ایک کہانی ۔۔۔
تحریر۔۔۔ تبصیر نشاط۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ایک کہانی ۔۔۔ تحریر۔۔۔ تبصیر نشاط)وہ اپنی پیدائش سے لے کر اب تک کبھی حویلی میں اپنا جائز مقام حاصل نہ کر سکا۔ کیونکہ وہ ایک ” کنیز “کی ” اولاد “ تھا۔ ایک ”احسان “ کے عوض اس کی ماں کو حویلی کی ” بہو بیگم “ تو بنا لیا گیا۔ مگر کبھی دل سے تسلیم نہ کیا گیا۔ نہ ہی وہ ”عزت“ دی گئی۔ جو ایک بہو کو ملتی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ نوابوں کی اولاد ہو کر بھی اسے کبھی ”چھوٹے نواب“ کا درجہ نہ مل سکا۔ حالاں کہ وہ تو ان کا اپنا خون تھا۔ کیونکہ ان کے ”ضمیر“ مردہ تھے۔ اور دلوں میں ”انسانیت“ مر چکی تھی۔
وہ اپنے سرد کٹھور رویوں سے اس کے ننھے سے دل میں آگ بھر دیتے۔ کسی کو اس کی ذات سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ حتیٰ کہ اس کے باپ کو بھی نہیں۔ دیگر لوگوں کی طرح وہ بھی اس کی ماں ”زبیدہ“ کو بیاہنے کے بعد سمجھتا تھا کہ اب زبیدہ کے ”ماں باپ“ کے احسان کا بدلہ چُکا دیا ہے۔ وہ زبیدہ کے ساتھ ساتھ اس سے بھی غافل تھا۔ اپنے باپ کے لیے وہ ایک ان چاہی اولاد تھا۔ اس کی ”سالگرہ “ تک خاموشی سے گزر جاتی۔ پہلے پہل تو وہ ماں کی طرف اپنی ” خاموش نگاہیں “ اٹھاتا۔ جن میں کئی سوال چُھپے ہوتے۔ مگر ماں اس کی نگاہوں کا ”اشارہ “ سمجھ کر بھی انجان بنی رہتی۔ اس کی زبان تالو سے چِپکی ہی رہتی۔ تب وہ اس خاموشی سے گھبرا جاتا۔ اور پھر وہ ماں سے کئی سوال کرتا۔
ایسا کیوں ہے۔۔۔؟؟
میرے ”ماں باپ“ اتنے الگ الگ کیوں ہیں۔۔۔؟؟
مگر ماں اسے کبھی ”حقیقت“ نہ بتا سکی۔ وہ بس یہی سمجھاتی کہ
” نصیب اپنا اپنا “۔۔۔۔ صبر کر بیٹا۔۔۔
وہ دونوں ”ماں بیٹا“ واقعی بہت صبر والے تھے۔ اسے کبھی کسی سے محبت نہ مل سکی۔ اگر کہیں سے محبت خریدی جا سکتی۔ تو وہ اس کا پہلا ”خریدار“ بن جاتا ۔ مگر اس کی دنیا میں محبت کہاں۔ وہ تو بس اپنی ماں کا ” لاڈلا “ تھا۔ ماں ہی اس کی ”دولت اور دنیا “ تھی۔ ماں کی ” ممتا “ سے لبریز ” وقت “ ہی اس کی زندگی کا کُل اثاثہ تھا۔ اس کی زندگی میں بس ماں کے دم سے ”پیار ہی پیار “ تھا۔ حویلی والوں کی نظر میں وہ کچھ بھی سہی۔ مگر ماں کی نظر میں وہ ”اک نگینہ “ تھا۔ حویلی والے تو کم نگاہ تھے۔ وہ ” ہیرا اور پتھر “ میں فرق تلاشنے سے قاصر تھے۔ خاص طور پر اس کا چچا بہت مغرور تھا۔ وہ تو اس کی ماں سے بھی ایسی حقارت سے بات کرتا کہ دیکھنے والے یقین ہی نہ کر سکتے تھے کہ ان میں ”دیور بھابھی“ کا رشتہ ہے۔ زبیدہ کو اس کی ملازمہ ہی سمجھتے۔
