Daily Roshni News

سردیوں نے رات کی ردا کو کھینچ کر دن کے حصوں کو ڈھانپنا شروع کر دیا

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )سردیوں نے رات کی ردا کو کھینچ کر دن کے حصوں کو ڈھانپنا شروع کر دیا ہے جیسے نرم روئی سی برف سبز درخت کی ٹہنیوں کو سفید کمبل اوڑھا دیتی ہے۔ راتیں طویل ہو گئی ہیں اور دن مختصر۔ سر شام ہی ہر طرف معمول کے شور کے باجود ایک الوہی سناٹے کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ راتیں دمک اٹھتی ہیں ایک دم سے۔ آسمان نکھر جاتا ہے۔ آلودگی یکایک نسبتاً کم محسوس ہونے لگتی ہے۔ اور سر اٹھاؤ تو ایک دو کے بچائے پندرہ بیس ستارے جھانک کو خود کو دیکھتے ہوئے مسکرانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ جلد کھنچی کھنچی سی رہتی ہے۔ ہر بار وضوء کر کے ڈھیر سارا لوشن لگانا پڑتا ہے۔ نمی کی جس قدر ضرورت ہو، پیاس کی حدت لیکن غائب ہو جاتی ہے۔ سردیاں بھی ایک پورا سما بنا دیتی ہیں جو جسم پر الگ اورروح پر الگ طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔

یہ وہ موسم ہے جو “منانے” کے قابل ہے۔ چاہے آپ کو سردیاں پسند ہوں یا نہیں، لیکن پھر بھی سردیاں منائے جانے کے قابل ہیں۔ کمبل میں گھس کر گرم کافی یا چائے کسی کتاب کے ساتھ مل جائے تو بس کیا ہی کہنے۔ اور اگر بالفرض سردی نہیں پسند لیکن آپ کو نیچر پسند ہے تو سردیاں فطرت کے حسن کو دو آتشہ کر دیتی ہیں۔ اگر یہ بھی نہیں تو مومن تو ہیں نا؟ زخم خوردہ بھی ہیں یقینا؟ ۔۔۔۔ روح کے زخموں پر سردیوں کی طویل راتوں سے زیادہ نرمی سے مرہم کوئی اور شے رکھتی ہو، میں نے نہیں دیکھا!

ایک خاص قسم کا سناٹا ہے جو نومبر کے آس پاس زمین پر اترتا ہے، صرف روح کو سنائی دیتا ہے، اور فروری مارچ کے جاتے سموں میں پھر سے کہیں غائب ہو جاتا ہے۔ اس سناٹے میں مجھے ہمیشہ شفا محسوس ہوتی تھی۔ ہوتی ہے!

رات کو سب کے سو جانے کے بعد جب یہ سناٹا اپنے جوبن پر ہوتا ہے تو کھڑکی کے ساتھ جائے نماز بچھا کر سبک ہواؤں کو نرمی سے اپنے گالوں کو چھوتے محسوس کر کے رب کائنات کے حضور سر بسجدہ ہونا ایک ایسا تجربہ ہے جسے حیطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔ اسے بس محسوس کیا جا سکتا ہے۔ دل کی گہرائیوں سے روح کی گہرائیوں تک۔ پرت در پرت اترتے ہوئے۔ شفا بخشتے ہوئے۔ میں گرمیوں میں سب سے زیادہ اس سناٹے کو یاد کیا کرتی ہوں۔

کہنے کو سردیاں ہیں پر مومن کیلئے بہار کا موسم ہے۔ راتیں طویل ہیں۔ تہجد کیلیے بہت وقت ہے۔ فجر سے چند گھڑیاں پہلے اٹھ جانے کیلیے بس ایک پختہ عزم اور صادق دعا کی ضرورت ہے۔ اور پھر باوجود کوشش بھی اگر نہ ہو سکے تو سونے سے پہلے دو چار نوافل ادا کر کے پانچ دس منٹ تنہائی میں رب سے راز و نیاز کا موقع تو ہمیشہ موجود ہے۔ پھر بھی اگر کوئی محروم رہ جائے تو واقعی محرومی ہے۔

دوسری طرف دن مختصر ہو گئے ہیں۔ بھوک پیاس کی شدت کم ہو گئی ہے۔ روزوں کیلیے اس سے بہترین موسم کونسا ہوگا؟ کم مشقت میں پورا ثواب۔ اور کیا چاہیے؟ رمضان آنے والے ہیں۔ ان کی تیاری کی نیت سے روزے رکھے جائیں تو ثواب در ثواب۔ اور جن کے ذمے قضا روزے باقی ہیں ان کیلیے تو یہ قرض چکانے کا سنہرا موقع ہے۔ بس کمی ہے تو ارادے کی۔ وہ بن جائے تو راستے رب تعالیٰ خود بناتے جاتے ہیں۔

جیسے ہر سیزن کی سیل ہوتی ہے جس سے فائدہ اٹھانے کو شائقین منتظر رہتے ہیں، یہ مومنوں کا سیزن ہے اور نیکیوں کی سیل ہے۔ گنتی کے دو چار مہینے ہیں۔ وقت ریت کی مانند پھسل رہا ہے۔ ہم ہر گھڑی اپنی قیامت (موت) سے نزدیک تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اگر ایک بار پھر ہمیں نیکیوں کا یہ سیزن ملا ہے تو دنیاوی مشاغل کو تھوڑا سا “مینج” کر کے ضرور اس سے فائدہ اٹھانا بھی چاہیے اور آس پاس والوں کو اس کی ترغیب بھی دینی چاہیے۔

اور ہاں ۔۔۔ جاتے جاتے بس یہ کہنا ہے کہ جب آپ اچھی کافی کی تلاش میں مارکیٹ جائیں تو ذائقے پر تھوڑا کمپرومائز کر لیجیے گا مگر نیسکیفے نہ لیجیے گا۔ اور جب کمبل میں سمٹ کر کسی کتاب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مونگ پھلی یا ڈرائی فروٹ کے دانے منہ میں ڈالیں تو اہل غز ہ کو بھی ایک بار یاد کر کے دعا دے دیجیے گا۔ تھوڑا سا اپنا دل مار کر کوئی خواہش ادھوری چھوڑ کر چند پیسے بچا لیجیے گا اور ان بہن بھائیوں کو دے دیجیے گا جو اس وقت ٹھنڈ میں معصوم بچوں کو بانہوں میں سمیٹے رب کے حضور اپنی بے بسی کا حال سنا رہے ہیں۔ انہیں بھول گئے تو ہمارا حساب مشکل ہو جانا ہے۔ سو خود کو اور اپنے پیاروں کو اس مشکل سے بچائیے۔ و السلام۔

-خولہ خالد

Loading