ہسٹری کی مسٹری
گم شدہ تہذیبیں
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ہسٹری کی مسٹری)یہ براعظم بحر اوقیانوس (اٹلانٹک اوشین) میں ہر کولیس کے ستون (آبنائے جبرالٹر) سے آگے واقع تھا۔ ایک اور کتاب کرایٹیاس Critias میں افلاطون لکھتا ہے کہ اس جزیرے کو کسی سیپ سے تشبیہ دی جاسکتی تھی۔ یہ ایشیا اور لیبیا (افریقہ) دونوں سے مجموعی طور پر بڑا تھا۔ اندازاً ایک لاکھ 54 ہزار مربع میل رقبہ اور دو کروڑ سے زائد آبادی والے اس براعظم میں بلند و بالا پہاڑ تھے، گرم چشموں اور نہروں کی بہتات تھی جس سے آب پاشی کا کام لیا جاتا تھا۔ اٹلانٹس کی سرزمین بہت زرخیز تھی۔ فصلوں کے علاوہ جڑی بوٹیاں اور پھل و میوہ جات کی پیداوار بافراط ہوتی تھی۔ ہاتھی اور دیگر انواع اقسام کے جانور عام گھوما پھرا کرتے تھے۔ یہ براعظم قدرتی وسائل سے اس قدر مالا مال تھا کہ عمارتوں تک میں سونا چاندی کا استعمال کیا جاتا۔ اٹلانٹس کے مرکز میں ایک بلند و بالا پہاڑ تھا جہاں بادشاہ کا محل تھا۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ جزیرہ کسی مضبوط قلعے کی مانند تھا۔ اس کے ارد گرد بلند و بالا پہاڑ ہر سمت سے اٹلانٹس کی حفاظت کرتے تھے۔
افلاطون کے مطابق تقریباً تین ہزار سال تک 12000 ق م سے 9000ق م اٹلانٹس کی عظیم الشان اور دلکش تہذیب دنیا کے لیے حیرت کا باعث بنی رہی۔ ان کے زیر نگیں علاقوں کی سرحدیں مصر سے لے کر اٹلی ایک پھیلی ہوئی تھیں۔ اٹلانٹس کے لوگ ایک ایسی مملکت بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ جہاں اخلاقی اقدار اور اخلاقیات کو فوقیت دی گئی تھی۔ اٹلانٹس کے لوگ بہت طاقت ور اور شریف النفس تھے، اخوت اور اخلاص یہاں کی نمایاں خصوصیت تھی۔
صدیوں تک اٹلانٹس کی تہذیب دنیا پر غالب رہی مگر رفتہ رفتہ ان میں اخلاقی برائیاں پروان چڑھنے لگیں۔ لائی، جھوٹ، بے ایمانی اور ہوس جیسی برائیاں ان میں سرائیت کر گئیں، اپنی طاقت کے نشے میں چور ہو کر انہوں نے دنیا کی دیگر سلطنتوں پر چڑھائی کر دی۔ ہر عروج کے لازمی زوال کی طرح اٹلانٹس بھی اپنے عروج میں زوال پذیر ہو گیا۔ ایک دن، ایک زبر دست زلزلہ آیا، آسمان سے آگ برسنے لگی اور سمندر سے ہیبت ناک موج اٹھی اور اٹلانٹس پر چھا گئی چنانچہ صرف ایک دن ایک رات کے مختصر وقفہ میں اٹلانٹس کا پورا براعظم سمندر کی تہہ میں غرق ہو گیا۔ کچھ ہی لوگ تھے جو اس تباہی سے جان بچا کر نکل سکے۔
افلاطون یہ بھی بتاتا ہے کہ قدیم مصری جنہوں نے اٹلانٹس کی داستان یونانیوں کے سامنے بیان کی وہ خود بھی اس کے اصل گواہ نہیں تھے، بلکہ انہوں نے بھی کسی قدیم اور انجان زبان کی تحریر کو اپنی زبان میں ترجمہ کر کے بیان کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ افلاطون کے شاگرد اور اس کے ہمعصر فلسفیوں نے اس داستان کو قبول نہ کیا افلاطون کے بعد بھی سواد و ہزار برس تک کسی نے بھی اس موضوع پر کوئی تحقیقی دلچسپی نہیں لی۔
