Daily Roshni News

نیوٹرینوز: کائنات کے شرمیلے بھوت۔۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ ڈاکٹر احمد نعیم

“نیوٹرینوز: کائنات کے شرمیلے بھوت”

تحریر۔۔۔۔ ڈاکٹر احمد نعیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔”نیوٹرینوز: کائنات کے شرمیلے بھوت۔۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ ڈاکٹر احمد نعیم) کیا آپ جانتے ہیں کہ جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں، اسی دوران اربوں پوشیدہ ذرات آپ کے جسم سے بغیر کوئی نشان چھوڑے اور بغیر کوئی آواز پیدا کئے مسلسل گزر رہے ہیں؟۔

جی ہاں، یہ کوئی افسانہ یا جادوئی قصہ نہیں بلکہ کائنات کے سب سے زیادہ پراسرار رازوں میں سے ایک ہے جس کا نام نیوٹرینوز ہے اور جسے سائنسدان “گھوسٹ پارٹیکلز ” بھی کہتے ہیں۔ یہ ذرات اتنی تیزی اور خاموشی سے کائنات میں گھومتے پھرتے ہیں کہ ان کا وجود ہی ایک ناقابل یقین مظہر ہے۔

آخر یہ نیوٹرینوز کیا ہیں؟

نیوٹرینوز کائنات کے وہ ہلکے پھلکے اور نیوٹرل ذرات ہیں جو سورج کے دل میں پیدا ہوتے ہیں، ستاروں کی لاشوں سے نکلتے ہیں اور یہاں تک کہ بگ بینگ کی باقیات کے طور پر بھی ہم تک پہنچتے ہیں۔ ان کی سب سے عجیب بات یہ ہے کہ یہ مادے سے ایسے گزر جاتے ہیں جیسے کوئی بھوت دیواروں سے گزرتا ہو۔ آپ کا جسم، پہاڑ اور حتیٰ کہ زمین جیسے سیارے بھی ان کا راستہ نہیں روک سکتے۔ ہر سیکنڈ میں اربوں نیوٹرینو آپ میں سے گزرتے ہیں لیکن آپ کو کبھی پتا نہیں چلتا کیونکہ یہ نہ رکتے ہیں، نہ ٹھہرتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی اثر چھوتے ہیں۔

نیوٹرینو بنیادی طور پر ایک مخصوص نیوکلیئر ری ایکشن سے پیدا ہوتے ہیں جسے “بیٹا ڈی کے” (Beta Decay) کہا جاتا ہے۔ جب کسی غیر مستحکم ایٹم کا نیوٹرون پروٹون میں تبدیل ہوتا ہے تو اس دوران ایک الیکٹران اور ایک اینٹی نیوٹرینو خارج ہوتا ہے۔ یہ عمل سورج جیسے ستاروں میں ہائیڈروجن کے فیوژن کے دوران بڑے پیمانے پر وقوع پذیر ہوتا ہے جہاں ہائیڈروجن کے ایٹم مل کر ہیلیئم بناتے ہیں اور توانائی کے ساتھ ساتھ نیوٹرینوز بھی پیدا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ستاروں کے دھماکوں یا سپرنووا اور کائناتی تابکاری یا کاسمک ریز میں بھی یہ ذرات بہت زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں جو کائنات میں جاری شدید توانائی پیدا کرنے والے تعاملات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ یوں سمجھیں کہ نیوٹرینوز کائنات کے “جوہری دل” کی دھڑکنوں سے جنم لیتے ہیں اور کائنات میں نیوکلیئر زندگی کی تشخیص ظاہر کرتے ہیں۔

نیوٹرینوز “چھپن چھپائی” کھیلنے کے عادی ہیں اور ان کا پتہ لگانا اتنا مشکل ہے کہ ان کے پیچھے بھاگتے ہوئے سائنسدانوں کا پسینہ چھوٹ جاتا ہے۔ یہ ذرات اتنی تیزی سے حرکت کرتے ہیں کہ روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتے ہیں اور چونکہ یہ مادے سے نہ ہونے کے برابر ہی تعامل کرتے ہیں، اس لئے انہیں پکڑنے کے لئے بہت طاقتور اور عجیب آلات بنانے پڑتے ہیں۔

