Daily Roshni News

اکیلی رہ جانے والی لڑکیاں اور ان کی مشکلات

اکیلی رہ جانے والی لڑکیاں

اور ان کی مشکلات

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اکیلی رہ جانے والی لڑکیاں اور ان کی مشکلات) ماماآپ کہاں ہیں، ابو کو بلائیے میں ابو کے بغیر کھانا نہیں کھائوں گی۔ اتنی دیر ہو گئی ابھی تک امی ابو نہیں آئے۔ انہیں ہمارا ذرہ بھر بھی خیال نہیں“۔ یہ ان پانچ سے نو سالہ تین معصوم بچوں کی فریا ہے۔ جن کے والدین کار ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہو گئے تھے۔ بے رحم بس ڈرائیور نے یہ بھی نہیں سوچاک ان کے آشیانہ میں تین پھول کتنی بے بسی سے اپنے امی ابو کا انتظار کر رہے ہوں گے۔

تمام عزیز رشتہ دار بچوں کے گرد موجود ہیں اور مختلف تبصرے کر رہے ہیں “ہائے کتنی چھوٹی عمر میں بچوں کے سر سے ماں باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ بھری دنیے میں اُن کا کیا بنے گا“۔ چچانے ماموں سے کہا: ارے بچوں کے لیے ان کا باپ کچھ چھوڑ کرمرا ہے “ ماموں نے کہا۔

مجھے زیادہ علم تو نہیں مگر ان کے کاروبار میں مسلسل خسارہ چل رہا تھا جس کی وجہ سے ان کا بال بال قرضے میں بندھا ہوا تھا یہ مکان اور کار بھی قرض خواہوں کے پاس رہن رکھی ہوئی ہے۔ اب ان بچوں کی پرورش کا کیا بنے گا۔ چا بولے۔ماموں کہنے لگے “بچوں کے دو چچا ہیں اور ایک میں ہوں ایسا کرتے ہیں ایک ایک بچہ لے لیتے ہیں“۔ اس گفتگو میں بچوں کی چی اور ممانی بھی شریک ہو گئیں ۔ چی بولیں “ بھائی صاحب ) ہمارے اپنے خرچے پورے نہیں ہوتے تو ان بچوں کو کہاں سے کھلائیں گے اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ بچے انتہائی بگڑے ہوئے ہیں۔ اگر میں انہیں اپنے گھر لے گئی تو ہمارے اپنے بچے بھی

ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے“۔ ممانی کہنے لگیں: ”ہمارے ساتھ بھی کچھ معاملہ ایساہی ہے“۔ چچا بولے تو آخر بچوں کا کیا کیا جائے۔ چچی اور کہنے لگیں بچوں کو کسی یتیم خانے میں ڈلوا دیتے ہیں وہاں ان کی بہتر تربیت ہو سکے گی۔ ممانی بولیں “ اس طرح تو ہماری بدنامی ہو گی ایسا کرتے ہیں کہ انہیں ایسے ہی چھوڑ دیتے ہیں ویسے بھی سب کا پالنے والا تو اللہ تعالٰی ہے۔ زندگی ہوگی تو پل جائیں گے ہم کیوں مصیبت اپنے سرلیں۔

یہ کہتے ہوئے چچا ، چنگی، ماموں ، ممانی اور عزیز رشتہ دار بچوں کو روتا ہوا چھوڑ کر چلے گئے۔ اللہ تعالی نے والدین کے روپ میں انسان کو دو بہت بڑی نعمتوں اور رحمتوں سے نوازا ہے۔ باپ کے روپ میں ایک ایسا سائبان عطا کیا ہے جن کی موجودگی انسان کو دنیا بھر کی فکر و آلام سے دور رکھتی ہے۔ ماں اپنی کھنی چھاؤں سے اپنی اولاد کو زندگی بھر راحت و سکون پہنچاتی ہے۔

یہ دو عظیم ہستیاں قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں والدین کی طویل رفاقت ملی اور ان کی خدمت کرنے کا اعزاز ملا اور بد نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں والدین نصیب ہوئے مگر وہ ان کی خدمت سے محروم رہے۔

