ذیابیطس
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ذیابیطس۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )14 نومبر کو عالمی ذیابیطس کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ذیابیطس کو خاموش قاتل کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ یہ ایک بیماری کئی امراض کا باعث بن سکتی ہے اور حیرت انگیز طور پر ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار 25 فیصد افراد کو اکثر اس کا شکار ہونے کا علم ہی نہیں ہوتا۔
اس مرض کا شکار ہونے کی صورت میں کچھ علامات ایسی ہوتی ہیں جس سے عندیہ ملتا ہے کہ آپ کو اپنا چیک اپ کروا لینا چاہئے تاکہ ذیابیطس کی شکایت ہونے کی صورت میں اس کے اثرات کو آگے بڑھنے سے روکا جاسکے۔
ایک تحقیق کے مطابق خون میں چینی کی مقدار میں تیزی سے اضافہ اور انسولین کی مزاحمت جیسی ذیابیطس کی ابتدائی علامات مرض کے باقاعدہ آغاز سے کئی سال پہلے ایسے متعدد افراد میں دیکھی گئی ہیں جنھیں بعد میں پری ڈائیبٹیز ہوئی جسے عموما ٹائپ ٹو ذیابیطس کا سبب سمجھا جاتا ہے۔
محققین کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ ذیابیطس کو پنپنے سے روکنے کا عمل زندگی میں بہت پہلے شروع کر دیا جانا چاہیے۔یہ جاپانی تحقیق 2005 سے 2016 کے درمیان کی گئی اور اس میں 27 ہزار ایسے افراد کے باڈی ماس انڈیکس، نہار منہ خون میں شوگر کی مقدار اور انسولین کی مزاحمت کی جانچ کی گئی جو ذیابیطس کے مریض نہیں تھے۔ان افراد کی عمر 30 سے 50 برس کے درمیان تھی اور ان میں سے زیادہ تر مرد تھے۔
انسانی جسم میں انسولین کے خلاف مزاحمت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہمارے جسم کے خلیے انسولین ہارمون کے تئیں مناسب ردعمل نہیں دیتے اور اس کا نتیجہ کئی خرابیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔بڑھے ہوئے باڈی ماس انڈیکس کو ٹائپ 2 ذیابیطس کی اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔تحقیق کے شرکا کو 2016 یا اس وقت تک زیرِ نگرانی رکھا گیا جب تک ان میں ٹائپ ٹو ذیابیطس کی تشخیص نہیں ہو گئی۔ اس تحقیق کے دوران کل 1067 افراد میں اس بیماری کی تشخیص ہوئی۔
محققین نے پتہ چلایا کہ تشخیص سے دس برس قبل بھی ان افراد کے خون میں چینی کی مقدار صبح کے وقت زیادہ تھی اور ان کا جسم قدرتی انسولین سے مزاحم تھا جبکہ ان کا بی ایم آئی بھی زیادہ تھا۔
یہی علامات ایسے افراد میں بھی پائیں گئیں جو پری ڈائیبٹیز کا شکار ہوئے۔محققین کا کہنا ہے کہ ایسے افراد جنھیں ٹائپ 2 ذیابیطس ہوتی ہے ان میں سے زیادہ تر پری ڈائبٹیز مرحلے سے گزرتے ہیں سو اس کا مطلب یہ ہے کہ ذیابیطس کے خطرے سے بیماری کے لاحق ہونے سے دو دہائی قبل بھی آگاہ ہوا جا سکتا ہے۔یہ تحقیق یورپی ایسوسی ایشن فار دی سٹڈی آف ڈائبیٹیز کانفرنس میں پیش کی گئی اور جرنل آف اینڈوکرائن سوسائٹی میں شائع ہوئی ہے۔
محققین کی ٹیم کے سربراہ اور ماٹسوموٹو جاپان کے ایزاوا ہسپتال سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ہیرویوکی سیجساکا کا کہنا ہے کہ ’چونکہ پری ڈائبیٹیز کے بعد ذیابیطس کو روکنے میں زیادہ کامیابی نہیں ملی ہے اس لیے اس کی علامات سامنے آنے سے کہیں پہلے ہمیں اس پر قابو پانا چاہیے تاکہ مستقبل میں یہ ذیابیطس کی مکمل شکل نہ دھار سکے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے لیے ضروری ہے کم عمر افراد پر تجربہ کیا جائے جو چاہے دوا کا ہو یا طرزِ زندگی کی تبدیلی کا۔‘
تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ایسے افراد جنھیں مستقبل میں ٹائپ 1 ذیابیطس ہونے کا خطرہ ہوتا ہے انھیں ابتدا میں غلطی سے ٹائپ 2 کا مریض سمجھ لیا جاتا ہے۔اس تحقیق کے مطابق 39 فیصد ایسے افراد جن کی عمر 30 برس سے زیادہ تھی اور جنھیں ٹائپ 1 ذیابیطس تھی انھیں فوری طور پر انسولین نہیں تجویز دی گئی۔خیال رہے کہ ٹائپ 1 ذیابیطس میں مریض کو فوراً انسولین دی جاتی ہے جبکہ ٹائپ 2 میں اکثر مریض کی خوراک اور ورزش کی مدد سے خون میں چینی کی مقدار کم کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
علامات
1: زیادہ پیشاب آنا
جسم خوراک کو شوگر میں تبدیل کرنے میں زیادہ بہتر کام نہیں کرپاتا جس کے نتیجے میں دوران خون میں شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور جسم اسے پیشاب کے راستے باہر نکالنے لگتا ہے ۔ تاہم اس مرض کے شکار اکثر افراد اس خاموش علامت سے واقف ہی نہیں ہوتے اور نہ ہی اس پر توجہ دیتے ہیں۔ خاص طور پر رات کو جب ایک یا 2 بار ٹوائلٹ کا رخ کرنا تو معمول سمجھا جاسکتا ہے تاہم یہ تعداد بڑھنے اور آپ کی نیند پر اثرات مرتب ہونے کی صورت میں اس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے
2: پیاس لگناحلق خشک ہونا
بہت زیادہ پیشاب کرنے کے نتیجے میں پیاس بھی زیادہ محسوس ہوتی ہے اور ذیابیطس کے مریض افراد اگر جوسز، کولڈ ڈرنکس یا دودھ وغیرہ کے ذریعے اپنی پیاس کو بجھانے کی خواہش میں مبتلا ہوجائیں تو یہ خطرے کی علامت ہوسکتی ہے۔ یہ میٹھے مشروبات خون میں شکر کی مقدار کو بڑھا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں پیاس کبھی ختم ہونے میں ہی نہیں آتی۔
3: وزن میں کمی
جسمانی وزن میں اضافہ ذیابیطس کے لیے خطرے کی علامت قرار دی جاتی ہے تاہم وزن میں کمی آنااس مرض کی ایک علامت ہوسکتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق جسمانی وزن میں کمی دو وجوہات کی بناءپر ہوتی ہے، ایک تو جسم میں پانی کی کمی ہونا (پیشاب زیادہ آنے کی وجہ سے) اور دوسری خون میں موجود شوگر میں پائے جانے والی کیلیوریز کا جسم میں جذب نہ ہونا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کا علم ہونے کی صورت میں جب لوگ اپنے بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنا شروع کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں وزن بڑھ سکتا ہے مگر یہ اچھا امر ہوتا ہے کیونکہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ بلڈ شوگر ک لیول زیادہ متوازن ہے۔
4: کمزوری اوربھوک زیادہ لگنا
یہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں کہ ذیابیطس کے مریضوں کو اچانک ہی بھوک کا احساس ستانے لگے اور ان کے اندر فوری طور پر زیادہ کاربوہائیڈیٹ سے بھرپور غذا کی خواہش پیدا ہونے لگے۔ بی ماہرین کے مطابق جب کسی فرد کا بلڈ شوگر لیول بہت زیادہ ہوا تو جسم کے لیے گلوکوز کو ریگولیٹ کرنا مسئلہ بن جاتا ہے، جس کے نتیجے میں جب آپ کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور غذا استعمال کرتے ہیں تو مریض کا جسم میں انسولین کی مقدار بڑھ جاتی ہے جبکہ گلوکوز کی سطح فوری طور پر گرجاتی ہے جس کے نتیجے میں کمزوری کا احساس پیدا ہوتا ہے اور آپ کے اندر چینی کے استعمال کی خواہش پیدا ہونے لگتی ہے اور یہ چکر مسلسل چلتا رہتا
