Daily Roshni News

جس نے گھڑی بنائی ہوگی اس نے ٹائم کہاں سے دیکھا ہو گا

جس نے گھڑی بنائی ہوگی اس نے ٹائم کہاں سے دیکھا ہو گا

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )جواب:-دنیا میں سب سے پہلے جس نے گندم اگائی، اسے کیسے پتا چلا کہ اس سے روٹی بن سکتی ہے؟ دنیا میں جس نے سب سے پہلا ٹی وی یا ریڈیو بنایا، اس نے کونسا چینل ٹیون کیا؟ دنیا میں سب سے پہلی گاڑی جس نے بنائی، اس نے پٹرول کہاں سے بھروایا؟ دنیا میں سب سے پہلا فون جس نے بنایا، اس نے کس کو فون کیا؟ دنیا میں سب سے پہلے جس نے گفتگو کی، اس کو کیسے پتا لگا کہ کیا بولنا ہے اور سننے والے کو اس کی بات سمجھ کیسے آئی؟

اس طرح کے سوالات کی وجہ ایک گہرا ذہنی مغالطہ ہے جو کہ دنیا کو کسی ایک مستحکم حالت میں سمجھنا ہے۔ جس میں اچانک سے ہی کچھ ہو جاتا ہے۔ دنیا کا یہ اصول نہیں۔ دنیا روز بدل رہی ہے۔ ایجادات بھی کسی تدریج سے ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ کسی اچانک رونما ہو جانے والی بڑی تبدیلی یا حادثے کے پیچھے بھی اپنی ایک لمبی تاریخ ہوتی ہے۔

اب آتے گھڑی اور الارم کی تاریخ پہ۔۔۔

صبح سحری کے لئے اٹھنا ہے۔ باہر ابھی اندھیرا ہے اور گھڑی کا الارم بول پڑا۔ اس کی بلند آواز نے گہری نیند کو توڑ دیا۔ نیم وا آنکھ سے گھڑی پر دیکھا۔ پورے تین بجے ہیں۔ گھڑی کے ان اعداد سے آپ اپنی پوری زندگی منظم کر سکتے ہیں لیکن ایسا ہمیشہ سے تو نہیں تھا۔ تو جب ڈیجیٹل یا مکینیکل گھڑیاں نہیں تھیں تو معاشرہ اپنے آپ کو منظم کیسے کیا کرتا تھا؟

انسان ہمیشہ سے اس کے طریقے ڈھونڈتا آیا ہے۔ سادہ طریقے، جن میں سے کئی اب بھی کہیں استعمال ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ اس کا تعلق سورج اور آسمان پر اس کی حرکت سے رہا ہے۔ قدیم تہذیبیں جیسا کہ بابل، چین، مصر اور ہندستان زمانہ قدیم سے سورج کے روزانہ کے چکروں کو مختلف پیرئیڈ میں تقسیم کرتی آئی ہیں۔ اس میں ایک مسئلہ یہ رہا کہ موسم کے حساب سے دن کی طوالت بدل جاتی ہے اور خاصی بدل جاتی ہے۔ اور اس کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ کہ رات کو سورج آسمان سے غائب ہوتا ہے۔

مصریوں کو، ہماری طرح، وقت کی پیمائش کرنا تھی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے مصری ماہرینِ فلکیات نے 36 ستاروں کے سیٹ کا مشاہدہ کیا اور ان میں سے اٹھارہ کی جگہوں کی مختلف اوقات میں نشاندہی کر لی تا کہ جب سورج نہ ہو تو ان کی مدد سے وقت کی پیمائش کی جا سکے۔ ان میں سے چھ کو جھٹپٹے کے وقت کے تین گھنٹوں کے لئے، جو رات کے دونوں اطراف میں ہیں اور باقی بارہ سے تاریکی کے اوقات کو برابر کے حصوں منیں تقسیم کرنے کے لئے۔

اس سسٹم کو مزید سادہ آج سے ساڑھے تین ہزار سال قبل کر لیا گیا اور صرف بارہ ستاروں تک محدود کر دیا گیا۔

بابل میں ایک گھنٹے کی طوالت بدلتی رہتی تھی۔ ساٹھ منٹ کا صرف ایکوئینوکس کے وقت ہوتا تھا۔ یعنی اس وقت جب دن اور رات برابر ہوتے تھے۔ ساٹھ کا ہندسہ اہلِ بابل کے لئے ساٹھ اہمیت رکھتا تھا اور اس بنیاد پر گنتی کا طریقہ انہوں نے یہ سمیریوںں سے لیا تھا۔ ساٹھ، بغیر کیلکولیٹر کے، ریاضی کرنے کے لئے ایک دلچسپ عدد ہے کیونکہ یہ ایک سے لے کر چھ تک ہر عدد پر آسانی سے تقسیم ہو جاتا ہے۔ گھنٹے میں ساٹھ منٹ کا تصور یہیں سے آیا۔

گھنٹے کی لمبائی کو یکساں بنانے کے لئے دوسری صدی قبلِ مسیح میں یونانی ماہرینِ فلکیات نے طریقہ نکالا لیکن اس کو مقبولیت صرف اس وقت ملی جب مکینیکل گھڑیاںں متعارف ہوئیں۔ اس وقت تک عام لوگ گھنٹے کو ویری ایبل لمبائی کا استعمال کرتے رہے۔

