Daily Roshni News

بے اطمینانی اور بے سکونی کے دور میں آخر  کیسے مطمئن رہا جائے۔۔۔؟؟

بے اطمینانی اور بے سکونی

کے دور میں آخر  کیسے مطمئن رہا جائے۔۔۔؟؟

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو زانٹرنیشنل )ہم میں سے بعض لوگ ساری زندگی سراب کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں…. خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں اور جب آنکھ کھلتی ہے تو نہ محل ہوتا ہے اور نہ وہ خوشیاں، صرف آرزوئیں ہی حسرت بن کر رہ جاتی ہیں، یہ لوگ اپنے ماضی کو بہت بُرا کہتے، حال سے طرح طرح کی شکلیت اور مستقبل سے مایوس رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو دھوکا دے کر تمام الزام قسمت پر ڈال دیتے ہیں اور گئے وقت پر ماتم کرنے لگتے ہیں۔ یاد ر کیے ! وقت گزر جانے پر افسوس بے نتیجہ ہے۔ پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

گزرے دنوں کی یاد :کچھ لوگ ماضی کی غلطیوں کو روتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ گزرے زمانے کو بہت اچھا اور حال کو بہت بُرا کہتے رہتے ہیں۔ یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ جو کچھ ہو چکا، جو کچھ گزر چکا وہ پھر ہاتھ آنے والا نہیں۔ ایک بچہ بھی اس حقیقت کو جانتا ہے پھر گزرے وقت اور گزری باتوں کے لیے خون جلانے سے کیا حاصل ….؟ بہت سے لوگ پچھلے زمانے کی ارزانی کو یاد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں پہلے گیہوں ایک روپیہ کا دوسیر (دو کلو) ملتا تھا۔ دودھ دو آنے سیر تھا۔ پھل بہت ستے ملتے تھے۔ گھی اور شہد کی نہریں بہتی تھیں لیکن ان سے پوچھیے کہ جب گیہوں دور و پیہ سیر (کلو) کا تھا تو آمدنی کا کیا حال تھا ….؟

اس وقت ایک روپیہ بھی کسی قدر سخت محنت سے حاصل ہوتا تھا …. عموماً ایسے لوگ اس پہلوپر نہیں سوچتے۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ جس کلرک کو آج تیس ہزار روپیہ ماہانہ ملتے ہیں اس زمانے میں دو تین سو روپے کسی بڑے آفیسر کی تنخواہ ہوا کرتی تھی۔

پھر ذرا ان سے پوچھیے کہ جس وقت گیہوں دو روپیہ تھا اس وقت ان کے بڑے بوڑھے کیا رونا روتے تھے….؟ وہ اپنے زمانے کو بڑا خراب زمانہ بتاتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کے باپ دادا کے زمانے میں گیہوں دور و پیہ من ملا کرتا تھا۔

ذرا پُر سکون ہو کر سوچیے …. آخر ان سب باتوں میں رکھا گیا ہے ؟ حال میں زندگی گزارنے کی تیاری کیجیے۔ یقین کیجیے کہ آج آپ کو جو کچھ حاصل ہے جس قیمت میں جو چیزیں مل رہی ہیں اسی کو آپ یاد کر کے آہیں بھریں گے۔ اسی کو آپ دس برس بعد بہت اچھا زمانہ کہیں گے۔ پھر کیوں نہ اس آج کو آج ہی اچھا جائیں اور گزرے زمانے کی یادوں سے اپنے دل و دماغ کو پریشان نہ کریں۔ اگر ماضی میں آپ سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو ان سے بھی صرف سبق حاصل کیجیے ان پر ہر وقت کڑھتے رہنے کی ضرورت نہیں۔

مستقبل کی فکر : ماضی یعنی گزرے ہوئے زمانے کی بات تو ہو چکی لیکن انسان کو اس سے بھی زیادہ بلکہ ہر وقت اپنے آنے والے واقعات اپنے مستقبل کی فکر رہتی ہے۔ قصہ مختصر که حال یعنی آج جو انسان کو میسر ہے اس سے وہ کسی طرح مطمئن نہیں ہوتا۔ یہی بے اطمینانی مستقبل کی فکر و پریشانی بن کر اسے ڈستی رہتی ہے اور اسے ایسا مریض بناتی ہے کہ وہ موجودہ خوشگوار لمحات سے بھی لطف اندوز نہیں ہو پاتا اسے طرح طرح کے خدشے لاحق رہتے ہیں کہ اگر اس کی نوکری چھوٹ گئی یا آمدنی کم ہو گئی تو اس پر کیا بیتے گی …. ؟ وہ اپنی عزت وساکھ کو کس طرح قائم رکھے گا۔