1882ء میں امریکی کانگریس کے رکن اگنا سکیں ڈونیلی نے اٹلانٹس کی حقیقت دریافت کرنے کے لیے افلاطون کے نظریات کو موجودہ دور میں موضوع بحث بنادیا۔ انہوں نے خود اس موضوع پر خاصی تحقیق کی، ان کی کتاب : Atlantis The Antediluvian World.اٹلانٹس : طوفان نوح سے قبل کی دنیا کے مطابق اٹلانٹس بحر اوقیانوس کے وسط میں موجود تھاد نیا کے تمام علوم و فنون اٹلانٹس ہی سے نکلے ہیں۔ یہ براعظم 13 ہزار برس قبل تباہ ہو ا تھا۔
ڈو نیلی کی کتاب کی اشاعت کے بعد اٹلانٹس کے حوالے سے تحقیق اور تلاش کا گویا سیلاب آگیا۔ دو صدیوں کے دوران تقریباً “5 ہزار کے قریب کتابیں، رسائل اور مضامین اس موضوع پر شائع ہو چکے ہیں، اس کے علاوہ ناول، ٹی وی ڈرامے اور فلمیں بھی بنائی گئیں۔ اس دوران جو سائنس دان اور تاریخ دان اٹلانٹس کی طرف متوجہ ۔ ہوئے انہوں نے اپنے الگ الگ نظریات پیش کیے۔ ایمونول ولیکیو سکی کا خیال ہے کہ بعض آوارہ سیارے کئی بار زمین کے قریب سے گذر چکے ہیں اور ان کے باعث کئی بار دنیا تباہی کا شکار ہو چکی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی آوار بسیار والا نٹس کو لے ڈوبا ہو۔ ایک منکر ہوار بگر Hoerbiger ایسی تباہی – کا ذمہ دار چاند کو ٹھہراتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چاند کے باعث سمندر میں ہونے والے مدو جزر اٹلانٹس کی غرقابی کی وجہ بنے۔
اب تک اٹلانٹس کے موضوع پر دس ہزار سے زیادہ مضامین اور کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جس کتاب کو حقیقت کے قریب ترین تصور کیا گیا ہے وہ اوٹو ہنرک موک Otto Heinrich Muck کی کتاب Atlantis Secrets Ofیعنی اٹلانٹس کے اسرار “ ہے۔ پنیرک موک آسٹریا کا ایک ماہر انجینئر تھا۔ ہیٹرک موک نے دوسری جنگ عظیم کے دوران آبدوزوں کو کئی ہفتوں تک سمندر میں محفوظ رہنے کے لیے بیش بہادر یافتیں کی تھیں۔ وہ سائنس دانوں کی اس ٹیم کا ممبر بھی تھا جس نے سب سے پہلے میزائل بنائے تھے۔ میزائل اور راکٹ بنانے والے ہینرک موک کی فنر کس اور تاریخ میں دلچسپی نے انہیں اس کام کے لیے اٹلانٹس کے اسرار کو حل کرنے کی کوشش پر مائل کیا۔ انہوں نے اپنی ریاضی کی مہارت اور جغرافیائی معلومات کو استعمال کیا۔
ہینرک موک کے مطابق اٹلانٹس کا صحیح وقوع بحر اقیانوس میں واقع ایزورس (Azores) کے گردو نواح میں ہو سکتا ہے جہاں یورپ سے 750 میل دور مغرب میں چھوٹے چھوٹے جزیروں کا ایک مجموعہ ہے۔ ہینرک موک لکھتا ہے کہ یورپ کا وہ حصہ جسے ماہرین آثار قدیمہ اٹلانٹس قرار دیتے ہیں اٹلانٹس کے عروج کے وقت پوری طرح برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ ان گلیشئر ز نے 10000 قدم کے قریب چھلنا شروع کر دیا تھا۔ مکمل طور پر چھلنے میں انہیں 3000 سال لگے تھے۔ در حقیقت یورپ کے گرد سمندر کا وہ حصہ جو گلف اسٹریم (Gulf Stream) کہلاتا ہے اٹلانٹس کے خشک قطع کی شکل میں تھا۔
اوٹو ہنری موک نے اپنی کتاب “اٹلانٹس کے اسرار “ میں یہ نظریہ پیش کیا کہ اٹلانٹس کی غرقابی اور بر بادی دراصل ایک بڑے شہاب ثاقب کی وجہ سے ہوئی۔ جزائر پورٹوریکو کے پاس دو بڑے گڑھے اسی شہاب ثاقب کے دو ٹکڑوں سے بنے، اس کے علاوہ اس کے کئی ٹکڑے بحر اوقیانوس کے سمندر اور اٹلانٹس پر گرنے سے زمین پر زبردست بھونچال آگیا، آتش فشاں ابل پڑا، سمندر نا قابل یقین رفتار سے بلند ہوا اور اٹلانٹس سمندر میں ڈوب گیا۔