نیوٹرینو کی دریافت بھی ایک دلچسپ سائنسی کہانی ہے جو بیسویں صدی میں شروع ہوئی۔ نیوٹرینوز کا مادے کے ساتھ تعامل بہت کم ہوتا ہے لیکن یہ مکمل طور پر صفر نہیں ہے، چنانچہ ان کی دریافت اور پتہ لگانے کا عمل انسانی ذہانت، پیچیدہ آلات اور بالواسطہ سائنسی مشاہدات کی بدولت مکمل ہوا۔ سب سے پہلے نیوٹرینوز کا خیال 1930 میں وولفگانگ پاؤلی نے پیش کیا جب انہوں نے دیکھا کہ “بیٹا ڈیکے” عمل کے دوران توانائی اور مومینٹم کے تحفظ کے قوانین میں کچھ گڑبڑ تھی۔ انہوں نے سوچا کہ پروٹون، نیوٹرون اور الیکٹران کے علاوہ ایک “غائب” ذرہ بھی ہونا چاہیئے جو اس عمل کے دوران کچھ توانائی لے اڑتا ہے۔ اسے “نیوٹرینو” کا نام 1933 میں اینریکو فرمی نے دیا۔ نیوٹرینوز کو تجرباتی طور پر 1956 میں فریڈرک رائنس اور کلائڈ کوون نے دریافت کیا جب انہوں نے ایک جوہری ری ایکٹر سے نکلنے والے نیوٹرینوز کا پتہ لگایا۔ جوہری ری ایکٹر بہت بڑی تعداد میں نیوٹرینوز پیدا کرتے ہیں اور اگرچہ ان میں سے زیادہ تر مادے سے گزر جاتے ہیں لیکن کبھی کبھار کوئی نیوٹرینو مادے کے ذرات سے ٹکرا بھی جاتا ہے۔ نیوٹرینوز کا تعامل اتنا کم ہوتا ہے کہ انہیں براہِ راست نہیں دیکھا جا سکتا لیکن جب وہ مادے سے ٹکراتے ہیں تو ثانوی اثرات پیدا ہوتے ہیں جنہیں حساس آلات ڈیٹیکٹ کر لیتے ہیں۔

نیوٹرینوز صرف “ضعیف نیوکلیائی قوت” یا ویک نیوکلیئر فورس کے ذریعے مادے کے ساتھ تعامل کرتے ہیں یعنی جب کوئی نیوٹرینو پروٹون یا نیوٹرون سے ٹکراتا ہے تو یہ ایک چارجڈ پارٹیکل یا لیپٹون پیدا کر سکتا ہے اور پھر جب یہ چارجڈ پارٹیکل پانی، برف یا گلاس جیسے میڈیم میں روشنی کی رفتار سے تیز حرکت کرتا ہے تو یہ ایک مخصوص نیلی روشنی خارج کرتا ہے جسے چیرینکوف تابکاری کہتے ہیں۔ چونکہ نیوٹرینوز کا تعامل بے حد نادر و نایاب ہوتا ہے اس لئے بہت بڑی مقدار میں مادہ اور انتہائی حساس فوٹوڈیٹیکٹرز استعمال کئے جاتے ہیں تاکہ معمولی سے معمولی تابکاری کو بھی ریکارڈ کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر سپر کامیو کینڈے میں 50,000 ٹن خالص پانی ہے جو نیوٹرینوز کے تعاملات کو شناخت کرتا ہے۔ اسی طرح انٹارکٹیکا میں “آئس کیوب” نامی ایک ڈیٹیکٹر ہے جو تقریباً ڈیڑھ کلومیٹرز برف کے اندر نصب ہے اور برف کے شفاف ڈھانچے کو استعمال کرتے ہوئے نیوٹرینو کے اثرات کو تلاش کرتا ہے جب وہ شاذونادر کسی ایٹم سے ٹکراتے ہیں۔ اس ٹکراؤ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہلکی سی نیلی چمک یا چیرنکوف تابکاری ان بھوتوں کا انسانوں کے نام واحد “آداب” ہوتا ہے۔ گویا بے پناہ تگ و دو کے بعد انتہائی مختصر لمحے کے لئے یہ اپنے چہرے سے گھونگھٹ اٹھاتے ہیں اور پھر دوبارہ سے منہ چھپا لیتے ہیں جبکہ منہ دکھائی میں ڈیٹیکٹرز پر ہونے والا لاکھوں ڈالرز کا خرچہ بھی لیتے ہیں۔