آپ شاید یقین نہ کریں لیکن ہسپتالوں میں ہزاروں مریضوں کا ریکارڈ دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ ان میں سے آدھے سے زیادہ مریض مستقبل کے اندیشوں اور تفکرات میں الجھ کر بیمار ہوئے۔ کاش ! وہ مستقبل کی ایسی اور اس طرح فکر نہ کرتے تو ہسپتال میں جانے کے بجائے مسرت بھری اور صحت مند زندگی بسر کر رہے ہوتے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم مستقبل اور آنے والے وقت کے لیے کچھ سوچنا یا انتظام کرنا ہی چھوڑ دیں …. ؟ ہم کچھ روپیہ پس انداز نہ کریں ….؟ ہم ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کی تجویزیں نہ سوچیں۔ ان کے لیے کوئی تیاری نہ کریں ….

نہیں جناب ….! آپ بڑی خوشی سے کل کی باتیں کریں، تیاریاں کریں لیکن پریشانی کی حد تک فکر کی کیا ضرورت ہے…..؟

بہت آسان سا سوال ہے

آخر ہم ساری فکر اسی لیے تو کرتے ہیں کہ ہمیں آج کے ساتھ آئندہ بھی اطمینان اور خوشی حاصل رہے لیکن اگر یہی خوشی حاصل کرنے کے لیے آپ کا آج کا چین اور آپ کی خوشی ہی ختم ہو جائے تو بھلا یہ کہاں کی سمجھ داری ہوئی“۔

سمجھ داری یہ ہے کہ آپ آئندہ کی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے آج کو غمگیں نہ بنائیں۔

حالات تیزی سے پلٹا کھاتے رہتے ہیں۔ ہم سوچتے رہتے ہیں اگر یوں ہوا تو کیا ہو گا….؟اگر ایسا ہو گیا تو کیا ہوگا…. لیکن اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ جب وہ وقت آیا تو سارے اندازے غلط ثابت ہوئے اور حالات کا ذرا سا رخ بدلنے سے سب کچھ بہت اچھی طرح بدل گیا۔

جب مصیبت سر پر آن پہنچے : اس جگہ آپ ایک چہتا ہوا سوال ضرور کر سکتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں ماضی اور مستقبل کو چھوڑئیے۔ یہ بتائے کہ جب مصیبت کسی شخص پر آہی پڑے اس کے وسائل کم ہو جانے یا عزت نفس مجروح ہو جانے یا پھر زندگی تنگ ہو جانے کا مسئلہ آج اور اسی وقت در پیش ہو تو پھر ایسا شخص کیا کرے؟ کیا وہ فکر نہ کرے، پریشان نہ ہو؟ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ مثلاً ایک شخص بے کار ہے، کوشش کرنے پر بھی اسے روزی نہیں ملتی، کوئی شخص بیمار ہونے کی وجہ سے محنت مزدوری بھی نہیں کر سکتا، کوئی اسے قرض بھی نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں اس کے اور اس کی بیوی بچوں کی روٹی کا مسئلہ اس کے سامنے منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ بتائیں ایسا شخص متفکر اور پریشان نہ ہو اور رو دھو کر اپنا جی بالکانہ کرے تو کیا کرے؟

جی ہاں ….! اس وقت ایسے شخص کے سامنے پریشان ہونے اور رونے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ لیکن یہ رونا اور پریشان ہو نا کب تک …. ؟ کیا اس سے مسئلہ حل ہو جاتا ہے یا اور پریشانی بڑھتی ہے اور پہلے سے بھی زیادہ اند ھیرا چھا جاتا ہے۔