مکینیکل گھڑی بنانے کی ضرورت یورپ میں مسیحی راہبوں کو پیش آئی تھی جو عبادت کے لئے اور روزانہ کے شیڈول کے لئے دن کی تقسیم ٹھیک ٹھیک کرنا چاہتے تھے۔ سب سے پہلی مکینیکل گھڑی جس کا ریکارڈ موجود ہے وہ یورپ میں 996 میں میگدے برگ میں بنی تھی۔ چودہویں صدی میں بڑی مکینیکل گھڑیاں یورپ کے گرجا گھروں میں لگنا شروع ہو گئیں۔ ان میں سے سب سے پرانی گھڑی سالسبری کے کیتھڈریل میں لگی ہے جو 1386 کی ہے۔

جدت آنے سے گھڑی کے چھوٹے پارٹس آنا شروع ہو گئے اور پندرہویں صدی میں پہلی بار گھروں کے لئے گھڑی بننا شروع ہوئی۔ ذاتی استعمال کے لئے ٹائم پیس سولہویں صدی میں شروع ہوئے۔

ان گھڑیوں میں منٹ نہیں ہوا کرتے تھے اور گھنٹے کو منٹوں میں تقسیم کرنے کا آئیڈیا سترہویں صدی تک بھی زیادہ نہیں جانا جاتا تھا۔ تو پھر لوگ کاموں کا یا ملاقات کا وقت طے کیسے کیا کرتے تھے؟ خطِ استوا کے قریب کے ممالک میں ایک طریقہ استعمال ہوتا تھا جس میں سورج کی جگہ کی طرف اشارہ کر کے کہا جاتا تھا کہ جب سورج یہاں ہو گا تو پھر یہ کام کیا جائے گا یا ملاقات ہو گی۔ لیکن زیادہ عام پریکٹس دھوپ گھڑی پر انحصار کرنا تھی، جو ہر طرح کے تھے۔ سادہ چھڑی جو زمین میں گاڑی گئی ہو یا میناروں کے سائے یا خاص طور پر اسی کام کے لئے بنائے گئے ڈائل۔

وقت بتانے کے اس مقبول طریقے کی وجہ سے گھڑی وار اور مخالف گھڑی وار کے تصورات آئے۔ زمین اپنے محور پر ایک ڈائرکشن میں حرکت کرتی ہے۔ زیادہ تر تہذیبوں نے شمالی کرے میں جنم لیا ہے اور زمین کی اس گردشی سمت کی وجہ سے یہ سایہ شمالی کرے میں جس سمت میں حرکت کرتا ہے، اس کا تعلق زمین کی گردش سے ہے۔ مکینیکل گھڑیوں بنانے والے دھوپ گھڑیوں کے عادی تھی اس لئے ان کی سوئیاں بھی ویسے ہی حرکت کرتی ہوئی بنائی گئیں۔ (اگر آسٹریلیا یا جنوبی افریقہ وغیرہ بڑی تہذیبوں کا گڑھ ہوتے تو گھڑی میں سوئیوں کے چکر الٹ ہوتے)۔

قدیم تہذیبوں کے پاس وقت رکھنے کے کئی اور طریقے بھی تھے۔ مثال کے طور پر پانی کی گھڑیاں، یا پندرہویں صدی قبلِ مسیح سے استعمال ہونے والی ریت کی گھڑیاں۔

ان گھڑیوں کی زیادہ ایکوریسی نہیں تھی اور شمالی یا جنوبی جانب زیادہ لیٹی چیوڈ پر سورج کا سایہ کچھ زیادہ فائدہ مند نہیں رہتا تھا۔ سکینڈے نیوین نے “دن کے نشان” ایجاد کئے۔ یہ ایک سسٹم تھا جس میں افق کے آٹھ حصے کئے گئے۔ سورج جس کے زیادہ قریب ہوتا تھا، اس سے وقت کا تعین ہوتا۔

صبح اٹھنے کے لئے بھی ہمارے آباوٗاجداد نے کئی طرح کی طریقے ایجاد کئے۔ ایک سادہ طریقہ یہ تھا کہ رات کو پانی پی کر سویا جاتا، جنتا جلد اٹھنا ہوتا، اتنا زیادہ۔ ایک اور طریقہ دیہی علاقوں میں مرغے کی بانگ سے تھا۔ کمیونیٹی کے لئے فجر کی اذان، گرجوں میں یا دوسرے عوامی مقامات پر نصب گھنٹیاں یہ اعلان تھے کہ اٹھنے کا وقت ہو گیا۔

جب اٹھارہویں صدی میں فیکٹری اور صنعت متعارف ہوئی تو فیکٹری کی سیٹی اٹھانے کا کام کرتی تھی۔ اس کے بعد لوگ آئے جن کو نوکرز اپ کہا جاتا تھا جن کا کام لمبے ڈنڈے لے کر گلیوں میں پھرنا اور لوگوں کی کھڑکیاں اور دروازے بجا کر ان کو اٹھانا ہوا کرتا تھا۔

اس کے بعد الارم کلاک آ گئے۔ مرغے کی بانگ، گلی گلی پھرنے والوں کے ڈنڈے اور فیکٹری کی سیٹٰیوں کی جگہ انہوں نے لے لی۔ اور اب آپ اپنی مرضی کے ٹھیک ٹھیک وقت کا الارم لگا کر اٹھ سکتے ہیں۔ گہری نیند یا مزیدار خواب کے بیچ میں اس کا بجنا خوشگوار تو نہیں لگتا لیکن دن بھی تو شروع کرنا ہے۔ 🤨

Loading