زندگی کے ان عظیم پندرہ سالوں کو ان دشمنوں کے حوالے مت کیجئے
ہالینڈ (ڈیلی روشنی نیو ز انٹرنیشنل )یہ معاشرہ یہ مذہب یہ کلچر آپ کی جنسی آزادی اور حقوق کے سب سے بڑے دشمن ہیں. جوانی زندگی کا مختصر ترین حصہ ہے اور زندگی بذات خود ایک مختصر وقت ہے جو قدرت نے آپ کو کائنات سے لطف اندوز ہونے کے لئے دیا ہے اسے مذہب کی بھینٹ نہ چڑھنے دیجئے. معاشرتی دباؤ کے ہاتھوں اپنی جوانی کا خون مت کیجئے. یہ معاشرہ آپ سے آپ کی جنسی آزادی اور جنسی حق چھینتا ہے آپ کو سیکس کرنے سے روکتا ہے جب آپ کی جوانی جوبن پر ہوتی ہے. آپ سے آپ کا فطری حق چھینے کی کوشش کرتا ہے. فطرت آپ کو چودہ پندرہ سال میں بالغ کر دیتی ہے کہ جاؤ خوب سیکس کرو. یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جب جسم میں جنسی ہارمونز کی پیداوار اپنے عروج پر ہوتی ہے . ایک بالغ لڑکے کی صبح full erection کے ساتھ ہوتی ہے. احتلام یعنی nocturnal emission معمول بن جاتا ہے. بار بار erection ہوتی ہے.ذہن میں ہر وقت سیکس کے بارے میں خیالات گردش کرتے ہیں صنف مخالف میں آپ بے پناہ کشش محسوس کرتے ہیں. آپ کے جنسی ہارمونز آپ کو پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں آپ کا دل کرتا ہے آپ کے ساتھ کوئی لڑکی ہو جس سے آپ خوب سیکس کریں.لڑکی کا دل کرتا ہے س کے ساتھ کوئی پیار کرنے والا ہو کوئی اسے اپنی بانہوں میں لے لے کوئی اس کے ساتھ رومانس کرے. لیکن یہ حسرت ایک حسرت ہی رہتی ہے. آپ کی جنسی خواہشات کو ہر طرف سے کچلا جاتا ہے. آپ کو ہر طرف سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے. والدین کڑی نگرانی کرتے ہیں کہ کہیں آپ کسی لڑکی سے فلرٹ تو نہیں کر رہے اسی طرح لڑکی پر نظر رکھی جاتی ہے کہیں وہ لڑکے سے فون پر بات تو نہیں کر رہی. انٹرنیٹ پر کسی سے فلرٹ تو نہیں ہو رہا. محلے کے کسی لڑکے سے بات تو نہیں کرتی. اگر آپ کا معاشقہ کسی سے چل رہا ہو اور parents کو پتا چل جاے تو سمجھو خیر نہیں. خوب جھڑکیاں ملتیں ہیں. ایشو کو اتنا سیریس لیا جاتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا جرم سر زد ہو گیا ہے جو ناقابل معافی ہے .آپ کو خاندان کی بدنامی کے طعنے دئیے جاتے ہیں آپ کو وارننگ دی جاتی ہے کہ دوبارہ اس لڑکی یا لڑکے سے رابطہ کیا تو بہت برا انجام ہو گا . قتل تک کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں. نہ صرف دھمکیاں دی جاتی ہیں بلکہ جسمانی تشدد تک کیا جاتا ہے اگر بات بڑھ جاے تو نوبت لڑکے یا لڑکی کے قتل تک پہنچ جاتی ہے. غیرت جیسی جاہلانہ اور فرسودہ سوچ نے ہمارے معاشرے کو بہت نقصان پہنچایا ہے. غیرت کے نام پر بیٹے ، بیٹی ، بہن یا بھائی کا قتل پاکستان میں کوئی بڑی بات نہیں ایسے ماحول میں جنسی آزادی کا تصور ایک سہانا خواب لگتا ہے
