Daily Roshni News

صلہ رحمی کی اہمیت اور اس کے ثمرات۔۔۔ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں

صلہ رحمی کی اہمیت اور اس کے ثمرات

 سیرتِ طیبہ کی روشنی میں

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ صلہ رحمی کی اہمیت اور اس کے ثمرات۔۔۔ سیرتِ طیبہ کی روشنی میں  )اس پرفتن دور میں ہمارا معاشرہ بہت سارے مسائل کا شکار ہے، ان میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ اہلِ معاشرہ میں محبت وہم آہنگی اور اتفاق کا فقدان، ایک دوسرے سے نفرت، عصبیت، حسد، بغض کا بڑھ جانا ہے، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو اللہ رب العزت نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ صلہ رحمی، عفو و درگزر کرنے اور آپس میں بھائی چارگی کی تعلیم دی ہے اور ان پر انعامات کا وعدہ فرمایا ہے۔ مسلمان تو مسلمان! دینِ اسلام میں تو ذمیوں کے حقوق کی بھی رعایت رکھی گئی ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے اقوال و افعال کے ذریعہ صلہ رحمی کی اہمیت و ضرورت کو بیان کیاہے۔

صلہ رحمی کا معنی و مفہوم

 اپنے نسبی عزیزوں اور رشتہ دارو ں سے اچھا سلوک کرنا، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، ان کے احوال کی رعایت کرنا۔ نسبی رشتہ دار سے مراد وہ ہے جو آپ کا پیدائشی رشتہ دار ہو، چاہے وہ والد کی طرف سے ہو یا والدہ کی طرف سے ہو، قریب کا ہو یا دور کا ہو،

صلہ رحمی اورارشادِ باری تعالیٰ

اللہ رب العزت کا ارشادِ گرامی ہے:

’’وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ أَمَرَ اللہُ بِہٖ أَنْ يُّوْصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَيَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ‘‘

(۳)

ترجمہ: ’’ اور یہ ایسے ہیں کہ اللہ نے جن علاقوں کے قائم رکھنے کا حکم کیا ہے، ان کو قائم رکھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور سخت عذاب کا اندیشہ رکھتے ہیں۔‘‘       

     (ترجمہ بیان القرآن)

 اس آیتِ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے اہلِ ایمان کو صلہ رحمی کی تعلیم دی ہے،

یعنی قریبی رشتہ داری نبھائے رکھنا، اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، اور اسی پر بس نہیں، بلکہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اس مرجعِ کائنات کی بھی تعیین کردی، جس کی بنی آدم کو سخت ضرورت تھی،

 چنانچہ اللہ رب العزت کا فرمانِ گرامی ہے:

’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْ اللہَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِيْرًا‘‘ (۵)

ترجمہ: ’’ تم لوگوں کے لیے یعنی ایسے شخص کے لیے جو اللہ سے اور روزِ آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکرِ الٰہی کرتا ہو ، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔‘‘    (ترجمہ بیان القرآن)

چنانچہ اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے تمام احکامات پر چاہے ان کا تعلق بدن سےہو، مال سے ہو، عمل کرنے کے ایک مشکل ترین مسئلے کا حل بتلا کر تمام مشکلات آسان فرماکر امت کو ایک بہترین مرجع عطا فرمادیا

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی کا ہر پہلو قابلِ عمل ہے، چاہے اس کا تعلق اقوال سے ہو، افعال سے ہو، احوال سے ہو، (الا یہ کہ جو افعال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ خاص ہیں)، اور کیوں نہ ہو،

جبکہ اللہ رب العزت نے اس آیتِ مبارکہ کے ذریعہ

’’ يَٓأَيُّہَا الَّذِيْنَ ءَامَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا أَعْمَالَکُمْ۔‘‘ (۷)

 روزِ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو ایک اصول فراہم کردیا، اور اُمتِ مسلمہ کو اپنے اعمال پرکھنے کے لیے ایک کسوٹی مہیاکردی کہ ہر عمل رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقوں پر ہو،

صلہ رحمی کی اہمیت اور رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات

جب جب ضرورت پڑتی گئی جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی امت کو منشا خداوندی کے مطابق مختلف تعلیمات سے آشنا کرتے گئے، یہ تعلیمات کبھی آپ نے اپنے اقوالِ مبارکہ کے ذریعہ دی تو کبھی ان اقوالِ مبارکہ کو اپنے افعالِ مبارکہ کے سانچے میں ڈھال کر اُمت کے سامنے پیش کرکے ان کی آنے والی مشکلات کوآسان فرمایا، چنانچہ بہت ساری احادیث مبارکہ جن میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی امت کو صلہ رحمی کی تعلیم دی، کبھی تویہ تعلیمات آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صلہ رحمی کی اہمیت اجاگر کرکے دیں، تو کبھی صلہ رحمی اور دینِ اسلام کے درمیان ایک مضبوط تعلق بتلا کر دیں، تو کبھی بذاتِ خود اپنے قریبی رشتہ داروں کی خدمت کرکے ان تعلیمات سے ہمیں روشناس کیا۔ امی عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سےروایت کرتی ہیں:

۱:’’الرحم معلقۃٌ بالعرش تقول: من وصلني وصلہ اللہ ومن قطعني قطعہ اللہ‘‘(۹)

ترجمہ: ’’رحم یعنی رشتہ داری عرش سے لٹکی ہوئی ہے اور کہتی ہے کہ جس نے مجھے جوڑدیا، اللہ رب العزت اس کو جوڑدے گا، اور جس نے مجھے توڑدیااللہ رب العزت اسے توڑدے گا۔ ‘‘

اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےصلہ رحمی کی اہمیت کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی اور دینِ اسلام کاآپس میں ایک گہرے تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلہ رحمی کی عظمت، اس کے جوڑنے والے کی عظمت، اور اس کے توڑنے والےکواس کے وبال کے مستحق ہونے کی خبر دی ہے، چنانچہ قاضی عیاض مالکی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

’’وذکر مقامہا وتعلقہا ہنا ضرب، وحسن استعارۃ علی مجاراۃ کلام العرب لتعظيم شأن حقہا۔‘‘ (۱۰)

قاضی عیاض  رحمۃ اللہ علیہ  کی اس عبارت کا مفہوم علامہ نووی  رحمۃ اللہ علیہ  اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’والمراد تعظيم شأنہا وفضيلۃ واصليہا وعظيم إثم قاطعيہا بعقوقہم‘‘ (۱۱)

’’مراد اس سے صلہ رحمی کی عظمتِ شان، اور اس کے جوڑنے والے کی فضیلت اور اس کے توڑنے والے کے وبال کے مستحق ہونے کو بیان کرنا ہے۔‘‘

اگر صبر وتحمل کامظاہرہ کیا جائے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بتلائی ہوئی ان تعلیمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان پر عمل کیا جائے اور ان تعلیمات کو اہلِ معاشرہ میں عام کیا جائے اور اس کی تعلیم سے ان کے سینوں کو مزین کرنے کے ساتھ ساتھ ان اصولوں کو جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذخیرۂ احادیث میں ہمیں ملتے ہیں، ان کو اصلاحِ معاشرہ کے لیے بروئے کار لایا جائے، تاکہ معاشرے میں روز مرہ کی بنیاد پر پیش آنے والے نِت نئے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔

Loading