بھولے خان
تحریر۔۔۔سید اسد علی
(قسط نمبر2)
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ بھولے خان۔۔۔ تحریر۔۔۔سید اسد علی) ہوئے اور پروفیسر صاحب سے ملاقات کے لئے اصرار کرتے رہے۔ کئی گھنٹے گزار کر بڑی مشکل سے تشریف لے گئے ۔ صاحب نے سکون کا سانس لیا۔
اگلے دن عین دس بجے بھولے خان پھر آگئے ۔ ہاتھ جوڑ کر کہتے رہے کہ نمبر دے دو۔ تھک ہار کر کہا، اچھا جس نے مضمون لکھا ہے اس کا نمبر دے دو۔ وہ میری مدد کریں گے ۔ یہ سلسلہ کم و بیش ایک ہفتہ جاری رہا۔ آخر تنگ آکر ایڈیٹر صاحب نے مجھے فون کیا اور صورت حال بتائی۔ بھائی اسد! میں بھولے خان سے تنگ آ گیا ہوں ۔ کیا انہیں آپ کا نمبر دے دوں؟ میں نے بادل نخواستہ ہاں کہہ دیا۔ شام کو آفس سے گھر پہنچا تو فون کی گھنٹی بجی ، مخاطب نے بتایا کہ وہ بھولے خان ہے۔ نمبر فلاں نے دیا ہے۔ آپ کے مضمون نے بہت متاثر کیا اور مجھے بہاولپور سے کراچی لے آیا۔ بھولے خان کو وقت دیا اور ایک ہوٹل پر ملاقات ہوئی۔ کلف لگے کپڑے پہنے تھے اور تیل لگا کر بال خوب جمائے تھے۔ بیٹھتے ہی حسب عادت واسطے دینا 1 شروع کئے۔ کئی منٹ تک واسطے دیتے رہے۔ میں نے مشکل سے راضی کیا کہ مدعا بیان کریں۔
میں نے مضمون پسند کرنے پر شکر یہ ادا کیا۔ بھولے خان: مجھے وقت دیں، ملنا چاہتا ہوں انتہائی تکلیف سے دوچار ہوں۔
درد بھری آواز میں بولے، دو بڑے مسئلے ہیں ۔ مجھے ٹیلی پیتھی کے ماہر پروفیسر کا پتہ بتا ئیں۔ ان سے ملوں کا وہ ٹیلی پیتھی کی طاقت سے مسائل حل کر دیں گے۔ میں نے کہا، پر وفیسر صاحب کا تذکرہ اس شرط پر کیا گیا تھا کہ نام اور پستہ راز میں رکھا جائے گا۔
چارونا چار وہ مسئلہ بتانے پر رضامند ہوئے۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ میری آدھی زمینوں پر چچا زاد بھائیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ چاہتا ہوں کہ پروفیسر صاحب ٹیلی پیتھی کی طاقت سے چچازاد بھائیوں کا دماغ الٹ دیں تا کہ قبضہ ختم ہو جائے ۔ میں نے بھولے خان کو سمجھایا ، اگر ایسا ہوتا تو لوگ محنت مشقت کرنا چھوڑ دیتے ، امتحان پاس کرنے ، عہدہ حاصل کرنے اور تمغے لینے کے لئے ٹیلی پیتھی جانے والے حضرات کی خدمات حاصل کرتے۔ دیکھئے بھولے صاحب ! ہر کام کا قاعدہ اور اصول ہوتا ہے۔ ٹیلی پیتھی جاننے والا اس طرح لوگوں کے مسئلے نہیں حل کرتا۔ آپ کا مسئلہ مل بیٹھ کر صلح صفائی یا پھر بات چیت سے حل ہوگا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ ان کو میری بات کچھ سمجھ میں آئی۔ کچھ دیر سوچ میں گم رہے پھر بولے، میں نے بھی ٹیلی پیتھی سیکھنے کی کوشش کی ہے۔
میں نے حیرت اور اشتیاق سے پوچھا، کیا آپ نے اس کی مشقیں کی ہیں؟ بھولے خان گھنٹوں شمع بینی کی مشق کرتا تھا۔ اور نتیجہ کیا نکلا ؟ بے تابی سے پوچھا۔