5:تھکاوٹ
یقیناً تھکاوٹ تو ہر شخص کو ہی ہوتی ہے مگر ہر وقت اس کا طاری رہنا ذیابیطس میں مبتلا ہونے کی اہم علامت ثابت ہوسکتی ہے۔ ذیابیطس کا شکار ہونے کی صورت میں خوراک جسم میں توانائی بڑھانے میں ناکام رہتی ہے اور ضرورت کے مطابق توانائی نہ ہونے سے تھکاوٹ کا احساس اور سستی طاری رہتی ہے۔ اسی طرح ذیابیطس ٹائپ ٹو میں شوگر لیول اوپر نیچے ہونے سے بھی تھکاوٹ کا احساس غلبہ پالیتا ہے۔
6:پل پل مزاج بدلنا یا چڑچڑا پن
جب آپ کا بلڈ شوگر کنٹرول سے باہر ہوتا ہے تو آپ کو کچھ بھی اچھا محسوس نہیں ہوتا ایسی صورت میں مریض کے اندر چڑچڑے پن یا اچانک غصے میں آجانے کا امکان ہوتا ہے۔ درحقیقت ہائی بلڈ شوگر ڈپریشن جیسی علامات کو ظاہر کرتا ہےیعنی: تھکاوٹ، ارگرد کچھ بھی اچھا نہ لگنا، باہر نکلنے سے گریز اور ہر وقت سوتے رہنے کی خواہش وغیرہ۔ ایسی صورتحال میں ڈپریشن کی جگہ سب سے پہلے ذیابیطس کا ٹیسٹ کرالینا زیادہ بہتر ثابت ہوتا ہے خاص طور پر اس وقت جب اچانک مزاج خوشگوار ہوجائے کیونکہ بلڈ شوگر لیول نارمل ہونے پر مریض کا موڈ خودبخود نارمل ہوجاتا ہے۔
7:بنیائی میں دھندلاہٹ
ذیابیطس کی ابتدائی سطح پر آنکھوں کے لینس منظر پر پوری طرح توجہ مرکوز نہیں کرپاتے کیونکہ آنکھوں میں گلوکوز کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں عارضی طور پر اس کی ساخت یا شیپ بدل جاتی ہے۔ چھ سے آٹھ ہفتے میں جب مریض کا بلڈ شوگر لیول مستحکم ہوجاتا ہے تو دھندلا نظر آنا ختم ہوجاتا ہے کیونکہ آنکھیں جسمانی حالت سے مطابقت پیدا کرلیتی ہیں اور ایسی صورت میں ذیابیطس کا چیک اپ کروانا ضروری ہوتا ہے۔
8:زخم یا خراشوں کے بھرنے میں تاخیر
زخموں کو بھرنے میں مدد دینے والا دفاعی نظام اور پراسیس بلڈ شوگر لیول بڑھنے کی صورت میں موثر طریقے سے کام نہیں کرپاتا جس کے نتیجے میں زخم یا خراشیں معمول سے زیادہ عرصے میں مندمل ہوتے ہیں اور یہ بھی ذیابیطس کی ایک بڑی علامت ہے۔
9:پیروں میں جھنجھناہٹ
ذیابیطس کی شکایت سے قبل بلڈ شوگر میں اضافہ جسمانی پیچیدگیوں کو بڑھا دیتا ہے ۔ اس مرض کے نتیجے میں اعصابی نظام کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور اس کے نتیجے میں آپ کے پیروں کو جھنجھناہٹ یا سن ہونے کا احساس معمول سے زیادہ ہونے لگتا ہے کہ جو کہ خطرے کی گھنٹی ہوتا ہے۔
پیشاب میں شکر کی زیادہ مقدار بیکٹریا کے افزائش نسل کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں مثانے کے انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ بار بار انفیکشن کا سامنے آنا فکرمندی کی علامت ہوسکتی ہے اور اس صورت میں ذیابیطس کا ٹیسٹ لازمی کرالینا چاہئے کیونکہ یہ اس مرض میں مبتلا ہونے کی بڑی علامات میں سے ایک ہے۔
10: خواتین میں جسم خصوصا پرائیویٹ پارٹ میں شدید خارش، چہرے پہ چھائیاں پہلی علامات ہیں جو کسی دوا سے ٹھیک نہ ہو رہی ہوں تو فورا ذیابیطس کا ٹیسٹ کروانا چاہیے ہے۔
ذیابیطس کی اقسام