والدہ کے لیے کیا جاتا ہے کہ ماں ٹھنڈی چھاؤں ہے۔ اصل میں ماں صرف ٹھنڈی چھائوں ہی نہیں بلکہ اس کی آغوش میں دنیا جہاں کے مصائب سے ایسے آسودگی حاصل ہوتی ہے جسے نچتے ہوئے صحرا میں اچانک سائبان مل جائے۔

ایک صاحب جن کے والدین حیات نہیں ہیں اور وہ ایک لائق ڈاکٹر ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ آج والدین ہمارے درمیان نہیں ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا جہان کی آسائشوں کی باوجود میں اکیلا ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب میں میڈیکل کالج میں زیر تعلیم تھا تو مجھے اطلاع ملی کہ میری والدہ کو ہارٹ ایک ہوا ہے اور وہ قومے کی حالت میں ہیں۔ میں ان سے دور تھا لہذا دوسرے روز ہاسپیٹل پہنچ سکا۔ والدہ آئی سی یو ICU روم میں تھیں ۔ بڑی مشکل ۔

ڈاکٹرز نے ان سے ملنے کی اجازت دی۔ غمناک قدموں سے جب میں والدہ کے پاس پہنچا تو والدہ اس وقت تک ہوش میں نہیں آئی تھیں۔ میں ان کے بیڈ کے ساتھ رکھے اسٹول پر بیٹھ گیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر سہلانے لگا تھوڑی دیر بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ والدہ کو ہوش آ رہا ہے ۔ یکا یک انہیں ہوش آگیا اور انہوں نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا:

بیٹا اتنی دور سے آیا ہے۔ کھانا کھا لیا ہے تو نے، یہ ہے ماں کی عظمت جسے اپنی تکلیف نظر نہیں آرہی بلکہ اولاد کے لیے تڑپ رہی ہے۔ والدین کی گھنی چھاؤں سے محروم ہونے کے بعد شدت سے ان کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ خاص طور پر ان بچوں کو جو بہت چھوٹے ہوں یا پھر ان لڑکیوں کو جو والدین کی وفات کے بعد بالکل تنہا ہو چکی ہوں ۔ لڑکیوں کے لیے والدین کا سایہ اس لیے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے کہ لڑکیوں کا معاشرے میں تنہا رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ والدین کی موجودگی میں انہیں کسی قسم کی پریشانی لاحق نہیں ہوتی اور وہ والدین کی چھاؤں میں خود کو ہر طرح سے محفوظ سمجھتی ہیں چاہے وہ معاشی معاملے میں والدین کا بوجھ اٹھار ہی ہوں والدین کی موجودگی میں کوئی ان پر انگلی نہیں اٹھاتا۔ وہ ملازمت کے علاوہ بھی باہر آجا سکتی ہیں لیکن تنہا لڑکیوں کے لیے سخت ضرورت کے تحت بھی باہر نکلنا بعض اوقات بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔ بہت کم لوگ یا گھرانے ایسے ہوتے ہوں گے جو کہ تمہا لڑکیوں کا سہارا بنتے ہیں ورنہ تو غیر تو غیر اپنے بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور اس طرح نظریں پھیر لیتے ہیں جیسے جانتے ہی نہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بے سہارا رو جانے والی لڑکیوں کے لیے ہمدردی کے طور پر لوگ رشتے بھی بھیجتے ہیں اس دوران ان کا انداز اور رویہ بالکل ایسا ہوتا ہے جیسے وہ ان پر بہت بڑا احسان کر رہے ہوں یا اگر وہ رشتہ نہ بھیجتے تو خدا نخواستہ ان بے سہارا لڑکیوں کی شادی ہی نہیں ہو سکتی تھی۔ ان کے انداز یہ بتارہے ہوتے ہیں کہ یہ صرف ہمارا احسان ہے کہ ہم نے تم جیسی بے سہارا لڑکی کے لیے رشتہ بھیجا۔ اکثر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اکیلی (والدین کے بغیر) رہ جانے والی لڑکیاں جب زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے گھر سے باہر قدم نکالتی ہیں تو اس پڑوس والے ان پر عجیب طرح کی نظریں ڈالتے ہیں جیسے تنہا لڑکی کا ملازمت کرنا یا محنت مزدوری کرنا کوئی بری بات ہو۔ والدین سے جدائی کی تکلیف تو الگ ہے اکیلی رہ جانے والی لڑکیاں اپنے آپ کو معاشرے میں بھی تنہا محسوس کرنے لگتی ہیں ۔ کیونکہ ایسی لڑکیوں کو اک اک حرکت پر آس پڑوس کی نظر رہتی ہے۔ ایسی ہی میں سالہ لڑکی جس کے والد پانچ سال قبل اس دنیا سے جاچکے ہیں اپنی کیفیت اس شرط پر بیان کرنے کو تیار ہوئی کہ آپ میر انام ظاہر نہیں کریں گے کیونکہ میں پہلے ہی کئی عذاب جھیل رہی ہوں۔