بھولے خان افسردگی سے: بے نتیجہ رہا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ کچھ مہینوں بعد مجھے اسپتال میں داخل کیا گیا سےکیوں کہ ناک سے خون آنا شروع ہو گیا تھا۔ اللہ کے ہوا کرم سے شفا ہوئی ورنہ حالت بگڑ گئی تھی ۔ لیکن جی ! میں اور پھر بھی نہیں رکا۔ وظائف پڑھنا شروع کر دیئے ۔ تجسس سے پوچھا ، اس سے کیا ہوا؟
بھولے خان نے بتایا ، ہر طرف سائے نظر آنا شروع ہو گئے ۔ جہاں جاتا سائے ساتھ ساتھ ہوتے۔ میں ڈر مو گیا۔ کپکپی طاری ہونا شروع ہوئی۔ خوف کی وجہ سے کئی ماہ گھر میں گزارے۔
بھولے خان کو سمجھایا کہ وظائف اور مشقیں ماہر استاد کی نگرانی میں کرنی چاہئیں ورنہ فائدہ کے بجائے نقصان ہوتا ہے۔ بچہ کیمیائی تجربہ گاہ (لیبارٹری میں چلا جائے مت جہاں انواع و اقسام کے کیمیکل رکھے ہوں۔ بچہ ان کو جسے ملانا شروع کر دے تو لاعلمی میں نا قابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ وظیفہ اگر استاد کی نگرانی میں نہ پڑھا جائے تو م دماغ الٹ جاتا ہے۔ ساری عمر کے لئے ! بھولے خان نے اس بات کو قطعی سنجیدگی سے نہیں لیا اور انکشاف کیا ، چھوٹے موٹے خیالات میں بھی میں منتقل کر سکتا ہوں ۔
میں مسکرا دیا اور دل رکھنے کے لئے پوچھا، وہ کیسے؟ بھولے خان: ابھی آپ کے ذہن میں خیال بھیجتا ہوں۔ بس دیکھتے جائیے ۔ گہری گہری سانسیں لیں اور ۔ مراقبہ کے انداز میں بیٹھ گئے ۔ ہم اس انتظار میں تھے کہ اب خیال ہمارے ذہن پر وارد ہو گا ۔ نہیں معلوم مشرق سے آئے گا یا مغرب سے نزول کرے گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ کچھ دیر بعد بھولے خان کے خراٹے سنائی دیئے اور ہم دبے قدموں اٹھے ۔ اس لئے نہیں کہ ان سےڈر گئے تھے بلکہ اس لئے کہ کسی کو بے آرام نہیں کرناچاہئے ۔ آخر انسانیت بھی کوئی چیز ہے۔ آہستگی سے کاؤنٹر پر گئے ، بل ادا کیا اور کاؤنٹر پر موجود صاحب کو سنجیدگی کے ساتھ نصیحت کی کہ انہیں کچھ دیر سونے دیں نہیں معلوم کب سے جاگے ہوئے ہیں۔ اور میں گھر آ گیا۔
کچھ دن بعد بھولے خان کا پھر فون آیا۔ انہوں نے منت سماجت کر کے ملاقات کی خواہش کی۔ میں نے نہ جانے کیا سوچ کر ملاقات کی ہامی بھر لی۔ بھولے خان نے چائے پیتے ہوئے کہا، میرا دوسرا مسئلہ پہلے مسئلہ سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ مجھے بات سمجھ میں نہیں آئی اور خود سے کہا، یہ تو بھولا ہے لیکن کیا تم بھی بھولے ہو جو پھر آگئے؟
میں نے پوچھا، کیسے؟ بھولے خان: کیا آپ جانتے ہیں کہ میرے ذہن میں خیالات کرتے ہیں؟
میں نے سوالیہ انداز میں اس کے جملہ کو دہرایا، آپ کے ذہن میں خیالات کرتے ہیں؟ بھولے خان: جی ہاں !
