Daily Roshni News

ٹیلی پورٹیشن۔۔۔چین کے سائنسدانوں کی ایک بڑی کامیابی

ٹیلی پورٹیشن

Teleportation

چین کے سائنسدانوں کی ایک بڑی کامیابی

)قسط نمبر(1

ہالینڈ(ڈیلی روشنی  نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ٹیلی پورٹیشن)کیا زمان و مکان میں سفر ممکن ہے ؟ …. کیا یہ ممکن ہے کہ انسان اپنی مرضی سے مستقبل میں چلا جائے اور اپنی آنے والی زندگی کو جان لے یا ماضی میں جا کر اپنی غلطیوں کو درست کر لے ….؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ فیکس کی طرح کوئی ماڑی شے یا خود انسان ایک شہر سے دوسرے شہر پلک جھپکتے ہی نمودارہو جائے ؟ یعنی کسی انسان یا شئے کا بغیر کسی واسطے یا ذریعہ کے لمحوں میں میلوں کا سفر کرلے۔

وقت اور فاصلہ کو تسخیر کرنے کی کوشش انسان صدیوں سے کرتا چلا آرہا ہے۔ حال ہی میں چین نے اس تسخیر میں ایک نیا سنگ میل عبور کیا ہے، جس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب انسان وقت اور فاصلہ کو مکمل طو پر تسخیر کرنے میں کامیاب ہو جائے گا …..

کیا انسان کا یہ خواب پایہ تکمیل کو پہنچ سکے گا ….؟؟۔۔ابن وصی

آج سائنس ترقی کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ زمین کے مادی وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ان دیکھی روشنیوں اور ان سنی آوازوں اور انجانی لہروں Waves کو بھی قابل استعمال بنا یا جارہا ہے۔ لیکن اب بھی دو ایسی قوتیں ہیں جنہیں انسان مزید قابو کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ اور یہ قوتیں ہیں Time Space & یعنی وقت اور فاصلہ ۔

انسانی اس بات کو جانتا ہے کہ سفر کوئی بھی کیا جائے اس میں دو چیزیں مشترک ہوتی ہیں ایک تو وسیلہ سفر یعنی ہمیں سفر کے لئے میڈیم کی ضرورت ہے چاہے وہ کوئی سواری یعنی رکشہ ، ٹیکسی، سائیکل کی شکل میں ہو یا پھر ہوائی جہاز سے کسی مسافت کا طے کرنا ہو۔ دوسر اوقت جو ہمیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچنے یا فاصلہ طے کرنے کے لئے درکار ہوتا ہے یہ دورانیہ چند منٹوں سے لے کر کئی گھنٹوں اور بسا

اوقات کئی سالوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے۔

 یوں تو وقت اور فاصلے کو تسخیر کرنے کی کوشش انسان صدیوں سے کرتا چلا آرہا ہے۔ مثلاً وقت پرقابو پانے کے لیے انسان نے اپنی رفتار میں اضافہ کیا، اس نے تیز رفتار جانوروں کو سدھایا اور اپنی رفتار کو تین میل سے تیس میل فی گھنٹہ تک لے گیا، پھر انسان نے پہیہ ایجاد کیا جس سے بیل گاڑی اور سائیکل ایجاد کی پھر موٹر کار اور ٹرین کا دور آیا ۔ انسان کی رفتار کو اگر سمندر نے روکنے یا کم کرنے کی کوشش کی تو اس نے کشتیاں، بحری جہاز اور آبدوز بنالیے ۔ بحری اور بری رکاوٹوں سے بچنے کے لیے ہوائی جہاز کی تخلیق ہوئی پھر جیٹ طیارہ، سپر سانک، اسپیس مشکل اور اسپیس کرافٹ نے رفتار میں دوسروں کو

پیچھے چھوڑ دیا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا کی سب سے تیز رفتار ٹرین چین کی شنگھائی میگلیو 430 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے اور امریکہ کا ایکس 15 طیارہ 7200 میل فی گھنٹہ کی رفتار رکھتا ہے۔ یہی نہیں ناسا کی تیار کردہ جو نو Juno اسپیس کرافٹ کی ۔ رفتار 2 لاکھ 65 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی ہے۔

 اسی طرح جہاں فاصلوں کو مختصر کرنے کا سوال ہے انسان نے اس کے لیے بھی ابتداء ہی سے کوششیں شروع کر دی تھیں۔ قدیم زمانہ میں انسان ڈھول اور نقارہ بجاکر اپنا پیغام میلوں دور پہنچایا کرتا تھا۔ پھر ڈاک کا دور آیا۔ ٹیلی فون اور فیکس نے فاصلوں کو مزید کم کر دیا۔ ٹیلی ویژن کی بدولت لمحہ بہ لمحہ خبر دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلنے لگی مگر انٹرنیٹ کی آمد نے ایک عام انسان تک یہ سہولت پہنچائی کہ وہ اپنا پیغام، تصویریں وغیرہ ایک سیکنڈ میں دنیا کے دوسرے کونے میں پہنچا سکتا ہے۔ آج انسان اپنے کمپیوٹر یا اسمارٹ فون کے ذریعے دنیا کے مختلف مقامات پر موجود لوگوں سے اس طرح ور چولی Virtually ملاقات کر رہا ہوتا ہے جیسے وہ وہاں از خود موجود ہو ..

