Daily Roshni News

والد صاحب، آپ نے ہمیشہ مجھے درست راستہ دکھایا، اور میں ہمیشہ آپ کا شکر گزار رہوں گا۔

“والد صاحب”

میرے والد جب کبھی میرے کمرے میں آتے اور دیکھتے کہ بتی جل رہی ہے اور میں کمرے میں نہیں ہوں، تو کہتے: “تم بتی کیوں نہیں بجھاتے؟ اتنی بجلی کیوں ضائع کرتے ہو؟”
جب وہ واش روم میں جاتے اور نل سے پانی ٹپک رہا ہوتا، تو زور سے کہتے: “تم نل کو اچھی طرح بند کیوں نہیں کرتے؟ اتنی پانی کی بربادی کیوں ہو رہی ہے؟”

ہمیشہ وہ میرے اوپر تنقید کرتے اور مجھ پر الزام لگاتے کہ میں سُستی کا شکار ہوں!
چھوٹی اور بڑی ہر بات پر ٹوکتے، یہاں تک کہ بیماری کی حالت میں بھی!

پھر ایک دن آیا جب مجھے نوکری ملی، وہ دن جس کا میں بے صبری سے انتظار کر رہا تھا.

آج میں اپنی زندگی کی پہلی نوکری کے لیے انٹرویو دینے جا رہا تھا یہ ایک بڑی کمپنی میں ایک معزز ملازمت کے لیے تھا
اگر میں منتخب ہو گیا تو اس گھر کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا اور اپنے والد کی مسلسل نصیحتوں سے چھٹکارا حاصل کر لوں گا.

صبح سویرے اُٹھا، بہترین کپڑے پہنے، خوشبو لگائی اور نکلنے لگا. دروازے کے پاس کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا.
میں نے پلٹ کر دیکھا تو والد صاحب مسکراتے ہوئے کھڑے تھے، حالانکہ اُن کی آنکھوں میں بیماری کے آثار نمایاں تھے.
انہوں نے مجھے کچھ پیسے دیے اور کہا: “میں چاہتا ہوں کہ تم مثبت رہو، پُر اعتماد رہو اور کسی سوال سے نہ ڈرو.”
میں یہ نصیحت سُن کر بیزاری سے مسکرایا، اندر سے سوچ رہا تھا کہ یہ بھی وقت ہے نصیحت کرنے کا، جیسے وہ میری خوشی کے لمحے کو بھی خراب کرنا چاہتے ہوں.

میں گھر سے نکلا، ایک ٹیکسی کرائے پر لی اور کمپنی کی طرف روانہ ہو گیا.

جب میں وہاں پہنچا تو حیران رہ گیا!
نہ کوئی دربان تھا اور نہ کوئی استقبالیہ کا عملہ، بس کچھ ہدایتی بورڈز تھے جو انٹرویو کے کمرے کی طرف رہنمائی کر رہے تھے.

جیسے ہی میں دروازے میں داخل ہوا، دیکھا کہ دروازے کا ہینڈل اپنی جگہ سے نکلا ہوا ہے اور ٹوٹنے کے قریب ہے.
مجھے فوراً اپنے والد کی نصیحت یاد آئی کہ مثبت رہو، تو میں نے فوراً ہینڈل کو درست کیا.

آگے چلتے ہوئے دیکھا کہ باغ میں پانی بھر گیا ہے، ایک تالاب کا پانی بہہ رہا تھا، شاید مالی اسے بھول گیا تھا.
مجھے والد کی پانی کے ضیاع پر ناراضگی یاد آئی، میں نے نل کی رفتار کم کر دی اور پانی کو دوسرے تالاب میں بہنے دیا.

عمارت کے اندر پہنچا اور سیڑھیوں پر چڑھتے ہوئے دیکھا کہ روشنی کی بتی دن کے وقت جل رہی ہے.
مجھے والد کا چہرہ یاد آیا اور فوراً بتی بُجھا دی.

جب میں انٹرویو کے کمرے میں پہنچا، تو دیکھا کہ بہت سے لوگ نوکری کے لیے موجود ہیں.
سب کی طرف دیکھتے ہوئے، میں نے سوچا کہ میں ان کے سامنے کس طرح معمولی نظر آ رہا ہوں.

پھر دیکھا کہ جو بھی انٹرویو دینے جا رہا ہے، چند منٹوں میں واپس آ رہا ہے.
میں نے سوچا کہ اگر یہ لوگ اپنی تمام قابلیت کے باوجود کامیاب نہیں ہو سکے، تو میں کیسے ہو سکتا ہوں؟
میں نے انٹرویو چھوڑنے کا فیصلہ کیا.

لیکن جیسے ہی میں نکلنے لگا، میرا نام پکارا گیا
میں اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر کے کمرے میں داخل ہو گیا.

سامنے تین لوگ بیٹھے تھے، انہوں نے مسکرا کر پوچھا: “آپ کب اس نوکری کو سنبھالنا چاہتے ہیں؟”
مجھے لگا جیسے وہ مذاق کر رہے ہوں.

میں نے اپنے والد کی نصیحت یاد کی کہ پُر اعتماد رہو.
میں نے کہا: “جب میں امتحان میں کامیاب ہو جاؤں گا، تب سنبھالوں گا.”

ایک آدمی نے کہا: “آپ کامیاب ہو چکے ہیں”

میں حیران رہ گیا کہ کسی نے مجھ سے کوئی سوال نہیں پوچھا، اور انہوں نے بتایا کہ میرا امتحان ہو چکا ہے.

پھر ایک اور نے کہا: “ہم نے کمپنی میں کچھ جگہوں پر خرابیاں جان بوجھ کر رکھی تھیں تاکہ دیکھ سکیں کہ کون اُمیدوار انہیں ٹھیک کرتا ہے، اور آپ نے ہر غلطی کو درست کیا.”

اس لمحے، میرے سامنے سب کچھ مانند پڑ گیا. میں نے اپنے والد کی تصویر دیکھنا شروع کی.
وہ سخت مزاج جو ہمیشہ میری بھلائی چاہتا تھا.
مجھے گھر واپس جانے اور ان کے ہاتھ چومنے کی شدید خواہش ہوئی.

جب میں گھر پہنچا تو وہاں لوگوں کا ہجوم دیکھا. سب کے چہروں پر دُکھ کے آثار تھے.

میں بہت دیر سے پہنچا تھا

میرے والد چلے گئے تھے،اور میں اُن کی محبت اور نصیحتوں کی قدر کرنے میں دیر کر گیا.

والد صاحب، آپ نے ہمیشہ مجھے درست راستہ دکھایا، اور میں ہمیشہ آپ کا شکر گزار رہوں گا۔

Loading