وہ ” ننھا فرشتہ “ بڑا ہوا تو ”صورت اور سیرت“ میں کسی ” ہیرو “سے کم نہ لگتا تھا۔ اس کے دل میں ڈھیروں ” ارمان“ تھے۔ جنہیں وہ پورا بھی کرنا چاہتا تھا۔ مگر وہ بہت بے بس تھا۔ کیونکہ اس کے ”اپنے ہوئے پرائے“۔ اور ماں کے مرنے کے بعد تو کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا۔ جو اسے دل سے دعا دیتا اور پیار سے ماتھے پر بوسہ دے کر کہتا ” تم سلامت رہو“۔ جب تک ماں زندہ تھی۔ اسے ہر لمحہ یہی باور کراتی تھی کہ ” تُو ہے پھول میرے گلشن کا “۔ اس کی کُل کائنات ماں کی ایک تصویر تھی۔ جسے وہ ماں کی ” نشانی “ سمجھ کر سینے سے لگائے رکھتا۔ اور کبھی جب دل زیادہ بھر آتا تو ماں کی تصویر کو سینے سے لگا کرچند آنسوؤں کا ”نذرانہ“ دے ڈالتا۔
وہ جانتا تھا کہ ”محبت زندگی ہے“ مگر اس کی زندگی میں ایسا کوئی نہ تھا۔ جس کے لیے وہ سوچ سکے کہ اس سے ”رشتہ ہے پیار کا“۔ اس کے ”دامن“ میں زمانے بھر کی محرومیاں تھیں۔ اور دل میں ہر لمحہ ایک ”خلش“ سر ابھارتی کہ کوئی تو ہو۔ جو اس کے دل کی پیار بھری ”آواز“ سن سکے۔ گلشن میں ”جب جب پھول کِھلے “ اور جب جب ساحل پر ” سمندر “ کی بپھرتی موجوں نے آ کر اپنا سر پٹکا۔ یا جب کبھی عید کے دن اس کے سوتیلے ” بہن بھائی “ ایک دوسرے کو گلے لگا کر ” عید مبارک “ کہتے۔ اور اس کی جانب کسی ” دشمن “ کی طرح نظر اٹھاتے۔ تو ایسے میں وہ خود سے ایک ” وعدہ “ کرتا کہ وہ ایک دن اس حویلی میں اپنا مقام حاصل کر کے رہے گا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی زندگی میں ” پھر صبح ہو گی “۔
وہ کبھی کبھی ”ہل اسٹیشن“ چلا جاتا۔ یہی اس کی زندگی کی واحد تفریح تھی۔ وہیں ایک دن اسے ایک ”دلربا“ سی لڑکی ملی۔ وہ اپنی ” سہیلی“ کے ساتھ تھی۔ وہ لڑکی بالکل الگ اور منفرد نظر آتی تھی۔ ا س کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جس میں محبت اور اپنائیت کا احساس جھلکتا تھا۔ وہ اس کے دل کی ” انجمن“ میں کسی چاند کی طرح جگمگا اٹھی تھی۔ پہلی بار اسے محسوس ہوا کہ شاید زندگی میں کوئی ایسا شخص بھی آ سکتا ہے جو اس کی محبت کے قابل ہو۔ ا سے دیکھتے ہی بے اختیار اس کے دل میں محبت کی ”شمع“ روشن ہو گئی۔ اور اس کا جی چاہا کہ اسے ”آئی لو یو“ کہہ دے۔۔۔۔ ا سے لگا، جیسے وہ بھی اس سے کہہ رہی ہو کہ ”افشاں“ سے ”مانگ میری بھر دو“۔
لڑکی کا نام ” عندلیب “ تھا۔ اس کی سہیلی ”شبانہ“ تھی۔۔۔ اور اس کا دل بھی کچھ دیر کے لیے رک سا گیا جب اس نے اسے دیکھا۔ دونوں کی نظروں کا ملنا جیسے ایک مقدر کا کھیل تھا۔ دونوں کے دل میں ایک ہی وقت میں ایک ہی جذبہ پیدا ہوا تھا۔ لیکن وہ، جو ہمیشہ محبت اور اپنائیت کی تلاش میں تھا، اپنی قسمت سے خوفزدہ تھا۔ اس نے عندلیب کی طرف دیکھا اور اپنے دل کو سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ بھی شاید ایک خواب ہے، جو کبھی حقیقت نہیں بن سکتا۔ مگر اگلے ہی لمحے اسے خیال آیا کہ اس کے لیے اپنی محبت کو حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ اس محبت ہی نے تو اسے احساس دیا تھا کہ ”محبت زندگی ہے“۔ اس نے ”اسے دیکھا، اسے چاہا“۔ اب اس نے خود سے ایک اور عہد کیا کہ اگراسے ”خواب اور زندگی“ کے بیچ حائل فاصلے کوپاٹنے کے لیے اپنے خون کا ”نذرانہ“ بھی دینا پڑا تو وہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔
