آج کا نوجوان آخر کیوں افسردہ ہے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو زانٹرنیشنل)جوانی کے ایام کو زندگی کے سنہری دن کہا جاتا ہے۔ اس دور میں جذبے جوان ہوتے اور کچھ کرنے کی امنگ بڑھتی رہتی ہے۔ جھپٹنے، پلنے ، اور پلٹ کر جھپٹنے کے لیے خون ہر دم گرم رہتا ہے۔ اگر زندگی کے اس حسین دور میں امنگیں پوری نہ ہوں، آرزوئیں پایہ تکمیل کو نہ پہنچیں تو زندگی کا یہ حسین وقت محرومیوں کے دور میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ نوجوانوں میں پژمردگی، پریشانی، ڈپریشن، نفسیاتی الجھنیں، ذہنی دباؤ، اسٹریس وغیرہ کیوجوہات درج ذیل ہو سکتی ہیں
… گھر والوں کی مناسب توجہ کا نہ ملنا۔
…. ماں باپ میں آپس کی لڑائی۔
….. امتحان میں ناکامی
…. وسائل کی کمی۔
دوستی یا محبت سے محرومی۔
بے روزگاری۔
ان وجوہات کی بنا پر کئی نوجوان ذہنی پریشانیوں
کے ساتھ ساتھ بعض جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔
ذہنی پریشانیوں سے بچاؤ
والدین کے لیے ضروری ہے کہ سب بچوں خاص طور پر نوجوان بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیں۔ کسی ناکامی کی صورت میں ان کی ہمت بڑھائیں اور بے جاڈانٹ ڈپٹ سے گریز کریں۔ والدین کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے بھی یہ مشورہ ہے کہ یہ عمر کے بہترین دن ہیں۔ نوجوانوں کو صحت کی نعمت اور ہمت ملی ہوئی ہوتی ہے۔ قدرت کی عطا کر دہان توانائیوں کو بھر پور اور مثبت طریقے سے استعمال کیا جائے۔ کام دیانت داری اور خوب لگن سے کیجیے۔
کسی بھی ناکامی کی صورت میں ہمت نہ ہاریں۔ کام میں دل جمعی سے لگے رہیں۔دوران پڑھائی نیند آنا اکثر طالب علم یہ شکایت کرتے ہیں ” جب بھی کتاب کھولتا ہوں فور استی چھا جاتی ہے۔ ذرا سی دیر میں سارا جسم تھکا تھکا سا محسوس ہوتا ہے اور فوراً اونگھ آنے لگتی ہے۔ یوں کتاب کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے۔“
موقع بے موقع اونگھ اور نیند کا آنا اس وقت
ہوتا ہے جب آدمی کو اس کام میں نہ کوئی دلچسپی ہو اور نہ لگاؤ یا پھر اس میں جسمانی طور پر کوئی کمزوری ہو۔
موقع بے موقع ہر وقت کچھ نہ کچھ کھانے پینے ، ورزش کی کمی یا بعض بیماریوں میں بھی بندہ ہر وقت ستی محسوس کرتا ہے اور سویا سو بار بہتا ہے۔ وہ طالب علم جو باقاعدگی سے کام نہیں کرتے اور امتحان کے دنوں میں افرا تفری میں پڑھائی شروع کرتے ہیں، ان میں اس کی خاصی شکلیت ہوتی ہے کیونکہ جب پلاننگ کے بغیر اور بے قاعدگی سے کوئی کام شروع کیا جائے تو ذہن جسم کا ساتھ نہیں دیتا اس لیے وہ کام شروع کرتے وقت ست ہوتے ہیں اور کام یا پڑھائی شروع کرتے ہی ان پر نیند غالب آنے لگتی ہے۔
علاج اور بچاؤ
جو طالب علم زیادہ اونگھ اور پڑھائی کے دوران نیند آنے میں مبتلا رہتے ہیں انہیں چاہیے کہ مندرجہ ہے کہ مندر چہ ذیل باتوں پر عمل کریں۔
….. ذہن اور جسم ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے متوازن خوراک تازہ ہوا، مناسب آرام، با قاعدہ ورزش کی ضرورت ہوتی ہے۔
جسم صحت مند ہو گا تو ذہن بھی اس کے ساتھ ساتھ چلے گا اور جو کام کیا جائے گا تو ذہن اس میں پورا ساتھ دے گا۔ ….. روزانہ اور وقت پر کام کرنے سے بہت سی پریشانیوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ضروری ہے کہ با قاعدگی کو زندگی کا شعار بنایا جائے۔ بعض نوجوانوں میں خواہ مخواہ کا ” اسٹڈی فوبیا ہوتا ہے جسے پڑھائی سے ڈر کہتے ہیں۔ جب کبھی ایسا مسئلہ در پیش ہو، صدق دل سے اللہ سے مدد مانگیں اور ذہن خالی کر کے اپنی پڑھائی پر توجہ دیں۔ ….. ایک سنہری اصول یہ ہے کہ جب کبھی زیادہ پریشانی اور ذہنی دباؤ ہو تو اس وقت ذہن پر مزید بوجھ نہ ڈالیں بلکہ خود کو بالکل فارغ چھوڑ دیں۔ کچھ دیر کے لیے آرام کریں، باہر گھو میں پھریں اور ذہن کو فریش کر کے کام کی طرف واپس آئیں۔
….. بعض طالب علم زیادہ تر جاگنے کے لیے بعض دواؤں کا بھی استعمال کرتے ہیں، جن کا اکثر الٹا اثر ہو سکتا ہے۔
