سورج کی سلطنت کا اختتام – اوورٹ کلاؤڈ
تحریر۔۔۔ڈاکٹر احمد نعیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سورج کی سلطنت کا اختتام – اوورٹ کلاؤڈ۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر احمد نعیم )اورٹ کلاؤڈ ہمارے نظام شمسی کی آخری حدود کے قریب ایک وسیع خطہ ہے جو اربوں کھربوں مختلف نوعیت کے اجسام سے بھرا ہوا ہے۔ یہ سورج سے اتنا دور ہے کہ سورج کی روشنی کو اس کی آخری حد تک پہنچنے میں ڈیڑھ سے دو سال لگ جاتے ہیں۔
ہم اسے کسی بھی طرح براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔ حتیٰ کہ ہماری اب تک کی بڑی سے بڑی اور جدید ترین دوربینوں کے ذریعے بھی اوورٹ کلاؤڈ میں موجود اجسام کو براہ راست نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ یہ اجسام خود اپنی روشنی پیدا نہیں کرتے اور سورج کی روشنی اتنی مقدار میں وہاں تک نہیں پہنچتی کہ اس روشنی کے منعکس ہونے پر ہم ان اجسام کو دیکھ سکیں۔
ہمارا سورج ہمیں زمین کے آسمان میں ظاہری چمک کے فلکیاتی پیمانے پر منفی 26 کی ظاہری چمک کے ساتھ دکھائی دیتا ہے۔ زمین کا سورج سے فاصلہ ایک آسٹرانومیکل یونٹ مانا جاتا ہے جبکہ اوورٹ کلاؤد ایک ہزار سے ایک لاکھ آسٹرانومیکل یونٹس تک پھیلا ہوا ہے۔ لہٰذا اگر ہم اوورٹ کلاؤڈ کے آخری کناروں پر سورج کی ظاہری چمک کا اندازہ لگائیں تو یہ تقریباً اتنا روشن ہوگا جتنا روشن ہمیں زمین کے آسمان میں ستارہ سیریئس دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ ہمارے سورج کو زیادہ سے زیادہ 58 نوری سال کے فاصلے سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن اوورٹ کلاؤڈ سورج سے اتنے زیادہ فاصلے تک پھیلا ہوا ہے کہ وہاں سورج ہمیں زمین سے نظر آنے والے ستاروں سے زیادہ بڑا نظر نہیں آئے گا اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے سورج کی روشنی اور حرارت کی بہت ہی کم مقدار وہاں موجود اجسام تک پہنچے گی۔ اسی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ علاقہ ایسا تاریک سرد خانہ ہے جس میں نظام شمسی کی پیدائش اور ارتقاء سے متعلق کئی راز چھپے ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی ایک دلچسپ سوال ہے کہ اوورٹ کلاؤڈ میں کس قسم کے اجرام فلکی پائے جاتے ہیں؟۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ وہاں برف اور خلائی چٹانوں کے اربوں کھربوں چھوٹے بڑے ٹکڑے پائے جاتے ہیں جو سورج کی کشش ثقل سے بندھے ہوئے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ کشش ثقل کی کوئی حد نہیں ہوتی لیکن یہ ایک خاص حد تک اتنی موثر ہوتی ہے کہ دوسرے اجسام کو ایک مدار میں حرکت پر پابند رکھ سکے اور ایک اندازے کے مطابق ہمارا سورج اپنے اردگرد تقریباً 2 نوری سال تک کے فاصلے تک موجود اجسام کو اپنے گرد گردش کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
اورٹ کلاؤڈ لاکھوں کروڑوں دُمدار ستاروں اور ان گنت بھٹکے ہوئے سیارچوں اور بونے سیاروں کی پناہ گاہ بھی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہاں بہت بڑی مقدار میں پانی کی برف بھی موجود ہے اور اسی بناء پر خیال کیا جاتا ہے کہ زمین کی تخلیق کے دوران اوورٹ کلاؤڈ سے آنے والے اربوں دُمدار ستارے زمین پر پانی کی فراہمی کا ایک سبب بنے ہوں گے۔
اوورٹ کلاؤڈ کے بارے میں ہماری معلومات کا واحد ذریعہ وہاں سے آنے والے دُمدار ستارے ہیں جن کے مدار، رفتار اور سمت پر تحقیق کے ذریعے ہمیں نظام شمسی کے اس پراسرار حصے کے بارے میں قیمتی معلومات ملتی ہیں۔
اگرچہ اوورٹ کلاؤڈ کے بارے میں ہم آج کی تاریخ میں بہت ہی کم جانتے ہیں لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ وہاں موجود اجسام اسی گرد اور گیس کے بادل سے بنے تھے جس سے ہماری زمین اور باقی نظام شمسی کی تشکیل ہوئی تھی۔ اسی تناظر میں یہ دلچسپ سوال سر اٹھاتا ہے کہ کیا وہاں پر بھی کسی حالت میں زندگی پائی جا سکتی ہے اور کہیں زمین پر زندگی اوورٹ کلاؤڈ سے ہی تو نہیں آئی؟
(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)