1:ذیابیطس کی پہلی قسم غدہ حلوہ یا لبلبہ (Pancreas) میں موجود بیٹا خلیات (Beta cells) کی خرابی ہے جس سے انسولین کی مقدار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ بیٹا خلیات میں خرابی ت خلیات (T-cells) کا خود مناعی حملہ ہے۔اس کا علاج انسولین کا جسم میں ادخال اور دموی شکر کی سطح کی نگرانی ہے۔ انسولین کی عدم موجودگی سے بعض اوقات شکری تیزابی دمویت (ketoacidosis) لاحق ہوجاتی ہے جو کوما یا موت کا سبب بن سکتی ہے۔ اب علاج میں غذا اور جسمانی مشق کو بھی شامل کر لیا گیا ہے، تاہم یہ بیماری کی پیش رفت کو اُلٹ نہیں سکتے۔
2:ذیابیطس کی دوسری قسم انسولین کے خلاف مدافعت یا حسّاسیت اور انسولین کا کم اخراج ہے۔ جسمانی بافتوں کا انسولین کے لیے استجاب (response) میں زیادہ تر خلوی جھلی (cell membrane) میں موجود انسولین حاصلہ (insulin receptor) کارفرما ہوتا ہے۔ بیماری کے اوّلین مراحل میں، انسولین کے لیے استجابیت کم اور خون میں انسولین کی مقدار وافر ہوجاتی ہے۔ اِس صورت حال میں کئی ایسے اقدام اُٹھائے جاسکتے ہیں جس سے انسولین کے لیے استجابیت زیادہ یا لبلبہ کا پیدا شدہ انسولین کی مقدار میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ جیسے جیسے بیماری ترقی کرتی ہے، انسولین کی مقدارdose میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور بالآخر انسولین کو طبّی طور پر جایگزینی (replacement) کی ضرورت پیش آجاتی ہے۔
3:حملی ذیابیطس (Gestational diabetes) کئی باتوں میں ذیابیطس کی دوسری قسم سے مشابہت رکھتا ہے۔ اِس میں انسولین کی قدرے کم اخراج اوراستجابیت (responsiveness) شامل ہیں۔ یہ تمام میں سے تقریباً 2 سے 5 فیصد حملات (pregnancies) میں واقع ہوتا ہے اور بچے کی پیدائش کے بعد بڑھتا یا غائب ہوجاتا ہے۔حملی ذیابیطس مکمل قابلِ علاج ہے تاہم حمل کے کُل دورانیے میں محتاط طبّی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اِس کے زیرِ اثر خواتین میں سے 20 تا 50 فیصد خواتین بعد میں ذیابیطس کی دوسری قسم کا شکار ہوجاتی ہیں۔
اسے کیسے چیک کیا جا سکتا ہے؟
مختلف طرح کے گلوکو میٹرسے یا سینسر سےیہ بلڈ شوگر کی مسلسل نگرانی کرتے ہوئے ہر چند منٹ میں ریڈنگ فراہم کرتے ہیں ۔اس کے لئے آپ کی جلد کی نیچے ایک چھوٹا سا سینسر شامل کیا جاتا ہے
یہ سینسر آپ کے بیچوالا گلوکوز کی سطح کی پیمائش کرتا ہے اور پھر حاصل ہونے والی ریڈنگ کو پیجر نما مانیٹر یا پھر آپ کے فون میں موجود کسی ایپ پر بھیجتا ہے اور ایک الارم کے ذریعے آپ کو مطلع کرتا ہے۔
اگرچہ اس میں ذیابیطس کی مانیٹرنگ کے لئے جلد کے نیچے سینسر چپ لگی ہوتی ہے پر پھر بھی آلے کو فعال بنانے کے لئے دن میں ایک یا دو مرتبہ اس میں بلڈ کا سیمپل دینا ہوتا ہے۔
فری اسٹائل لبرے سسٹم آپ کے بلڈ شوگر کو چیک کرنے کا ایک اور طریقہ ہے ۔اگر چہ اس طریقہ کار میں سی جی ایم اور گلو کو میٹر کے ساتھ کچھ خصوصیات مشترک ہیں، لیکن اس میں انگلی سے خون لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اب آپ بھی فری اسٹائل لبرے کے ساتھ آپ کی جلد کے نیچے چھوٹا سا سینسر ڈالیں گے۔یہ سی جی ایم سے مختلف ہے کہ آپ کو اس سے مسلسل ریڈنگ نہیں ملے گی۔ لیکن میٹر کے ساتھ رکھنے پر ریڈر پر ریڈنگ مل جائے گی جس سے آپ اپنے بلڈ شوگر لیول کو جانچ سکتے ہیں۔
پیشاب کا ٹیسٹ
