Daily Roshni News

اب دیکھو، کل پہلی اپریل ہے ۔ بتائو کس کو فول بنائیں؟

اب دیکھو، کل پہلی اپریل ہے ۔ بتائو کس کو فول بنائیں؟

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی دانیال میرے ساتھ ایسا کرے گا، میں اس کے انتظار میں سالوں سے کنواری بیٹھی تھی کیونکہ ہماری شادی کی بات ہو چکی تھی، لیکن ایک دن وہ ملیحہ کیساتھ میرے سامنے آ کھڑا ہوا ۔ دونوں  دلہا دلہن کے لباس میں تھے، مجھے لگا کہ اپریل فول کہیں گے لیکن میری دنیا ہی لٹ گئی۔

یہ مارچ کی ایک خزاں رسیده شام تھی۔ شاداب پتوں کا پژمرده دور شروع ہو چکا تھا۔ میں کمرے میں بیٹھے بیٹھے تھک گئی تو باغ میں آ گئی اور پتھر کی ایک مخصوص بنچ پر بیٹھ گئی، جس پر بیٹھ کر سوچوں کی دنیا میں گم ہو جانا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ میں کافی دیر سے خاموش بیٹھی ، چنبیلی کے ایک تنہا پھول کو دیکھ رہی تھی جس کے سب ساتھی نذر خزاں ہو چکے تھے اور وہ شاخ پر تنها باقی رہ گیا تھا۔ اس پھول پر ایک عجیب سی ویرانی برستی نظر آئی تو میں سوچ میں پڑ گئی۔

یہ پھول بھی اپنی مختصر مدت، حیات پوری کر کے اپنے ساتھیوں سے جا ملے گا۔ اس کا بھی وہی حشر ہو گا جو دیگر پھولوں کا ہوا ہے پھر اس کے بعد باغ کے دامن میں کیا رہ جائے گا۔ واقعی جب احباب بچھڑ جائیں تو آدمی ویرانے میں کیسے رہ سکتا ہے؟ یکایک تصور میں دانیال کی صورت نظر آنے لگی۔ وہ بھی اس دنیا میں اکیلا تها والدين ، بہن ، بھائی سب ایک حادثے میں اس سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے تھے۔ زندگی میں تلخیاں ہونے کے باوجود وہ کس قدر زنده دل اور بنس مکه جوان تھا۔ شیر جیسا دل تھا اس كا دانیال میرا کزن تھا ہر وقت ہنساتے رہنا اس کا کام تھا۔ وہ بہت وجیہ تھا اور اعلیٰ عہدہ اس کی وجاہت و حسن پر زیب دیتا تھا۔ خاکی یونیفارم نے اس کی شخصیت پر چار چاند لگا دیئے تھے۔ جب بھی میں اسے بھاری بوٹوں اور باوقار یونیفارم میں دیکھتی تو میرا دل اس کی جانب کھینچنے لگتا تھا۔

میرے بابا جان کی خواہش تھی کہ دانیال ان کا داماد بنے اور میں بھی طے کر چکی تھی کہ اسی کو اپنا جیون ساتھی بنائوں گی ، تاہم ابھی تک میں نے اپنی تمنا کا اظہار نہیں کیا تھا۔ حجاب مانع رہا مگر تا کجا؟ جب مجھے بزرگوں کی طرف سے اپنا شریک زندگی منتخب کرنے کا پورا اختیار تھا، تو میں کیوں نہ اپنے اور دائیاں کے بارے میں سوچتی۔ اس میں خوبیاں تھیں۔ بظاہر کوئی برائی نہ تھی۔ لائق ، صابر، شریف خاندان بہترین سیرت کا مالک تھا، پھر عہدے کے لحاظ سے بھی معزز تھا۔ وطن کا پاسبان تھا۔ اس رشتے پر کسی کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا ۔ جب اس کے والدین حادثے کی نذر ہوئے، تو کچھ دن وہ ہمارے ساتھ رہا، پھر بڑی خالہ اسے اپنے گھر لے گئیں، تب سے وہ وہیں رہتا تها.

ایک دن مین نے زبان کھولی اور دانیال کے حق میں ووٹ دے دیا۔ امی ابو پہلے ہی یہ چاہتے تھے، وہ خوش ہوگئے۔ انہوں نے بڑی خالہ اور خالو سے بات کی اور پھر دانیال نے بھی مجھے پسند کر کے ہامی بھر لی لیکن اس کا کہنا تھا کہ وہ منگنی وغیرہ کے چکروں میں نہیں پڑنا چاہتا۔ سیدھے ڈیڑھ سال بعد شادی کرے گا، جب اس کی ترقی ہو گی، وہ اگلے رینک میں جائے گا۔

اس کی پوسٹنگ کسی بڑے اور اچھے شہر میں متوقع تھی۔ ان دنوں وہ پہاڑی علاقوں پر ڈیوٹی دے رہا تھا، جہاں فیملی کو ساتھ نہیں رکھا جا سکتا تھا. یہ خاصا دشوار گزار علاقہ تھا سارا سال برف پوش پہاڑ، سفید لبادہ اوڑھے رہتے تھے اور ٹھنڈ سے اچھے اچھوں کے حوصلے پست ہو جاتے تھے۔ دانیال جب پہاڑی علاقے سے شہر آتا تو مجھے فون کرتا۔ جب میں کہتی کہ میں ایک ایک دن گن گن کر گزار رہی ہوں کہ کب تمہاری ہمارے گھر کے قریب پوسٹنگ ہو اور تم ہمارے گھر آیا کرو، تو وہ یہ سن کر بہت اداس ہو جاتا اور کہتا۔ ہم مجاہد ہیں، ہمارے دعا تمہاری دعا کے ساتھ مل کر اور جلدی الله کی بارگاہ میں پہنچے گی، تاکہ قبول ہو، لہذا خوب دعا کرو۔ تب میں ہنس کر کہتی ہاں ، امید پر تو دنیا قائم ہے۔ ان دنوں میں بی اے کے آخری سال میں تھی ۔