اب اس کا زیادہ وقت ہل اسٹیشن پر گزرنے لگا ۔ مگر وہ اسے دوبارہ نظر نہ آئی۔ اس کے دل کی دنیا میں ایک ”زلزلہ“ سا آ گیا۔ اس نے اسے بھولنے کی کوشش کی۔ مگر اس کی ہر کوشش کے جواب میں ”دل نے پھر یاد کیا“۔ اس کے ”دیدار“ کی خواہش، ایک ”ملاقات“ کی تمنا اسے بے چین کیے رکھتی۔ اس کی نظروں میں ’’یہاں سے وہاں تک“ ایک ہی چہرہ سمایا رہتا۔ کان اس کی ایک ”آہٹ“ کے منتظر رہتے“۔ آخرکار کئی دنوں کے بعد وہ اسے نظر آئی تو اس کے دل نے بے ساختہ موسم سے درخواست کی، اے ”بہارو! پھول برساؤ“۔ کیوں کہ ”میرا مستانہ محبوب“ آ گیا ہے۔ عندلیب کی کیفیت بھی اس سے کچھ کم نہ تھی۔ آج نگاہوں کا پیغام دونوں کی زبان پر آ پہنچا۔ دونوں ہی نے ایک دوسرے سے اقرار کیا کہ”تم ہی ہو محبوب میرے“ ۔ اب تو بس ”دل میرا دھڑکن تیری“ کی کیفیت تھی۔ یا پھر ”نیند ہماری، خواب تمہارے“۔ گویا ان کے دل ایک ساتھ دھڑک رہے تھے۔ کچھ کہے سنے بغیر ہی ان میں محبت کا خوبصورت ”بندھن“ قائم ہو گیا تھا۔
اب ان کی روز ملاقات ہونے لگی۔ محبت کی اس ”رم جھم“ میں وہ ”زندگی کا سفر“ ایک دوسرے کے سنگ گزارنے کے خواہش مند تھے۔ ”وعدے کی زنجیر“ میں بندھے ”لیلیٰ مجنوں“ کی طرح وہ بھی ایک دوسرے کے لیے ”جانِ آرزو“ بن گئے۔
مگر جلد ہی ان کی محبت کا ”افسانہ“ حویلی تک جا پہنچا۔ انہوں نے اس پر حویلی والوں کو ”بدنام“ کرنے کا الزام لگایا۔ اس پر عندلیب سے ملنے پر پابندی لگانا چاہی۔ مگر وہ نہ مانا۔ ا س نے انہیں راضی کرنے کی بہت کوشیں کیں۔ مگر بے سود۔
اُدھر عندلیب بھی اس انتظار میں تھی کہ اس کے ”راجا کی آئے گی بارات“۔
دن پر دن گزرتے رہے۔ حویلی والوں نے نے اس کے گرد اپنا ”گھیراؤ“ تنگ کیا۔ وہ اس کی خوشیوں کی راہ میں دیوار بنے ”انسان اور شیطان“ کا فرق مٹا دینے کے درپے تھے۔ مگر وہ جو اب تک ان کی ہر پکار پر ”آپ کا خادم“ کہتا آیا تھا، ان کے سامنے ایک چٹان کی مانند کھڑا ہو گیا۔ محبت کے ”جوش“ میں مبتلااس کی زبان پر اب ”جیو اور جینے دو“ کا نعرہ تھا۔ اس بغاوت پر انہوں نے اسے حویلی چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ وہ حویلی اس کے لیے آشیانہ کب تھی۔ ”شیشے کا گھر“ ہی تو تھی۔ اس نے اپنی محبت کے”راستے کا پتھر“ ہٹایا۔ اور عندلیب کے پاس چلا آیا۔ عندلیب کے گھر والے بھی اس سے متاثر تھے۔ اس نے بھی انہیں ”میرے اپنے“ کہا تھا۔ انہوں نے ان دونوں کو ایک دوسرے کا ”جیون ساتھی“ بنا دیا۔ ”چاند سورج“ کی یہ جوڑی سج گئی۔ یوں اس کی زندگی میں ”گونج اٹھی شہنائی“۔
آج اس کی زندگی میں حویلی نہیں تھی۔ صرف محبت کی ”بندگی“ تھی۔ آج اس کی زندگی مکمل ہو گئی تھی۔ حویلی والے جنہوں نے اس کی زندگی ہمیشہ محبت سے محروم رکھی تھی ، ہار چکے تھے اور اس کی محبت جیت گئی تھی۔ اوردور کہیں آسمان پر اس کی ماں مسکرا رہی تھی۔