Daily Roshni News

ذیابیطس اور صحت مند زندگی۔۔۔قسط نمبر1

ذیابیطس اور صحت مند زندگی

قسط نمبر1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ذیابیطس اور صحت مند زندگی۔۔۔ قسط نمبر1) گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں ذیا بیطس کے مرض میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوا ہے۔ ناصرف ترقی پزیر بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی بری طرح اس مرض کی لپیٹ میں دکھائی دیتے ہیں۔ ذیا بیطس کے پھیلاؤ کی وجوہات کیا ہیں….؟ اور کیا اس مرض کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے….؟

آئیے دیکھتے ہیں کہ میڈیکل سائنس اس کے بارے میں کیا کہتی ہے…..؟

انسولین کا بنیادی کام خون کے اندر گلو کوز لیول کو کنڑول میں رکھنا ہے۔ اس کے علاوہ یہ وٹامن، لحمیات، پروٹین وغیرہ کے پیچیدہ کیمیائی عوامل کے لیے مددگار ہوتی ہے۔ گلوکوز دماغ اور جگر میں بآسانی جذب ہو جاتا ہے ۔ یہ دماغ کو توانائی فراہم کرتا ہے لیکن جسم کے دیگر سیلوں کے اندر اس وقت تک جذب نہیں ہوتا جب تک انسولین سیل کو گلو کوز جذب کرنے میں مدد نہ دے۔

ذیا بیطیس ایک ایسا مرض ہے جو جسم کے اندر انسولین مقررہ مقدار سے کم یا ضرورت سے زیادہ ہو جانے کے باعث ہوتا ہے۔

ذیابیطس کی دو اقسام ہیں

انسولین ڈیپینڈنٹ ذیا بیٹیس Insulin) Dependent Diabetes)

Mellitus IDDM جب جسم کے اندر انسولین بنا بالکل بند ہو جائے تو یہ انسولین ڈیپینڈنٹ ذیا بیٹس کہلاتی ہے۔ اسے پہلی قسم(1-Type) بھی کہا جاتا ہے۔ انسولین کی غیر موجودگی میں جسم کے سیل جسم کے اندر موجود چربی سے توانائی لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے جسمانی کم زوری میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور مریض کم زور سے کمزور ہونے لگتے ہیں۔ ڈیا بیٹیس کی دوسری قسم نان انسولینڈ پینڈنٹ

(Non Insulin Dependent میں لیلیہ (Pancreas) انسولین کو خارج تو کرتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ سیل اس کو جذب نہیں کرتے۔ یہ ذیا بیطس کی دوسری قسم یعنی ٹائپ II بھی کہلاتی ہے۔

ذیا بیطس کے مریضوں کی بڑی تعداد ٹائپ II میں مبتلا ہوتی ہے۔ یہ تعداد کل مریضوں میں تقریبا نوے سے پہچانوے فیصد تک ہوتی ہے جبکہ صرف پانچ سے دس فیصد لوگ ٹائپ 1 میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ذیا بیٹیس 11 میں مبتلا لوگوں کی ایک

بڑی تعداد موٹاپے کی طرف بھی مائل ہوتی ہے۔ ٹائپ || زیادہ کیوں ہے؟

ذیا بیٹیس کی ٹائپ II کے زیادہ عام ہونے کی بڑی وجہ غذا لینے میں لا پرواہی ہے۔ ایسے تمام لوگ جو میں سال یا اس سے زیادہ عرصے اپنی غذا کے معاملے میں لاپر واہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اکثر لوگ چھنا ہوا کار بوہائیڈریٹ استعمال کرتے ہیں مثلاً سفید روٹی، سفید چاول، فتیری آنا ( بغیر خمیر کے آٹا) وغیرہ۔ ایسی غذاؤں سے ذیا بیطیس ہونے

کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ذیابیطس کا غذا سے علاج ممکن ہے….؟

غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت بخش غذا اوربا قاعدہ ورزش کے ذریعے ذیا بیطیس سے بہت حد تک چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔

اچھا کھانا لینے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ پروٹین کی مقدار زیادہ اور کاربوہائیڈ ریٹ کو کم کیا جائے بلکہ سبزیوں کو اپنی غذا میں شامل کریں جو گلو کوز کی بہت کم مقدار فراہم کرتی ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق اگر غذا میں سے کاربوہائیڈریٹ کو بالکل ختم کر کے اس کی جگہ

پروٹین اور چربی کو دے دی جائے تو ذیا بیٹیس کا مرض بہت جلد لاحق ہو سکتا ہے۔ اگر غذا میں معدنیات کو بڑھا دیا جائے جن میں کرومیم، میگنیشیم، وٹامن ( بی اور اومیگا 3 تیل (جو مچھلیوں میں ہوتا ہے) شامل ہوں تو انسولین کی سیل میں جذب ہونے کی صلاحیت بڑھائی جاسکتی ہے۔ غذا میں کاربوہائیڈریٹ کی مقدار کم ہونے کی صورت میں تین سے چھ ماہ میں وزن میں کمی ہونے کے ساتھ ساتھ بلڈ شوگر لیول اور انسولین کا لیول بھی کم ہو جاتا ہے۔ اگر ورزش کو باقاعدگی سے اپنا لیا جائے اور کچھ دیر تک پیدل چلا جائے تو ذیا بیٹیس کے مرض میں جلد افاقہ ہوتا ہے۔

ایک برطانوی ریسرچ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اگر روز مرہ غذا میں سبز پتوں والی سبزیاں شامل کی جائیں تو ڈ یا بیس میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہو سکتا ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے استعمال سے متعلق چھ مختلف جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ پالک اور بند کو بھی نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ مثبت کردار ادا کیا۔

برٹش میڈیکل جرنل کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دن بھر میں اگر ان سبزیوں کا ڈیڑھ پورشن استعمال کیا جائے تو ٹائپ II ذیا بیطیس کا خطرہ چودہ فیصد تک کم ہو سکتا ہے تاہم ماہرین نے کہا ہے کہ صرف ان ہی سبزیوں پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ دن بھر میں مختلف پھلوں اور سبزیوں کے پانچ پور شنز استعمال کیے جائیں۔ کمیسیسٹر یونیورسٹی کے ریسرچرز نے اس ضمن میں دو لاکھ میں ہزار بالغ افراد کی غذائی عادات اور ان کی صحت سے متعلق کو الک کا جائزہ لیا تھا۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  نومبر 2021

Loading