وقت کلاک کی پنڈولم کا نام ہے۔۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )جہاں کوئی دوجا نہیں وہاں کوئی وقت نہیں۔ وہاں لا فانیت ہے، جاودانیت ہے، ابدیت ہے، جہاں لافانیت ہے وہاں لاوقت ہے۔ جسے ہم (Eternity) کہتے ہیں اس کا مطلب بہت طویل مدت نہیں، لاکھوں اربوں سال نہیں بلکہ لاوقت ہے، وقت کی عدم موجودگی اور غیر موجودگی ہے۔ (Eternity) کا اصل ترجمہ (Time lessness) ہے، اسے ہم (No-time) بھی کہ سکتے ہیں۔
–
وقت کلاک کی پنڈولم کا نام ہے، دائیں بائیں اس کا ماضی و مستقبل ہے۔ جب یہ پنڈولم رکتا ہے تو کلاک کی سوئیاں وہیں کا وہیں تھم جاتا ہے۔ یہ پنڈولم جب بھی رکتا ہے، اپنے مرکز میں گرتا ہے، اپنے نقطہ اعتدال پہ جھکتا ہے۔ کلاک کا یہی مرکز انسانوں میں حال کہلاتا ہے۔ قلب کے نام سے جانا جاتا ہے۔
–
اس مقام پہ رکنا ہی اللہ کے حضور جھکنا ہے۔ یہی وہ قیام ہے، جنت جس کا نام ہے۔ اس مقام پہ آنے والا جنت میں آجاتا ہے۔ جنت میں کوئی وقت نہیں، وقت میں کوئی جنت نہیں۔ جس لمحہ ہم واحد ہوتے ہیں، اسی لمحہ ہم احد ہو جاتے ہیں۔ ہر احد ازل سے ہی ابد ہے۔ احدیت (limitl essness) اور ابدی (Time lessness) ہمیشہ ساتھ ساتھ تھے ہمیشہ ساتھ ساتھ رہینگے۔ اب تو یہ سائنس بھی تسلیم کرنے لگی ہے۔
–
آئن سٹائن یہی کہ رہا تھا کہ اگر روشنی کی رفتار مستقل ہے تو پھر وقت مستقل نہیں، روشنی کی رفتار سے چلنے والی کسی بھی چیز کی لمبائی سکڑ جاتی ہے اور وقت رک جاتا ہے۔ ہم جتنا تیز چلتے ہیں وقت اسی تناسب سے اتنا آہستہ چلتا ہے۔
–
کسی انسان کو اگر کسی گرم چیز پر بٹھا دیا جائے تو اس کے لیے وقت اور طرح کٹے گا جبکہ محبوبہ کے ساتھ وقت اور طرح سے گزرے گا۔ آئن سٹائن نے یہ بھی ثابت کیا کہ حجم سے سپیس کی حالت بھی بدلتی ہے۔ لیکن کوئی سائنسدان اس وقت آئن سٹائن کے ان مبنی بر الہام نظریات کو ماننے پر تیار نہیں تھا۔
–
1921 میں یہ ثابت ہو گیا کہ ایک ستارے سے آنے والی روشنی سورج کے حجم کی وجہ سے خم کھا رہی ہے۔ اس پر اسے فزکس کا نوبل پرائز ملنے کے بعد ہی وقت سے متعلق اس کی تھیوری کو کوئی وقعت ملی اور وہ ”نظریہ اضافیت” کے نام سے مقبول ہوئی۔
–
نظریہ اضافیت کی وجہ سے آئن سٹائن کو ذہین ترین سائنسدان قرار دیا جاتا ہے۔ آئن سٹائن نے ایسی کون سے بات کہی تھی جو اس سے پہلے کسی بھی نبی یا صوفی نے کسی نہ کسی حوالے سے بیان نہ کی ہو؟
–
”واقعہ معراج نظریہ اضافیت ہی تو ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ محمد مصطفٰے براق پر بیٹھ کر آسمانوں پہ گئے۔ مولوی اپنی موروثی جہالت کی وجہ سمجھ نہ سکا و گر نہ یہ براق اصل میں برق ہی ہے، برق کا مطلب ”روشنی اور نور” ہے۔
–
محمد المصطفٰے ﷺ براق پر بیٹھ کر نہیں بلکہ خود روشنی بن گئے۔ اس استعاراتی ”واقعہ” کا مقصد صرف یہی سمجھانا تھا کہ روشنی کی رفتار پر وقت غیر اہم ہو جاتا ہے، تھم جاتا پے، رک جاتا ہے۔ محمد المصطفٰے نے ”نظریہ اضافت” دینی انداز میں سمجھایا، آئنسٹائن نے ”واقعہ” معراج سائنسی اندز میں بتایا۔
–
وقت (Time) اور حد (Limit) لازم و ملزوم ہیں بلکہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ جہاں وقت وہاں حد، جہاں حد وہاں وقت۔ جب وقت نہیں تو پھر کوئی حد بھی نہیں۔ جب حد نہیں تو وقت نہیں۔ عیسٰی ابن مریم نے اسی لیے تو کہا تھا کہ ”میں ابراہیم سے بھی پہلے تھا۔” کرشنا نے اسی لیے ارجن کو بتایا:
–
”Many, many births both you and I have passed.
I can remember all of them, but you cannot”
(Gita: 4.5)
–
بلھے شاہ نے اس صورتحال کی یوں وضاحت کی:
–
”ہابیل قابیل آدم جائے، آدم کس دا جایا
بلھٌیا اوہنا توں اگے آہا، دادا گود کھڑایا۔