ہمارے والدین، معاشرے اور مذہب نے ہمارے ذہن میں یہ بات ڈال دی ہے کہ سیکس ایک گندا کام ہے سیکس ایک taboo ہے جس پر بات کرنا بھی بے شرمی اور گناہ ہے ایک طرف گناہ کا احساس آپ کی جنسی خواہشات کا قتل کرتا ہے دوسری طرف جنسی خواہشات کی تڑپ اور بے چینی آپ کو جنسی تسکین حاصل کرنے کے دوسرے طریقوں کی طرف راغب کرتی ہے. پاکستان میں ہم جنس پرستی کی ایک سب سے بڑی وجہ معاشرے کی گھٹن اور جنس مخالف سے میل جول رکھنے پر پابندیاں ہیں. یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں، پشاور ، میانوالی اور دوسرے سرحدی علاقوں میں ہر دوسرا شخص ہم جنس پرستی یعنی homosexuality کا شکار ہے. عمومی طور پر پورے پاکستان میں ہم جنس پرستی ایک عام سی بات ہے. پاکستان میں ایک لڑکی کی نسبت ایک لڑکے کے ساتھ سیکس کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے . پاکستان میں بہت سے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مخلوط تعلیمی نظام ہونے کے باوجود لڑکے اور لڑکیوں کے آپس میں بات چیت کرنے، میل جول رکھنے اور دوستی کرنے کو ناپسند کیا جاتا ہے. تعلیمی ادارے لڑکے لڑکیوں کے میل جول کو discouraged کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طلبہ اور طالبات نفسیاتی طور پر شرمیلے ہو جاتے ہیں ان میں confidence کی کمی ہوتی ہے. جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انھیں اپنا لائف پارٹنر ڈھونڈھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں ، لڑکے لڑکیوں سے کانفیڈنس کے ساتھ اپنے خیالات شئیر نہیں کر سکتے. ان کی سوشل لائف تنہائی کا شکار ہو جاتی ہے. شخصیت میں چڑچڑا پن نمایا ہوتا ہے
جنسی پارٹنر کی عدم دستیابی کی صورت میں masturbation کی طرف رجحان بڑھتا ہے. پورن موویز دیکھ کر جنسی تسکین حاصل کی جاتی ہے. اپنے دوستوں اور classmates میں جنسی پارٹنر تلاش کیئے جاتے ہیں. لڑکیاں شرم کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں. پاکستانی خواتین میں lesbian sex ابھی اتنا عام نہیں ہے. خواتین کو اپنی جنسی تسکین حاصل کرنے کے sources نہ ہونے کی وجہ سے وہ تنہائی کا شکار ہو جاتی ہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ان پر جننوں کی آمد شروع ہو جاتی ہے جو دراصل جن نہیں ہوتے بلکہ psychological disorders ہوتے ہیں جنھیں کم علمی ار جہالت کی وجہ سے جن کا سایہ سمجھ لیا جاتا ہے
جنسی جبلت کی طاقت کبھی کبھی آپ کو انتہائی قدم اٹھانے پر بھی مجبور کر دیتی ہے پھر نہ آپ دھمکیوں کی پروا کرتے ہیں نہ کاروکاری کا خوف آپ کو سیکس کرنے سے روکتا ہے اور نہ سنگساری کا خوف آڑے آتا ہے نتائج کی پروا کئیے بغیر آپ اپنی جنسی تسکین کی تکمیل کرتے ہیں
مذہب، معاشرہ اور والدین تینو جنسی آزادی کو روکنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں پاکستانی معاشرہ یہ اجازت نہیں دیتا کہ آپ آزادانہ طور پر اپنے جنس مخالف سے میل جول رکھ سکیں اور صنف مخالف سے تعلقات قائم کر سکیں. اسی طرح مذہب آپکی جنسی آزادی میں رکاوٹ بنتا ہے آپ کو آخرت میں خطرناک نتائج کی دھمکیاں دیتا ہے. دوزخ کی آگ سے ڈراتا ہے. اگر معاشرہ بہت ہی مذہبی ہو جیسا کہ سعودی عرب یا دولت اسلامیہ ہے تو پھر مذہب دنیا میں بھی آپ کو خوفناک سزا کا مستحق ٹہراتا ہے آپ کو کوڑوں اور سنگساری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
جنسی گھٹن اور پابندیوں نے پورے پاکستان کو جنسی اور نفسیاتی مریضوں کی آماجگاہ بنا رکھا ہے. ایسا معاشرہ جہاں تقریباً سات ملین لوگ ہیروین کے نشے کا عادی ہوں . جہاں معاشی مسائل سب کو پریشان کے ہوۓ ہوں وہاں جنسی گھٹن اور پابندیاں جلتی پے تیل کا کام کرتی ہیں.