یہاں اس بات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ تھوڑی سی تکلیف کو بہت بڑھا کر محسوس کرنا یا زیادہ تکلیف کو آہستہ آہستہ گھٹا کر محسوس کرنا ہمارے اپنے اختیار میں ہے۔ مثال کے طور پر آج معاشی مسئلہ در پیش ہے۔ دل بہت پریشان ہے تو کسی ہمدرد کے سامنے اپنے دل کا بوجھ ضرور ہا کا کر لیں۔ لیکن پھر کمر ہمت باند ھیں اور کوئی تدبیر سوچیں اس مصیبت کو حل کرنے کی۔ ورنہ وہی سوال کرتا ہوں جو ابھی کچھ دیر پہلے کر چکا ہوں کہ آخر آپ کب تک روئیں گے یا کب تک غم و سوگ منائیں گے …. ؟ کیا اس سے مصیبت دور ہو جائے گی ….؟ یقینا نہیں۔ بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ یہ مصیبت بڑھتی رہے گی۔ آپ کے دل کا خون ہوتارہے گا۔ ہاضمہ اور صحت تباہ ہو جائیں گے اور پھر آج کے بعد آنے والی کل اور پرسوں بھی آپ کے لیے کوئی اچھا پیغام لے کر نہیں آئے گی۔

 اور بھی لوگ ہیں دنیا میں آپ سے بھی زیادہ پریشان :اگر آپ کا خیال یہ ہے کہ آپ جیسی مصیبت کسی پر پڑی ہی نہیں تو یہ خیال غلط ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ جیسا کوئی بیمار اس دنیا میں نہیں تو کسی ہسپتال میں جاکر دوسروں کو دیکھیے۔ آپ کانوں پر ہاتھ رکھ لیں گے اور آنکھیں بند کر لیں گے جب وہاں جان لیوا امراض میں مبتلا افراد آپ کو دیکھنے کو ملیں گے۔ اگر آپ اپنی کوششوں میں ناکام ہوئے ہیں تو دوبارہ کوششیں کریں۔

رونے یا غم و غصہ کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ سوچنے سمجھنے کی قوت بھی متاثر ہو جاتی ہے، آگے بڑھنے کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے تو کیوں نہ غم کو اپنے دل کی گہرائیوں سے باہر نکال کر پھینکیں اور اللہ کے بھروسے پر دل جمعی سے دوبارہ کوشش شروع کریں۔

اپنی موجودہ پریشانیوں کو حل کرنے کے لیے سوچنے سے زیادہ عمل کریں۔ لوگوں سے ملتے رہیں۔ دوڑ دھوپ کرتے رہیں۔ بے کاری کو دور کرنے کے لیے کچھ بھی کام کر لیں۔ مصروف رہنے سے غم غلط ہوتا ہے۔ سو سوچیں تو اچھی باتیں سوچیں۔ یاس و نا امیدی کی باتیں سوچنے سے اند ھیرا ہو جاتا ہے اور آگے بڑھنے کا راستہ بھی نہیں دکھائی دیتا۔ صبر کریں،

حالات سے سمجھوتہ کریں:

ایک بات اور عرض کردوں۔ یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ کچھ حالات ہی ایسے ہوتے ہیں جو ہمارے قابو اور ہمارے اختیار سے باہر ہوتے ہیں ۔ انہیں بدلا نہیں جاسکتا۔ کچھ مصیبتیں ہی ایسی ہوتی ہیں جن پر صبر کے سوا انسان کچھ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ جب کوئی پریشانی پیش آئے تو اس پر صبر کریں۔ جب ایسے حالات پیش آئیں جنہیں آپ بدل نہیں سکتے تو خود کو ان کے مطابق ڈھال لیں۔ “کبھی ڈھالو اور کبھی ڈھل جاؤ“۔ یہ ہے کامیاب : ، زندگی کا کامیاب فارمولا۔ جن حالات کو ہم اپنے مطابق نہیں بنا سکتے ان پر اگر ہم کڑھنے لگیں یا بر ہم رہنے لگیں تو حالات جوں کے توں رہیں گے ۔ ہاں ہماری صحت ضرور بر باد ہو سکتی ہے اور ہمارادل ضرور دکھی ہو سکتا ہے۔ جس چیز کو ہم بدل نہیں سکتے اس پر صبر کر لیں۔ جو کچھ نا گزیر ہو اسے مجبور آیا ہو سکے تو ہنسی خوشی منظور کرلیں۔ یہ لچک ہمیں غموں اور مصیبتوں سے چھٹکارا دلانے میں مدد دے گی۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ ستمبر2021

Loading