پھر مثال کا سہارا لیا اور بولے، اسد بھائی ! کیا آپ میں : بالکل دیکھا ہے۔ بھولے خان : جب پانی کم ہوتا ہے تو اس وقت نلکے سے ٹپ ٹپ ٹپ کر کے گرتا ہے۔ اسی طرح میرے ذہن میں خیالات کرتے ہیں۔ سنجیدگی سے مشورہ دیا کہ اس مسئلہ کے حل کے لئے آپ کو ماہر نفسیات سے ملنا چاہئے ۔ خیال تھا کہ وہ میری بات کا برا منا سکتے ہیں لیکن انہوں نے برانہیں منایا اور مطلع کیا کہ میں پورے پاکستان کے ماہرین نفسیات سے مل چکا ہوں مگر کوئی بھی میرے ذہن میں ٹپ ٹپ کر کے گرتے ہوئے خیالات کو روک نہیں سکا۔ میری بیماری کا علاج صرف پروفیسر صاحب کے پاس ہے۔ وہ ٹیلی پیتھی کی طاقت سے خیالات روک دیں گے۔
میں نے قہقہہ لگایا کہ یہ گھوم پھر کر وہیں آگئے ۔
بہت سمجھایا مگر ان کی سمجھ میں نہیں آیا ۔ مشکل سے انہیں بہاولپور واپس جانے پر رضامند کیا۔
مقررہ دن ہم خود انہیں اسٹیشن چھوڑنے گئے کہ واپس نہ آجائیں۔ ان کو بتایا کہ پروفیسر صاحب ملک سے باہرچلے گئے ہیں، وہ واپس آئے تو آپ کی ملاقات کی خواہش کا ان سے تذکرہ کریں گے، ان کی رضامندی پر ملاقات ضرور کرائی جائے گی ۔ ٹرین چلی تو بھولے خان کھڑکی سے ہاتھ نکال کر دیر تک ہاتھ ہلاتے رہے۔
قارئین ! مضمون کا لب لباب یہ ہے کہ ماورائی علوم سے متعلق پڑھ کر شارٹ کٹ کی تلاش میں رہنا چھوڑ دیں۔ شارٹ کٹ کا نتیجہ مختصر عرصہ کے لئے ہوتا ہے اور نہیں ہوتا۔ خیالی پلاؤ پکانے کی عادت چھوڑ کر حقیقت پسند بنیں اور علم کی اہمیت کو سمجھیں ۔ کیا مادی علوم آپ اسی طرح حاصل کرتے ہیں جیسے ماورائی علوم سیکھنا چاہتے ہیں۔؟
ہم امید کرتے ہیں کہ اس کہانی کو پڑھنے کے بعد کوئی پروفیسر صاحب کا نام پتہ یا فون نمبر معلوم کرنے کے لئے ادارہ یا مضمون نگار سے رابطہ نہیں کرے گا۔ اوراگر کسی نے جرات رندانہ اور جسارت بے باکانہ کی تو ہم بھی پوچھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ
” کیا آپ کے ذہن میں بھی خیالات کرتے ہیں ؟
سوال یہ ہے کہ
ہم جب کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس چیز کی تختی یا نرمی کا علم ہو جاتا ہے حالاں کہ وہ چیز دماغ سے ٹکراتی ) نہیں ہے ۔ غور طلب ہے کہ شعاع یا لہر اپنے اندر سختی رکھتی ہے نہ وزن ۔ پھر ہمیں یہ علم کیسے ہوتا فلاں چیز سخت ہے اور فلاں چیز نرم ہے ؟
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر 2019