معاشرہ، مذہب، والدین اور قانون آپ کو شادی کے بغیر سیکس کرنے کی اجازت نہیں دیتا. شادی آپ س وقت تک کر ہی نہیں سکتے جب تک آپ معاشی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو جاتے . پاکستان میں تیس پینتیس سال تک لوگ بے روزگار ہوتے ہیں. روزگار ہو بھی تو پھر بھی بہت سے مرد اور عورتیں شادی کے اخراجات پورے نہیں کر سکتے. پھر ہوتا یہ ہے کہ “نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی” کے مصادق عورتیں اور مرد تیس چالیس سال تک کنوارے رہتے ہیں. جس کی وجہ سے عورتیں اور مرد نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں پھر یہی نفسیاتی بیماریاں دوسری جسمانی بیماریوں کا سب بنتی ہے. مرد عام طور پر مردانہ بیماریوں کےچکر میں حکیموں اور سنیاسیوں کی جہالت کا شکار ہوتے ہیں اور \ خواتین جن بھوتوں کا شکار ہو کر عاملوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں. اس طرح جنسی پابندیوں کی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں جس کا اثر بلآخر پورے معاشرے پر پڑتا ہے
قدرت آپ کو سیکس سے بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہونے کے لئے دس سے پندرہ سال دیتی ہے یعنی چودہ پندرہ سال سے تیس سال تک. تیس سال کے بعد آپ کا جسم شکست و رنجیت یعنی توڑ پھوڑ کا شکار ہونا شروع ہو جاتا ہے. آپ کی جنسی صلاحیت میں کمی آنا شروع ہو جاتی ہے آپ کی libido (جنسی خواہش) کم ہونا شروع ہو جاتی ہے. دوسری جسمانی بیماریاں جیسا کہ بلڈ پریشر ، diabetes، وغیرہ آپ کی جنسی صحت پر اثر انداز ہوتی ہیں. خدارا اپنی زندگی کے سب سے عظیم وقت کو ضایع مت کیجئے اور نہ ہی مذہب کو، معاشرے کو اور اپنے والدین کو اس بات کی اجازت دیجئے کہ وہ آپ کی زندگی کے اس عظیم وقت اور opportunity کو اپنے عقیدوں کی بھینٹ چڑھائیں.
پاکستانی معاشرے، ثقافت، مذہب اور میرے والدین نے میرے جنسی حقوق کا قتل کیا جسے میں کبھی معاف نہیں کروں گا خدارا آپ ان تین دشمنوں کو اپنے فطری حقوق کا قتل کرنے کی کبھی اجازت نہ دیں. اپنی زندگی کو بھرپور طریقے سے enjoy کریں. اپنے پارٹنر سے خوب پیار کیجئے، خوب رومانس کیجئے، خوب سیکس کیجئے. fall in love with someone special because life is so beautiful when you are in love زندگی کے ان عظیم پندرہ سالوں کو ان دشمنوں کے حوالے مت کیجئے
Written by Masood Reyman