شادی کا مقصد
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ شادی کا مقصد۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )ایک حافظ صاحب کی تحریر نظر سے گزری جس کا متن انہیں حافظ قرآن کم اور سگمنڈ فرائڈ کا شاگرد زیادہ شو کر رہا تھا۔موصوف کا کہنا ہے کہ مردوں کے لیے شادی کا واحد مقصد جنسی تعلق قائم کرنا ہے اور جو عورتیں اپنے شوہروں کی اس ضرورت کو نہیں سمجھتیں انہیں انکار کرتی ہیں۔انہیں چھوڑ دینا چاہیے۔اگرچہ یہ صرف ان کا ذاتی خیال ہے کیونکہ ان کی تحریر پر بیشتر مردوں نے انہیں غلط قرار دیا اور یہی کہا کہ مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کے جذبات، احساسات اور ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے لیکن چند ایسے بھی تھے جو ان کے حامی تھے۔
اگر مردوں کے نزدیک شادی صرف جنسی تعلق کا نام ہے تو معذرت کے ساتھ پھر وہ مرد نہیں جانور ہی ہیں۔کیونکہ جانور جنسی تعلق کے لیے اس قدر بے تاب ہوتے ہیں کہ انہیں نفس پر قابو نہیں ہوتا وہ ہر حال میں اپنی خواہش کی تسکین چاہتے ہیں اور اس کے لیے کسی بھی حد تک گر جاتے ہیں۔انسان خصوصا مسلمان کے لیے تو ہر چیز میں اعتدال و حدود و قیود ہیں۔
اسلام میں نکاح ایک مقدس اور پائیدار رشتہ ہے جو محض جسمانی خواہشات کی تکمیل کے لیے نہیں بلکہ باہمی محبت، سکون، اور خاندان کی بنیاد پر استوار کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا سماجی اور روحانی معاہدہ ہے جس کا مقصد میاں بیوی کے درمیان محبت اور رحمت کو فروغ دینا. زندگی کے نشیب و فراز میں ایک دوسرے کا ساتھ دینااور ایک مضبوط خاندانی نظام کی تشکیل کرنا ہے۔
بدقسمتی سے بعض لوگ شادی کو صرف ایک وقتی ضرورت یا جسمانی تعلقات کے لیے مخصوص کر دیتے ہیں. اور اگر بیوی کسی جسمانی یا طبی وجہ سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے قابل نہ رہے تو اسے طلاق دینا جائز سمجھتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ خاندان کے بنیادی ڈھانچے کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نکاح کی اہمیت اور اس کے مقاصد کو کئی مقامات پر واضح فرمایا ہے۔ شادی کا بنیادی مقصد صرف جنسی خواہشات کی تکمیل نہیں بلکہ ازدواجی زندگی میں سکون، محبت، اور باہمی تعاون ہے.
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔” سورۃ الروم: 21
یہ آیت نکاح کے بنیادی اصولوں کو بیان کرتی ہے۔ محبت اور رحمت وہ عوامل ہیں جو ازدواجی زندگی کو مضبوط بناتے ہیں۔
ایک اور اہم مقصد نیک اور صالح اولاد کی پرورش ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“اور جو لوگ یہ دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا، اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔” سورۃ الفرقان: 74
یہ دعا اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ شادی کا مقصد صرف ایک وقتی رشتہ نہیں بلکہ ایک ایسی نسل کی پرورش ہے جو دین اور اخلاقیات پر قائم ہو۔
رسول اکرم ﷺ نے نکاح کو آدھا ایمان قرار دیا اور فرمایا:
“جب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اس نے اپنے آدھے دین کی تکمیل کر لی.باقی آدھے میں اسے اللہ سے ڈرنا چاہیے۔” مشکوٰۃ المصابیح
یہ حدیث اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ شادی صرف جسمانی تعلقات کا نام نہیں بلکہ یہ ایمان اور اخلاقیات کے تحفظ کا ذریعہ بھی ہے۔
کچھ لوگ یہ تصور رکھتے ہیں کہ اگر بیوی کسی بیماری یا جسمانی کمزوری کی وجہ سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے قابل نہ ہو تو اسے طلاق دینا جائز ہے۔ یہ سوچ اسلامی اصولوں کے خلاف ہے کیونکہ
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“اور ان (بیویوں) کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ، اور اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو جبکہ اللہ نے اس میں تمہارے لیے بھلائی رکھی ہو۔” سورۃ النساء: 19
یہ آیت شوہروں کو حکم دیتی ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آئیں، حتیٰ کہ اگر کسی وجہ سے انہیں ناپسند بھی کریں تب بھی صبر کریں.کیونکہ اللہ نے اس میں بھی بھلائی رکھی ہو سکتی ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
“تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہترین ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہترین ہوں۔” ترمذی