لیکن انسان کی فطرت اس ترقی پر بھی اکتفاء کرنے پر راضی نہیں۔ جدید سائنسی تحقیقات کا رخ اب اس جانب ہے کہ کسی نہ کسی طرح سفر میں درکار وقت کو کم سے کم اور وسیلے کے استعمال کو صفر کر دیا جائے یعنی وہ وقت اور فاصلہ یا اصطلاحی الفاظ میں زمان و مکان پر ایسی گرفت چاہتا ہے کہ وہ زمان و مکان کو اپنی مرضی سے تبدیل کر سکے۔ جیسا کہ اکثر سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاتا ہے ؟….

کیا انسان کا یہ خواب پا یہ تکمیل کو پہنچ سکے گا۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ فیکس قیس کا کی طرح کوئی ماڈی شے یا خود انسان ایک شہر سے دوسرے شہر پلک جھپکتے ہی نمودار ہو جائے ….؟

جب ہم انسانی تاریخ میں نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں زمان و مکان کی تسخیر کے بہت سے واقعات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر اہرام مصر کی تعمیر میں استعمال ہونے والے دیو ہیکل پتھروں کی نقل و حرکت کا راز آج بھی ماہرین کی عقل کو حیران کیسے ہوئے ہے۔ ان میں سے اکثر ماہرین کے نزدیک یہ سراسر ناممکن ہے۔ مصر جیسے صحرائی علاقہ میں جہاں دریا کے کنارے چند کھجور کے درخت کے سوا کوئی درخت ان دیو ہیکل پتھروں کو لانے کے لیے اتنے درخت کہاں سے آئے ہوں گے؟۔

اس حوالے سے مخفی علوم کے ماہرین لوب سنگ رمپا اور ایڈگر کیسی کہتے ہیں کہ قدیم مصریوں کے پاس کوئی ایسی تکنیک تھی جس کی مدد سے وہ کئی ہر از ٹن وزنی پتھروں کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر منتقل کر دیتے تھے۔ یا تو وہ کشش ثقل کی نفی سے واقف تھے یا پھر تسخیر مکان کے ذریعہ وہ پتھروں کو روشنیوں میں تحلیل کر کے دوسرے مقام پر دوبارہ ظاہر کر دیتے تھے۔

اسی طرح وادی سندھ کی تہذیب موہن جو داڑو اور ہزاروں میل کے فاصلے پر آسٹریلیا کے قریبی سمندر میں جزیرہ ایسٹر پر موجود قدیم تہذیب ایک دوسرے سے اس حد تک جڑی ہوئی تھیں کہ وہاں کے لوگوں کے رسم و رواج، تحریری خط اور بولی ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے تھے جیسے یہ دونوں ایک ہی شہر کے دو حصوں میں واقع ہوں۔ آخر یہ دونوں تہذیبیں اس قدر فاصلے کے باوجود کس طرح ایک دوسرے سے رابطہ کرتی تھیں ؟….

افریقہ کے ملک مالی میں ایک قبیلہ ڈاگون کے باشندے کہتے تھے کہ ان کے آباؤ اجداد جنوب کے روشن ستاره شعری Sirus کا سفر کر کے آئے تھے۔ ان کے پاس ایک قدیم دستاویز میں اس ستارے کے گرد چکر لگانے والے ایک ذیلی سیارے کا ذکر ۔ ہے، حالانکہ اس ذیلی سیارے کو سائنس دانوں نے اسی صدی میں دریافت کیا ہے۔ کیا واقعی ڈاگون قبیلے کے آباؤ اجداد یہ صلاحیت رکھتے تھے کہ وہ زمین سے ساڑھے آٹھ نوری سال کے فاصلہ پر واقع اس ستارے پر سفر کر سکیں۔

صرف زمانی تسخیر ہی نہیں مکانی تسخیر کےسنگ واقعات بھی تاریخ میں جابجا موجود ہیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں 900 میل کے فاصلے سے ملکہ سبا کے تخت کی قلیل لمحہ م پر میں منتقلی کا واقعہ بھی زمانی اور مکانی تسخیر کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت سلیمان کا ایک درباری ، دربار کی کو برخاستگی سے قبل 900 میل کی مسافت پر موجود تخت بارہ حاضر کر سکتا تھا اور دوسرا جس کے پاس کتاب کا علم تھا جس کی مدد سے اس نے پلک جھپکنے سے بھی کم مدت میں تخت کو 900 میل دوری سے منتقل کر دیا تھا۔