اس کا کہنا ہے کہ میری والدہ کا انتقال تقریباً پانچ سال پہلے ہوا تھا۔ والد والدہ سے بہت محبت کرتے تھے ان کے انتقال کے بعد سے ہی ان کی طبیعت خراب رہنے لگی مگر وہ مجھ پر ظاہر نہیں کرتے تھے ہمیں والدہ کے انتقال کے بعد ابو نے بہت پیار دیا مگر شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ٹھیک ایک سال بعد ہی ابو کا سایہ بھی ہمارے سرسے اٹھ گیا۔ ابو کے رخصت ہوتے ہی سب عزیز رشتہ داروں نے آنکھیں پھیر لیں پہلا سال تو جیسے تیسے گزر گیا۔ پھر پیٹ کی بھوک ستانے لگی تو نوکری کی تلاش میں نکلی، تعلیم بھی میری F.Sc تھی۔ بڑی مشکل سے ایک ادارے میں نہایت کم تنخواہ پر مجھے رکھ لیا گیا۔ اب حقیقت میں میری پریشانیوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جیسے ہی اس خبر کو میں نے اپنی پڑوسن کو سنایا تو وہ کہنے لگی، تم نے نوکری کا فیصلہ تو کر لیا ہے مگر زمانہ بہت خراب ہے، ذرا دھیان رکھنا۔ جب میں نوکری سے گھر آئی تو لوگوں کی نظریں مجھے ایسے گھورتی جیسے میں کوئی گناہ کر کے آرہی ہوں۔ اس پر روز چھوٹا بھائی کسی نہ کسی سے لڑ جھگڑ کر آجاتا اور لوگ اس کی شکایتیں لے کر گھر آتے اور کہتے کہ اپنے لاڈلے کے لیے وقت نکالوں سارادن بھرے نہیں اڑایا کرو کچھ تو محلے کا اور اس بچے کا خیال کرو۔ ابھی تو یہ چھوٹا ہے مگر اس کی اٹھان بتارہی ہے کہ یہ تم سے بھی آگے جائے گا۔ میں لوگوں کے اس رویے پر تڑپ جاتی اور خوب روتی مگر میرے آنسو پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ابو امی کی تصویر لے کر گھنٹوں ان سے شکایت کرتی کہ آپ نے اس دنیا میں مجھے تنہا کیوں چھوڑا، مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیے، یا اب بلوالیں، عمر جب چھوٹے بھائی پر نظر پڑتی تو اپنے آنسو خود ہی صاف کر لیتی۔ اب میں کسی کی بات پر دھیان نہیں دیتی اور لوگوں سے ملنا جلنا بھی کم کر دیا ہے۔ دیکھیں اللہ تعالی اس تنہائی سے مجھے کب نجات دیتا ہے۔ اکیلی رہ جانے والی بچیوں کو ہمارے ایثار کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ خاص طور پر ان کو جو چھوٹی عمر میں ملازمت کرتی ہیں ۔ اگر ان کی ذمہ داری قریبی رشتہ دار لے لیں تو ان میں ایک احساس تحفظ پید اہو گا۔ ہمارا دین بھی یتیم کی سر پرستی کی تاکید کرتا ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2018

Loading