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ شوہر کا اصل امتحان اس وقت ہوتا ہے جب بیوی کسی مشکل میں ہو۔ بیماری یا جسمانی کمزوری کا سامنا ہر انسان کو کسی بھی وقت ہو سکتا ہے. اور اسلامی تعلیمات ہمیں یہی سکھاتی ہیں کہ ایسے وقت میں رشتہ نبھایا جائے نہ کہ چھوڑ دیا جائے۔
ایوب علیہ السلام ایک لمبے عرصے تک بیماری میں مبتلا رہے، مگر ان کی بیوی نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ان کے صبر اور وفاداری کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انہیں شفا عطا فرمائی۔ یہ واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ مشکل وقت میں اپنے شریک حیات کا ساتھ دینا کتنا ضروری ہے۔
اگر لوگ اپنی بیویوں کو بیماری یا جسمانی کمزوری کی بنیاد پر طلاق دینے لگیں تو اس سے شادی کا ادارہ کمزور ہو جائے گا۔ اس کے چند بڑے نقصانات درج ذیل ہیں:
اسلامی معاشرہ خاندانی نظام پر قائم ہے۔ جب لوگ معمولی وجوہات پر طلاق دینے لگیں گے تو خاندان بکھر جائیں گے. بچوں کی پرورش متاثر ہوگی اور معاشرتی توازن بگڑ جائے گا۔
اگر عورتیں بیماری کی حالت میں طلاق کے خوف میں مبتلا ہوں گی تو یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا ظلم ہوگا۔ اسلام نے عورت کو تحفظ فراہم کیا ہے اور مرد کو اس کا نگران بنایا ہے۔
اگر شادی کو صرف جسمانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ سمجھا جائے تو اس میں سے محبت، رحمت، اور وفاداری ختم ہو جائے گی، جو کہ ایک اسلامی ازدواجی زندگی کے بنیادی اصول ہیں۔
اسلام نے شادی کو مضبوط بنانے کے لیے درج ذیل اصول دیے ہیں:
میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے صبر اور قربانی کا جذبہ رکھنا چاہیے۔ ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا مل کر کرنا چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کو چھوڑ دینا چاہیے۔
شوہر اور بیوی دونوں کو اپنے فرائض پورے کرنے چاہئیں تاکہ شادی کا نظام مضبوط رہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ ایسے مرد جو جسمانی خواہشات کی تکمیل نہ کرنے والی بیوی کو چھوڑنا جائزسمجھتے ہیں اس کی وجوہات جاننے کر انہیں دور کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔کیونکہ ان کے نزدیک بیوی انسان نہیں بلکہ سیکس کی مشین ہوتی ہے۔اس کو دکھ، درد، تھکن، بیماری میں آرام مورل اسپورٹ کا کوئی حق نہیں ہوتا اس کو گھر میں رکھنے کا واحد مقصد شوہر کو بستر میں خوش رکھنا ہوتا ہے۔ایسے مردوں کو بیوی نہیں ایک کال گرل چاہیے ہوتی ہے۔لیکن جہاں بات ان کی ذات پر آ جائے کسی بھی وجہ سے قدرتا اس قابل نہ ہوں یا بیماری، تھکاوٹ یا حادثے کی وجہ سے اگر وہ بیڈ رڈن ہو جائیں ازدواجی تعلقات کے قابل نہ رہیں تو بیوی سے ان کی توقع ہوتی ہے کہ وہ دنیا تیاگ دے اپنی ہر خواہش کو مار دے اور 24/7 ان کی خدمت کرتی رہے۔انہیں چھوڑ کر دوسری شادی کا تو تصور بھی نہ کرے۔ان کے راز کی حفاظت کرے ان کے سارے خاندان لوگوں کے بانجھ ہونے کے طعنے سنے مگر ان کی ذات پر حرف نہ آنے دے۔اس وقت انہیں یہ احساس بالکل بھی نہیں ہوتا کہ بیوی بھی انسان ہے اس کی بھی خواہشات و جذبات ہیں جن کی تکمیل کا اسے بھی حق ہے لہذا خود ہی اسے چھوڑ دیں کہ وہ دوسری شادی کر لے۔
یہ ڈبل اسٹینڈرڈز کیوں ہیں؟؟؟؟ اللہ نے تو عورت کو بھی یہ حق دیا ہے کہ شوہر ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے قابل نہ رہے تو خلع لے کر دوسری شادی کر لے مگر کتنے فیصد خواتین ہیں جو ایسا کرتی ہیں؟؟؟؟ شاید ہزاروں میں سے ایک۔عموما خواتین سسرال اور شوہر کا ہر ظلم و ستم سہہ کر بھی گھر کو توڑنا پسند نہیں کرتیں پھر مرد کیوں ان کو انسان نہیں سمجھتے؟ کیونکہ یہ چاہتے ہیں کہ زندگی سے بھرپور لڑکی جس کی اپنی ایک شخصیت، پسند نا پسند ہے ان کے گھر آتے ہی ان کے خاندان کی اور ان کی بے زبان بے دام باندی بن جائے؟
قرآن حدیث ازدواج کو ایک دوسرے کے لیے باعث سکون، لباس، سہارا، اور نگران کہتے ہیں۔کہیں یہ نہیں لکھا کہ گھر بسانے کی ذمہ داری صرف عورت کی ہے، جیسا کہ پاکستان میں ایک عام خیال ہے، اور مرد جب چاہے اسے طلاق دے کر فارغ کر سکتا ہے۔اگر عورتوں کو یہ معلوم ہو کہ زندگی کے کسی بھی مرحلے میں شوہر انہیں طلاق دے دے گا تو وہ شادی کیوں کریں گی؟؟؟؟ اس کا گھر کیوں سنبھالیں گی، اس کی اوراس کے خاندان کی خدمت کیوں کریں گی، اس کے بچے کیوں پیدا کریں گی؟ کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ وہ اکیلی رہیں اور ہر غم خوف سے آزاد رہیں؟