کئی روحانی بزرگوں کے متعلق بھی ایسی روایات ایک بیان کی جاتی ہیں کہ وہ زمان اور مکان پر دسترس رکھتے یاں تھے۔ ایک شہر سے دوسرے شہر لمحوں میں پہنچ یک جاتے تھے ، بعض روایات کے مطابق تو کچھ روحانی افراد تو ایک ہی وقت میں کئی جگہ موجود رہتے تھے۔ مادی سائنس پر یقین رکھنے والے اکثر لوگ ان واقعات کو اساطیری کہانیاں، مذہبی اور مافوق الفطرت مزاج لوگوں کی باتیں اور سائنس فکشن ادیبوں کا تخیل کہہ کر نظر انداز کرتے رہے ہیں مگر پھر بھی بعض سائنس دان زمان و مکان پر دسترس کو نا ممکن نہیں سمجھتے۔ ان کے مطابق سائنس میں زمان و مکان کی تسخیر مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ زمان و کر مکان کی تسخیر کے سائنسی نظریات تو بہت موجود ہیں نے مگر عملی طور پر یہ کب تک ممکن ہو گا ہے اس سوال کا پہلے جواب دینے سے ابھی سائنس قاصر ہے۔ مگر کچھ منچلے سائنسدان ہیں جو زمین و مکان کو تسخیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ دنیا بھر میں اس سلسلے میں کی جانے والے کیا کیا تحقیقات منظر عام پر آرہی ہیں اور

سائنسدان کامیابی سے کتنے قدم دور ہیں ۔ یہ جاننے سے قبل ہم ذرا سائنسی نظریات پر نظر ڈالتے ہیں۔

ایک صدی قبل تک سائنسدانوں کی کثیر تعداد اور تمام سائنسی نظریات نیوٹن کے مفروضہ ”زمان پر قائم تھے۔ جس Absolute Time “مطلق کے مطابق وقت ایک غیر متغیر شے ہے۔ اس لیے وہ ہر آدمی کے لیے ایک ہی ہے، خواہ وہ کہیں بھی ہو اور کسی بھی رفتار سے حرکت کر رہا ہو، کائنات کا وقت مستقل طور پر یکساں رفتار سے لامتناہی ماضی سے لامتناہی مستقبل کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ لہذا کسی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ وقت کی رفتار کو روک لے یا وقت سے آگے نکل جائے۔

بیسویں صدی کے اوائل میں شہرہ آفاق سائنس دان آئن اسٹائن وہ پہلی شخصیت تھے جس نے نے نیوٹن کے اس مفروضہ کو رد کیا اور بتایا کہ مادہ اور توانائی دو الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ سکے کے دو رخ ہیں اور مادہ اور توانائی ایک دوسرے میں ڈھل سکتے ہیں۔ اس وقت زمان و مکان میں سفر ایک نا ممکن اور غیر منطقی سی بات تھی۔ لیکن آئن انسٹائن نے اس وقت اپنا نظریہ اضافیت Theory Of سے E=MC2 پیش کیا۔ جسے عموماً Relativity ظاہر کیا جاتا ہے۔

نظریہ اضافیت کے مطابق اگر ہماری رفتار روشنی کی رفتار کے برابر ہو جائے تب وقت میں سفر ممکن ہو گا، لیکن اس کے لیے بہت زیادہ توانائی کی ضرورت ہو گی اور ایسا کرنے کے لیے مادی جسم کو ساتھ لے کر چلنا بھی نا ممکن نظر آتا ہے۔

اور Travel ر ٹیلی کمیون اس دور میں ماہرین نے ٹائم ٹریول Time نیکیشن اور ٹرانسپورٹیشن کی خصوصیت کے باہمی امتزاج سے ٹیلی پورٹیشن  Teleportationکی اصطلاحات وضع کیں۔

ٹیلی پورٹیشن سے مراد کسی بھی مادی چیز کو ایک مقام سے دوسرے مقام پر اس طرح منتقل کرنا ہے جس کے ذریعے یہ چیز پہلے مقام سے غائب ہو جاتی ہے۔ دوسرے معنوں میں یہ اس مقام سے فنا ہو جاتی ہے اور دوسرے مقام پر اس کا ظہور ہوتا ہے۔ ٹیلی پورٹیشن کے ذریعے منتقل کی جانے والی چیز کی صحیح ترین ایٹمی معلومات ایک مقام سے۔۔۔جاری ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  اگست2017

Loading