کئی مصنفین کا خیال ہے کہ اس براعظم کے لوگ کالا جاد و جانتے تھے یا توانائی کی کسی ٹیکنالوجی سے واقف تھے اور ایک دوسرے کو تباہ کرنے کی کوشش میں یہ براعظم مکمل طور پر تباہی سے دوچار ہو گیا۔ معروف امریکی ماہر پیراسائیکولوجی ایڈ کرکیسی کے مطابق اٹلانٹس ایک براعظم تھا جو تین مرتبہ تباہی سے دوچار ہوا، پہلی مرتبہ 15600 ق م میں دوسری مرتبہ دس ہزار ق م میں اور تیسری مرتبہ آنے والی تباہی نے اس عظیم جزیرہ کو صفحہ ہستی سے مٹادیا۔ ایڈ کر کیسی کا خیال تھا کہ وہ لوگ جدید دور سے بھی زیادہ ترقی یافتہ تھے۔ اہرام مصر، اسٹون پینج، ایسٹر آئی لینڈ کے مجسمے وغیر ہ انہی کی تعمیرات تھے۔ ایڈ کر کیسی کا خیال ہے کہ یہ لوگ ٹیلی پیتھی میں بھی مہارت رکھتے تھے ، ان کے پاس توانائی کا منبع ایک کرسٹل نما پتھر تھا نے Tuaoi کہتے تھے، یہ انعکاسی پتھر سورج کی روشنیوں کو جذب کر کے دوبارہ منعکس کرنے پر قادر تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ایڈ گر نے جب سورج کی توانائی کا تذکرہ کیا تو اس وقت تک سولر انرجی کے استعمال کی ابتدا نہیں ہوئی تھی۔ ایڈ کرکیسی کے مطابق یہ لوگ ایسی مشینریز بھی
بناچکے تھے جس کے ذریعے یہ فضاؤں میں سفر کرتے، ان کی اس جہاز نما ایجاد کو ایڈ کرنے ولیکسی Vilixi نام دیا ہے۔ ایڈ کر کے مطابق اٹلانٹس کی غرقابی در اصل اس کرسٹل نما انعکاسی پتھر کے حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہوئی۔ کرسٹل کی مدد سے لا محدود توانائی حاصل کرنے کی کوشش میں کرسٹل کی توانائی کا شدت سے اخراج ہوا اور یہ براعظم تباہ ہو گیا۔ اٹلانٹس کی باقیات کی تلاش دو صدیوں قبل اٹلانٹس پر تحقیق کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک دنیا بھر میں میں سے زائد مقام پر زیر سمندر تہذ یہیں دریافت ہو چکی ہیں اور ہر ایک پر اٹلانٹس کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
دنیا کے مختلف مخطوں میں سمندروں میں قدیم تہذیبوں اور کھنڈرات کی دریافت کے بعد ماہرین یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ آخر لوگ صرف اٹلانٹس ہی کیوں تلاش کر رہے ہیں ….؟
کیا زمانہ قبل از تاریخ میں صرف اٹلانٹس تہذیب کا ہی وجود تھا۔ ضروری تو نہیں سمندر کی تہہ میں ملنے والے آثار اٹلانٹس ہی سے تعلق رکھتے ہوں ….؟
زلزلے، سونامی، طوفان اور آتش فشاں قدرت کے نظام کا حصہ ہیں چنانچہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اٹلانٹس کے علاوہ اور بھی تہذیبیں قدرتی آفات کا شکار ہوئی ہوں ….؟
اس موضوع پر مزید تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ صرف اٹلانٹس ہی نہیں ماضی میں کئی اور تہذ یہیں ایسی موجود تھیں جو قدرتی آفات کی وجہ سے سمندر کی تہہ میں غرق ہو چکی ہیں۔ ان میں بعض کا تذکرہ ہم آئندہ قسط میں کریں گے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2024