 نیوٹرینوز کو پکڑنے کے لئے ان کے طاقتور مآخذ یا سورسز کا استعمال کیا جاتا ہے جن میں سورج، جوہری ری ایکٹرز یا کاسمک ریز وغیرہ اہم ہیں۔ سورج سے آنے والے نیوٹرینوز کو 1960 کی دہائی میں جان باہکال اور رے ڈیوس جونیئر نے کلورین پر مبنی ڈیٹیکٹر سے پکڑا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سیکنڈ میں تقریباً 100 ٹریلین نیوٹرینوز آپ کے جسم سے گزرتے ہیں لیکن آپ کی پوری زندگی میں شاید صرف ایک نیوٹرینو آپ کے جسم کے کسی ایٹم سے ٹکرائے گا اور مادے کے ساتھ اس قدر نایاب تعامل کی وجہ سے نیوٹرینوز کا پتہ لگانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

ان “شرمیلے” ذرات کے بارے میں ایک ایسی بات جو واقعی دماغ گھما دیتی ہے وہ یہ ہے کہ نیوٹرینوز کے تین “ذائقے” ہوتے ہیں جنہیں ہم الیکٹران نیوٹرینو، میوآن نیوٹرینو اور ٹاؤ نیوٹرینو کہتے ہیں۔ لیکن یہ کوئی آئس کریم کے فلیورز نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ذرات کائنات میں سفر کرتے ہوئے اپنا روپ بدل لیتے ہیں۔ گویا ایک نیوٹرینو سورج سے نکلتا ہے الیکٹران نیوٹرینو کے طور پر لیکن زمین تک پہنچتے ہوئے میوآن یا ٹاؤ نیوٹرینو بن جاتا ہے۔ اس عمل کو “نیوٹرینو اوسیلیشن” کہتے ہیں اور یہ اتنا حیران کن تھا کہ اس کی دریافت نے 2015 میں نوبل انعام جیتا۔ سوچیں یہ ذرات کائنات میں ہر شے کے آر پار گزرتے ہوئے اپنا لباس بدل رہے ہیں اور ہم ابھی تک ان کے اس کھیل کو مکمل طور پر سمجھ نہیں سکے۔

نیوٹرینوز انسان کے نام کائنات کا قدیم ترین پیغام پیغام اور کائنات کی پیدائش کے سب سے پرانے گواہ بھی ہیں۔ چونکہ یہ بگ بینگ کے چند سیکنڈز بعد پیدا ہوئے تھے اور مادے سے تعامل نہیں کرتے، لہٰذا یہ یہ اس عظیم دھماکے کی “یادوں” کو اپنے ساتھ لے کر چل رہے ہیں۔ اگر ہم انہیں مزید گہرائی میں پڑھ سکیں تو شاید کائنات کے ابتدائی لمحات کے راز کھل جائیں۔ ان لمحات کے راز کہ جب وقت، اسپیس اور مادہ سب کچھ جنم لے رہا تھا۔ یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ہمارے اردگرد موجود یہ بھوت ذرات ہمیں کائنات کی کہانی سنا رہے ہیں لیکن ہم ان کی زبان نہیں سمجھ سکتے۔

یہ ذرات ہماری روزمرہ زندگی میں کوئی اثر نہیں ڈالتے لیکن ان کے مطالعے سے ہم ستاروں کے اندرونی راز، کائنات میں ہونے والے عظیم دھماکوں اور حتیٰ کہ “ڈارک میٹر” جیسے پراسرار عوامل کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ نیوٹرینو کائنات کے اہم ترین سوالات جیسے کہ “ہم یہاں تک کیسے پہنچے؟” یا “کائنات کا مستقبل کیا ہوگا؟” کے جوابات اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہیں اور اگر ہم ان سے باتیں کرنا سیکھ گئے تو ہم ان کی زبانی کائنات کو کئی گنا بہتر انداز میں جاننے کے قابل ہو جائیں گے۔

چنانچہ اگلی بار جب آپ رات کو آسمان کی طرف دیکھیں تو ذہن میں لائیں کہ ان چمکتے ستاروں سے نکلنے والے اربوں نیوٹرینوز ہر لمحہ آپ کے جسم کے اندر سے گزر رہے ہوں گے۔ یہ کائناتی بھوت نہ تو ڈراتے ہیں، نہ کسی کو چھیڑتے ہیں اور نہ ہی تنگ کرتے ہیں۔ یہ تو بس خاموشی سے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ان کی داستان میں چھپے رازوں کو دریافت کرنے کی کوشش کریں۔

(تحریر: ڈاکٹر احمد نعیم)

Loading