ایک اور طریقہ گھر پر ذیابیطس چیک کرنے کا ہے وہ پیشاب کا ٹیسٹ ہے ۔ اس میں پیشاب میں ٹیسٹ کی سٹرپس ڈال کر شوگر ٹیسٹ کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس طرح آپ شوگر کے ہائی یا لو ہونے کی پیمائش نہیں کر سکتے صرف شوگر کی جانچ کر سکتے ہیں
یہ طریقہ کچھ آسان نہیں ان میں آپ کو ضرورت ہو گی ایک کنٹینر کی جس میں پیشاب جمع کیا جا سکے اور پیشاب بھی زیادہ دیر تک مثانے میں جمع نہ ہو تبھی صحیح تشخیص ممکن ہے۔
ایک صحت مند فرد کا کھانے سے پہلے شوگر لیول 100 ایم جی/ڈی ایل اور کھانے کے بعد 70 سے 140 ایم جی/ ڈی ایل سے کم ہونا چاہیے۔
اس کے مقابلے میں ذیابیطس کے آغاز یا پری ڈائیبٹیس کے شکار افراد میں کھانے سے قبل 80 سے 130 ایم جی/ ڈی ایل اور کھانے کے بعد 180 ایم جی/ ڈی ایل ہونا چاہیے تاکہ وہ پیچیدگیوں سے بچ سکیں۔
لوگ اے سی1 ٹیسٹ کے ذریعے 3 ماہ کے دوران اوسط بلڈ شوگر لیول کو بھی جان سکتے ہیں مگر یہ ٹیسٹ ڈاکٹر کے مشورے کے بعد ہی کرایا جانا چاہیے۔
چند ضروری باتوں کا جاننا ضروری ہے۔آلے پر دی گئی ہدایات کو غور سےپڑھیں۔بلڈ شوگر ٹیسٹ کرنے سے پہلے ہاتھ الکوحل یا ایسی کسی چیز سے نا دھوئیں جس میں الکوحل شامل ہو۔سردی کے موسم میں خون کی گردش کو بڑھانے کے لئے ہاتھ گرم پانی سے دھو لیں یا ہاتھ گرم کریں۔
بار بار ایک ہی انگلی سے بلڈ کا سیمپل نہ لیں انگلی بدل بدل کر سیمپل لیں تاکہ انگلی کی حساسیت نہ بڑھے۔
اس کے علاوہ ہر بار تازہ لینسیٹ استعمال کریں۔ ایک ہی لینسیٹ بار بار استعمال کرنے سے انگلی میں تکلیف بھی ہو سکتی ہے۔
علاج
* ہر قسم کی انسولین خون میں موجود گلوکوز کو جسم کے خلیات (cells) میں داخل ہونے میں مدد فراہم کرتی ہے جس سے خون میں گلوکوز کی مقدار کم ہو جاتی ہے اور خلیات کے اندر بڑھ جاتی ہے۔ خلیات گلوکوز کو توانائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں گلوکوز خلیات میں وہی اہمیت رکھتا ہے جو پٹرول گاڑی کے انجن میں۔جس طرح انسولین خون کی شوگر (گلوکوز) کم کرتی ہے بالکل اسی طرح انسولین خون کا پوٹاشیئم بھی کم کرتی ہے۔
انسان پر پہلی دفعہ انسولین 1922 میں کینیڈا میں استعمال ہوئی۔ای کولائی (E. Coli) جراثیم میں انسان کے جینز (genes) داخل کر کے پہلی دفعہ انسانی انسولین 1978 میں بنائی گئی جسے genetically engineered انسولین کہتے ہیں۔ اس سے پہلے سور سے انسولین حاصل کی جاتی تھی کیونکہ سور کی انسولین انسان کی انسولین سے قریب ترین مشابہت رکھتی ہے۔ سور کی انسولین انسان کی انسولین سے صرف ایک امینو ایسڈ کا فرق رکھتی ہے جبکہ گائے کی انسولین تین امینو ایسڈ کا اختلاف رکھتی ہے۔
عام طور پر انسولین کی چار اقسام زیادہ استعمال ہوتی ہیں۔بیشتر مریض روزانہ دو قسم کی انسولین استعمال کرتے ہیں۔
جلد اثر (Rapid-acting)۔ یہ بڑیجلدی خون میں پہنچ کر شوگر کم کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اس کا محلول دیکھنے میں بالکل شفاف ہوتا ہے۔ یہ کھانا کھانے سے 15 منٹ پہلے لگا لی جاتی ہے۔کھانا کھانے سے جب شوگر بڑھتی ہے تو یہ اسے کنٹرول کر لیتی ہے۔ 30 منٹ سے 3 گھنٹوں تک اس کا بڑا اثر رہتا ہے مگر پھر کم ہونے لگتا ہے اورلگ بھگ 5 گھنٹوں کے بعد اس کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔ چونکہ یہ 24 گھنٹوں تک شوگر کنٹرول نہیں کر سکتی اس لیے اسے کسی ایسی دوسری انسولین کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے جس کا اثر بہت دیر تک قائم رہے۔ اگر انسولین لگا کر کھانا نہ کھایا جائے تو خون میں شوگر بہت کم ہو جانے کی وجہ سے مریض بے ہوش ہو سکتا ہے۔