….. بعض طالب علم امتحان کے دنوں میں کھاتے پیتے بہت ہیں۔ کھانے پینے کی زیادتی جسمانی ستی کا سبب بنتی ہے۔
….. امتحان کے دنوں میں بالخصوص اور عام دنوں میں بالعموم خوراک متوازن ہونی چاہیے۔ زیادہ چٹ پٹے اور مسالے دار کھانوں سے گریز کرنا چاہیے۔ کھانا ہمیشہ تھوڑی بھوک رکھ کر ہی کھایا جائے۔
توجہ کا فقدان کیوں…؟ اکثر اوقات طالب علم اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں جب بھی پڑھائی شروع کروں، توجہ بھی رہتی ہے۔ پڑھائی کے علاوہ خیالات بھی آتے رہتے ہیں۔ اکثر بھولی بسری باتیں یاد آتی ہیں اور یوں کتاب کھلی کی کھلی رہ جاتی ہے اور گھنٹوں پیٹھنے کے باوجود کتاب میں سے نہ کچھ یاد رہتا اور نہ کچھ سمجھ میں آتا ہے۔ “
ان کے برعکس وہ طالب علم جو یکسوئی کے ساتھ پڑھائی کی طرف توجہ دیتے ہیں وہ کم وقت میں مضامین کو نہ صرف یاد کر لیتے ہیں بلکہ ان پر گرفت بھی مضبوط کر لیتے ہیں اور یوں وہ کامیابی سے سرفراز ہو جاتے ہیں۔
طلبہ کے ان دونوں گروپوں میں بڑا فرق توجہ اور دھیان کا ہے۔ ایک مکمل دھیان اور توجہ کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں۔ دوسرے بغیر توجہ اور دھیان کے کام مکمل کرنے کی بے سود کوشش کرتے ہیں اور یوں انہیں پریشانی کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
وجوبات :
پڑھائی ہو یا کوئی اور کام، جس میں دلچسپی نہ لی جائے، اس میں ٹھیک طرح کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ کسی کام یا پڑھائی میں دلچسپی نہ ہونے کی
وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
…. کسی خاص مضمون میں رغبت نہ ہونا۔
…. بے قاعدہ طرز زندگی۔
….. پلانگ کا فقدان۔ ….
جسمانی اور ذہنی عوارض۔
…. مالی مسائل وغیرہ۔
توجہ اور دھیان کیسے حاصل کیا جائے….؟
کام میں مکمل دلچسپی: جب بھی کوئی کام کیا جائے تو اس میں پوری دلچسپی کا ہوناضروری ہے۔ ذہن کو یکسو کریں۔ کام شروع کرنے سے پہلے جسم کو ڈھیلا چھوڑ دیا جائے اور تمام ذہنی تنظرات کو ذہن سے نکالنے کی کوشش کی جائے اور کامیابی کے لیے اللہ سے مدد مانگی جائے۔ اس کے بعد کام یاپڑھائی میں مصروف ہو جائیں۔ ان شاء اللہ یکسوئی حاصل ہو گی اور توجہ اور دھیان کے ہوتے ہی کام ٹھیک طرح ہونے لگیں گے۔ ذہنی یکسوئی اور حاضر دماغی کے لیے مائنڈ فل نیس کی مشقیں بھی بہت مفید ہیں۔
باقاعدگی کی اہمیت زندگی کو ایک قاعدے اور ضابطے کے مطابق گزارنے سے اکثر مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو کاموں کا شیڈول بنا کر کام کرتے ہیں وہ جلدی کامیاب ہوتے ہیں۔
فیصلے خود کیجیے
جو کام خود فیصلہ کر کے کیا جائے اس میں بندے کی دلچپسی بر قرار رہتی ہے اور ذہن پوری توانائیوں سے اس کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ اکثر اوقات نوجوان لڑکے لڑکیوں کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جو کچھ لوگ ان پر ٹھونستے ہیں جس کی وجہ سے توجہ اور دھیان حاصل نہیں ہوتا۔ کسی بات میں قریبی لوگوں سے مشورہ کرناضروری ہو تو بھی جہاں تک فیصلے کا تعلق ہے وہ خود کرنا بہتر ہے۔
خوراک کی اہمیت
کھانے پینے کی بے اعتدالیاں آدمی کو کئی طرح کے مسائل میں مبتلا کرتی ہیں۔ جسم ٹھیک نہ ہو تو ذہن بھی ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتا اور بیمار آدمی توجہ اور دھیان سے کام نہیں کر سکتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ کھانا کھاتے وقت اعتدال سے کام لیا جائے۔ بھوک رکھ کر کھایا جائے اور سادہ و متوازن غذا استعمال کی جائے۔
ورزش کی اہمیت جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے ورزش کی بھی بہت اہمیت ہے۔ سادہ اور مکمل غذا کے ساتھ ساتھ با قاعده ورزش بھی ضروری ہے۔ اس سے جسم کے ساتھ ساتھ ذہن بھی تازہ رہتا ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر2021