میرے ساتھ ملیحہ بھی تھی وہ میری بہت اچھی ہم جماعت تھی ، جو بعد میں میری بہترین سہیلی بن گئی۔ ملیحہ خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ملنسار اور خوش مزاج تھی، اسی لئے ہر دلعزیز اور مقبول تھی۔ جہاں جاتی جان محفل بن جاتی اور سب اس کے گرویدہ ہو جاتے۔ اس میں بڑی خوبیاں تھیں۔ اپنی کم کہتی، لوگوں کی زیادہ سنتی ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے بات کرتی اور سب کی عزت کرتی بدلے میں اسے بھی عزت ملتی تھی۔ مجھے بھی ملیحہ کی یہی خویباں پسند تھیں، مگر سب خوبیوں سے بڑھ کر ایک اور بھی وصف تھا اس میں، سنجیدہ محفل کو اپنی شگفتہ باتوں سے زعفران زار بنانا اس پر تمام تھا۔ اس کے مذاق شائستہ ہوتے لیکن اکثر اپریل کی پہلی تاریخ کو کبھی كبهار وه ہم لوگوں سے زیادتی بھی کر جاتی تھی۔

چونکہ ہم سب کو اس سے محبت تھی ، تو ہم اس کی ان کبھی کبھار کی زیادیتوں کو سہ جاتے تھے اور برا نہیں مناتے تھے ۔ مجھے خاص طور پر اس پر بڑا اعتماد تھا اور کیوں نہ ہوتا ، وہ تھی ہی اعتبار کے قابل ۔ میں اسے اپنے دل کی ہر بات بتایا کرتی تهی ، مگر مجھے اعتراف ہے کہ مجھ سے ایک غلطی ہو گئی۔ نہ جانے کیوں، میں نے اسے دانیال کے بارے میں کچھ بھی نہ بتایا اور آخری وقت تک اپنے جذبات سے لاعلم رکھا۔ سوچوں میں شام ڈھل گئی، وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔ میں ابھی بھی پتھر کی بینچ پر پتھر کا بت بنی بیٹھی تھی کہ اچانک میری چھوٹی بہن نے آکر مجھے خیالوں کی دنیا سے نکالا ۔ باجی! آپ یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہیں۔امی بلا رہی ہیں آپ کو۔ عاشی کی آواز پر میرے خیالات کی تسبیح ٹوٹ گئی اور یادوں کے موتی بکھر گئے ۔ عذرا اور خالہ جان آئی ہیں۔ اچھا خالہ جان کے ساتھ عذرا بھی آئی ہے۔ میں نے بے یقینی سے دہرایا تھا۔

اتنے میں عذرا بھی آ گئی ۔ اس نے کہا تھا۔ باجی آپ کا دل یہاں کیا لگتا ہو گا۔ لاہور شہر جیسی رونق تو نہیں ہے یہاں عذرا کیا کہتی ہو، مانا یہاں لاہور جیسی ہنگامہ پرور رونقیں نہیں ہیں، لیکن قدرتی مناظر کی بہتات ہے۔ یہاں زندگی میں ٹھہرائو ہے ایسی خاموشی اور سکوت پر تو ہزار تکلم نثار ہیں۔ تب کسی نے پیچھے سے گره لگائی تو میں نے مڑ کر دیکھا ، وبان دانیال کھڑے تھے۔ گویا شہزادہ گلفام بھی خالہ جان کے ساتھ آئے تھے۔ میری ساری افسردگی ہرن ہوگئی۔ میں پھر سے جی اٹھی تھی۔ بھئی یہ شہر نہیں شہر خاموشاں ہے۔ مجھے تو ذرا بھی یہ جگہ پسند نہیں اب کیا قدرتی مناظر کو لے کر چائیں ؟ عذرا بی بی! یہ تمہارا لڑکپن ہے۔ تم ابھی قدرتی مناظر کی معنی خیزی کو نہیں سمجھتیں۔ دانیال نے میری طرف داری کی تو عذرا برا سا منہ بنا کر رہ گئی تھی۔

رات ہولے ہولے شام کے محل کی سیڑھیاں اتر کر ہمارے صحن میں آ گئی ، تو ہم سب اندر جا کر گپ شپ میں مصروف ہو گئے۔ کتنے خوشیوں بھرے اور سنہرے دن تھے وہ بھی۔ میں نے دکھ سے ٹھنڈی آ کھینچی اور پھر یادوں کی ریل پر سوار ہو گئی۔ أس دن ملیحہ بھی آ پہنچی تھی۔ وہ میرے اصرار پر دو دن کے لئے رہنے آئی تھی کیونکہ دو اپریل کو میری سالگرہ تھی اور ملیحہ کہتی تھی ۔شکر ہے ناز کہ تم ایک دن اور عالم بالا میں ٹھہر گئیں ، ورنہ سارا جہان ہی اپریل فول کے دن تمہاری سالگرہ مناتا۔ اس کے بات سن کر اکثر ہنس دیا کرتی تھی۔ اب دیکھو، کل پہلی اپریل ہے ۔ بتائو کس کو فول بنائیں؟ ہاں، مجھے یاد آیا۔ (آگے پڑھنے کے لیے لنک اوپن کریں)

Loading