کم مدتی (Short-acting)- اسے ریگولر یا صرف R بھی کہتے ہیں۔ اس کا محلول بھی دیکھنے میں بالکل شفاف ہوتا ہے۔ اسے کھانا کھانے سے آدھا یا ایک گھنٹہ پہلے لگا لینا چاہیے۔ اس انسولین کا اثر 30 منٹ سے ایک گھنٹے میں شروع ہوتا ہے اور 2 سے 5 گھنٹوں تک نمایاں رہتا ہے۔ اس کے بعد اثر کم ہونے لگتا ہے اور لگ بھگ 8 گھنٹے بعد بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ اسے بھی کسی ایسی دوسری انسولین کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے جس کا اثر بہت دیر تک قائم رہے۔
درمیانی مدتی (Intermediate-acting)۔ اسے NPH یا صرف N بھی کہتے ہیں۔ اس کا محلول دیکھنے میں شفاف نہیں ہوتا ہے بلکہ گدلا ہوتا ہے۔ اگر تھوڑی دیر یہ بے حرکت پڑی رہے تو بوتل میں شفاف محلول اوپر آ جاتا ہے جبکہ تلچھٹ نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ اس لیے NPH انسولین کو سرنج میں بھرنے سے پہلے بوتل کو ہلکا سا ہلا لینا چاہیے تاکہ یہ ایک ہی محلول بن جائے۔ یہ شوگر کو فوراً کم نہیں کر سکتی مگر اس کا اثر دیر تک قائم رہتا ہے۔ اس کا اثر شروع ہوتے ہوتے دیڑھ سے چار گھنٹے لگتے ہیں، 4 سے 12 گھنٹوں تک بہت اچھا اثر رہتا ہے اور پھر کم ہوتے ہوتے 24 گھنٹوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ عام طور پر یہ انسولین ہر 12 گھنٹوں کے بعد لگائی جاتی ہے۔ اگر R اور N دونوں انسولین ملا کر ایک ہی سرنج سے ایک ساتھ لگانی ہوں تو سرنج میں ہمیشہ پہلے R انسولین بھری جاتی ہے پھر N۔
زیادہ مدتی (Long-acting)۔ مثلاً Lantus۔ یہ بھی شوگر کو فوراً کم نہیں کر سکتی مگر دیرپا اثر رکھتی ہے۔ اس کا اثر لگ بھگ ایک گھنٹے میں شروع ہوتا ہے، آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور کئی گھنٹوں تک برقرار رہتا ہے اور پھر24 گھنٹوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ یہ دن میں ایک یا دو بار لگائی جاتی ہے۔
انسولین اگر منہ سے کھا لی جائے تو آنتوں میں مکمل ہضم ہو جاتی ہے اور اثر کھو بیٹھتی ہے۔
2006 میں دواساز کمپنی Pfizer نے ایسی انسولین مارکیٹ میں پیش کی جسے انہیلر کی مدد سے سونگھا جا سکتا تھا۔ مہنگی ہونے کی وجہ سے فروخت اتنی کم ہوئی کہ ایک سال میں ہی دواساز کمپنی نے اسے بنانا بند کر دیا۔
انسولین اپنی مونومر (monomer) حالت میں اثر رکھتی ہے۔ لیکن انسانی جسم اسے hexamer (6 مولیکیول کا پیکیج) بنا کر ذخیرہ کرتا ہے کیونکہ اس شکل میں انسولین زیادہ پائیدار (مگر غیر موثر) ہوتی ہے۔ ایسی غیر قدرتی انسولین جس میں معمولی ردوبدل کیا جا چکا ہو ہیکزامر نہیں بناتیں۔ ایسی انسولین بڑی جلدی اثر کرتی ہیں مثلاً ایکٹ ریپیڈ۔
شوگر کے مریضوں میں ہر کھانے کے بعد خون میں شوگر تیزی سے بڑھتی ہے اور اسے روکنے کے لیے تیزی سے اثر کرنے والی انسولین کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام طور پر پورے دن میں لگنے والی انسولین کی لگ بھگ آدھی مقدار تیزی سے اثر کرنے والی انسولین کی ہوتی ہے جو دو یا تین کھانوں میں تقسیم ہو جاتی ہے اور باقی آدھی مقدار زیادہ مدتی انسولین کی ہوتی ہے جو دو حصوں میں 12 گھنٹوں کے وقفے سے لگائی جاتی ہے۔ مریض کے مرض کی شدت، کام کاج اور ورزش کے معمول اورکھانا کھانے کے معمول کے مطابق معالج اس میں ترمیم کرتے ہیں۔
