیاں تھا کہ شدید تکلیف میں ہیں اس کے باوجود میزبانی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ۔صوابی میں دریا کنارے میجر عامر کے فارم ہاؤس پر روٹری کا سالانہ لنچ منعقد ہوا جس میں کونسل کے ممبران کو بھی مدعو کیا گیا ۔روہیلہ صاحب ابھی مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوئے تھے ۔اس کے باوجود ایک کرسی پر براجمان تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہتے رہے ۔سب میں اپنے ہاتھ سے تحائف بانٹتے رہے ۔میں روہیلہ صاحب کو کچھ زیادہ عرصے سے تو نہیں جانتی لیکن بعض شخصیات کے ساتھ بتائے گئے کچھ لمحات ہی آپ کو ان کا گرویدہ بنا دیتے ہیں ۔روہیلہ صاحب بھی ایسی ہی شخصیت کے مالک تھے ۔میں ایک جونیئر اور نو آموز لکھاری جسے کونسل کی تاریخ کے بارے میں کچھ زیادہ پتہ نہ تھا ۔اکثر میٹنگز میں اپنی نا تجربہ کاری کے باوجود مشورے دیتی جسے بڑے تحمل سے سنتے اور شاباش دیتے ۔انہوں نے کبھی احساس ہی نہ دلایا کہ میں کتنے سینیئر لوگوں کے درمیان بیٹھی ہوں ۔روہیلہ صاحب موسیقی کے دلدادہ تھے ۔اکثر اپنے گھر پر بھی موسیقی کی محفلیں سجاتے ۔دوست احباب کو اکٹھا کرتے ۔موسیقی کے ساتھ ساتھ مزیدار کھانے کا بھی انتظام ہوتا ۔کونسل کےواٹس ایپ گروپ میں باقاعدگی سے خوبصورت کلاسیقی غزلیں اور دھنیں شیئر کرتے رہتے ۔ایک دن پہلے چائنہ ونڈو میں ماضی کے مشہور اداکار امان صاحب کی کتاب کی رونمائی تھی ۔جس کی دعوت روہیلہ صاحب کو بھی دی گئی ۔میں کونسل کے لیے دوبارہ میڈیا ایڈوائزر منتخب ہوئی ۔میٹنگ کے بعد باہر نکل رہی تھی کہ آواز دے کر بلایا ناز یہ امان صاحب کی کتاب کی رونمائی کل کس وقت ہے ۔اور کیا یہ چائنہ ونڈو میں ہے ۔میں پوری کوشش کروں گا کہ اس میں شرکت کروں ۔اور یہ آخری جملہ تھا جو میں نے ان سے سنا ۔واٹس ایپ میسج چیک کرتے کرتے کل جب ارحم کی جانب سے میسج موصول ہوا کہ روہیلہ صاحب اس دنیا میں نہیں رہے تو ہکا بکا رہ گئی ۔دفتر میں بیٹھی کام کر رہی تھی ۔دماغ سن ہو گیا ۔کہ ابھی کل تو ملاقات ہوئی ۔پوری میٹنگ کو بڑے طریقے سے چلایا ۔صدارت کی ۔ہماری تجاویز سنیں ۔ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ ان کی آخری میٹنگ ہے ۔اباسین آرٹس کونسل ایک نادر رہنما مخلص انسان سے محروم ہو گئی ۔میں روزانہ صبح اپنا کسوٹی اخبار تمام گروپس میں شیئر کرتی ہوں ۔اور روہیلہ صاحب کو الگ سے بھیجتی ہوں ۔آج صبح اخبار شیئر کرتے وقت ہاتھ لرزنے لگے آنکھوں میں ریت آگئی کہ اخبار کے پہلے ہی صفحے پر ان کی مسکراتی تصویر کے ساتھ انا للہ وانا الیہ راجعون لکھا تھا ۔روحیلہ صاحب کو تو اب اس اخبار کی ضرورت نہیں رہی ۔وہ تو بہت خوبصورت جگہ پر چلے گئے ہیں ۔اللہ ان کے درجات بلند کرے ۔اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے ۔آمین
ناز پروین ایک معروف کالم نگار ہیں جن کے کالم پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک میں بھی شائع ہوتے ہیں ۔آپ دو کتابوں کی مصنفہ اور پشاور میں قائم چینی ثقافتی مرکز چائنہ ونڈو کی ڈائریکٹر ہیں ۔
📧 nazpervin@hotmail.com
![]()