بازار میں دستیاب بیشتر انسولین کو ایک ہی سرنج میں ملا کر استعمال کیا جا سکتا ہے مگر glargine انسولین (Lantus) کو دوسری انسولین سے نہیں ملایا جا سکتا کیونکہ اس کی پی ایچ 4 (تیزابی) ہوتی ہے۔ ۔اس کے برعکس ریگولر انسولین (R) کی پی ایچ 7.0 سے 7.8 (اساسی) تک ہے۔
زیادہ تر مریضوں کو 0.7 سے ایک یونٹ فی کلوگرام فی دن انسولین کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اگر کسی مریض کا وزن 70 کلوگرام ہے تو اسے دن بھر میں کل ملا کر 50 سے 70 یونٹ انسولین کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جب انسولین پہلی دفعہ استعمال کی جاتی ہے تو عام طور پر آدھی مقدار سے شروع کرتے ہیں اور خون میں شوگر چیک کر کے آہستہ آہستہ مقدار بڑھاتے ہیں یہاں تک کہ درست ڈوز پتہ چل جاَئے۔
کچھ مریضوں میں انسولین کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایسے مریضوں کو انسولین کی کافی زیادہ مقدار لگانے سے ان کی شوگر نارمل رہتی ہے۔
غذا کے ذریعے ذیابیطس پہ قابو
ٹھیک ہے کہ ذیابیطس ایسا مرض ہے جو ایک بار لاحق ہوجائے تو پیچھا نہیں چھوڑتا اور اس کے نتیجے میں دیگر طبی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
تاہم ذیابیطس سے بچاﺅ یا لاحق ہونے پر اسے پھیلنے سے روکنا زیادہ مشکل نہیں اور طبی سائنس نے اس کے حوالے سے چند غذائی عادات پر زور دیا ہے۔
1: گھر کا کھانا
ہاورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ کی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ روزانہ گھر کے بنے کھانوں کو ترجیح دیتے ہیں (ہفتے میں کم از کم 11 بار) ان میں ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہونے کا خطرہ 13 فیصد کم ہوتا ہے۔ گھر میں بنے کھانے جسمانی وزن کو کنٹرول میں رکھتے ہیں جو ذیابیطس کا خطرہ کم کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والا عنصر ہے۔
2: اجناس
جولوگ دلیہ، گندم اور دیگر اجناس کا زیادہ استعمال کرتے ہیں ان میں ذیابیطس کا خطرہ 25 فیصد تک کم ہوتا ہے۔ یہ دعویٰ طبی جریدے جرنل ڈائیبٹولوجی میں شائع ایک تحقیق میں کیا گیا تھا۔
3:اخروٹ
امریکا کی یالے یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق اگر کسی شخص میں ذیابیطس کی تشکیل کا خطرہ ہو تو وہ تین ماہ تک روزانہ کچھ مقدار میں اخروٹ کا استعمال کرے تو اس کی خون کی شریانوں کے افعال میں بہتری اور نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح کم ہوتی ہے، اور یہ دونوں ذیابیطس ٹائپ ٹو کا باعث بننے والے عناصر ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اخروٹ کے استعمال سے جسمانی وزن میں اضافے کا خطرہ نہیں ہوتا اور انہیں کسی بھی وقت کھایا جاسکتا ہے۔
4: ٹماٹر، آلو اورکیلے
ان تینوں میں کیا چیز مشترک ہے؟ یہ سب پوٹاشیم سے بھرپور ہوتے ہیں اور ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یہ منرل ذیابیطس کے شکار افراد کے دل اور گردوں کی صحت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ پوٹاشیم سے بھرپور غذا کھانے سے گردے کے افعال میں خرابی آنا سست ہوجاتا ہے جبکہ خون کی شریانوں میں پیچیدگیوں کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔
5:غذائی تجربات سے گریز
امریکا کی ٹفٹس یونیورسٹی اور ٹیکساس یونیورسٹی کی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ جو لوگ کھانوں میں بہت زیادہ تنوع پسند کرتے ہیں ان میں میٹابولک صحت خراب ہوتی ہے اور موٹاپے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جو لوگ مخصوص غذاﺅں تک ہی محدود رہتے ہیں وہ عام طور پر صحت بخش کھانوں کا انتخاب کرتے ہیں اور اس طرح ان میں ذیابیطس کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
6:دہی
روزانہ دہی کا استعمال ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ اٹھارہ فیصد تک کم کردیتا ہے اور یہ بات ہاورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں سامنے آئی۔ محققین کے مطابق دہی میں ایسے بیکٹریا ہوتے ہیں جو انسولین کی حساسیت بہتر کرنے میں مدد دیتے ہیں، تاہم اس حوالے سے محققین نے مزید تحقیق کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے، تاہم پھر بھی ان کا کہنا ہے کہ دہی کے استعمال سے نقصان کوئی نہیں ہوتا۔
7: بسیار خوری سے گریز
ذیابیطس کے شکار افراد کو اکثر کہا جاتا ہے کہ وہ دن بھر میں 6 بار کم مقدار میں کھانا کھائیں مگر زیادہ مقدار میں کم تعداد میں غذا زیادہ بہتر ثابت ہوتی ہے۔ چیک ریپبلک کی ایک تحقیق کے مطابق کم مقدا رمیں زیادہ بار غذا کا استعمال کچھ اتنا فائدہ مند نہیں، اس کے برعکس تین بار میں پیٹ بھر کر کھالینا بلڈشوگر میں کمی لاتا ہے اور جسمانی وزن بھی متاثر نہیں ہوتا اور ہاں بھوک بھی محسوس نہیں ہوتی۔
8:پھل
جو لوگ جوسز کی بجائے پھل خاص طور پر بلیو بیریز، سیب اور انگور کھانے کو ترجیح دیتے ہیں وہ بھی ہفتے میں کم از کم دو بار تو ان میں ذیابیطس ٹائپ ٹو کا خطرہ 23 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ طبی جریدے بی ایم جے میں شائع تحقیق کے مطابق پھلوں کے جوس جتنے بھی صحت بخش قرار دیئے جائیں مگر وہ میٹابولزم امراض بالخصوص ذیابیطس کا خطرہ 21 فیصد تک بڑھا دیتے ہیں۔
9:کولڈ ڈرنک
کولڈ ڈرنکس یا میٹھے مشروبات کا روزانہ استعمال ذیابیطس کا مریض بننے کا خطرہ 26 فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔ ہاورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق میٹھے مشروبات کا استعمال محدود کرنا جسمانی وزن کو کنٹرول کرنے سمیت دل اور ذیابیطس جیسے امراض کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
مریض کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے ہے کہ لبلبہ اپنا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے تو دوبارہ کسی بھی طرح سے فعال نہیں ہو سکتا۔اس لیے جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ کچھ دن یا ماہ تک دوائی کے ذریعے ذیابیطس ختم کر سکتے ہیں سب غلط ہے۔وہ آپکو دوا کے نام پہ سٹیرائڈز دیتے ہیں جو کچھ دن تک آپکو بہت چست اور تندرست رکھتے ہیں اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ بالکل تندرست ہو گئے ہیں۔جبکہ سٹرائڈز کو ترک کرتے ہی کئی بیماریاں عود کر آتی ہیں خصوصا موٹاپا ۔اور ان کے بعد کوئی دوا بھی اثر نہیں کرتی۔اس لیے بہترین علاج یہی ہے کہ واک کی جائے۔پرہیز کیا جائے۔دوا پابندی سے کھائی جائے۔اور شوگر کنٹرول کی جائے۔