Daily Roshni News

تسلیم و رضا کے بندے۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد۔۔۔قسط نمبر2

تسلیم و رضا کے بندے

تحریر۔۔۔اشفاق احمد

قسط نمبر2

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ تسلیم و رضا کے بندے۔۔۔ تحریر۔۔۔اشفاق احمد)کا کا چلنے لگا ہے اور اس نے آٹھ دس قدم اٹھائے ہیں۔“ اس وقت کا کا سوچکا تھاجب میں صبح اٹھا تو میں نے اپنے بیٹے کو جگایا اور ہم میاں بیوی دور بیٹھ گئے۔ ایک طرف سے میری بیوی کاکے کو چھوڑ دیتی۔ وہ گمگاتا ہو امیری طرف چلتا ہوا آتا جب وہ مجھ تک پہنچتا تو میں اس کی ماں کی طرف اس کا منہ کر دیتا تو وہ ڈگ تگ ڈگ مگ کر تاماں تک پہنچتا اور ٹھاہ کر کے اس سے چمٹ جاتا۔ ہم بڑی دیر تک اپنےبیٹے کو دیکھتے رہے۔

وہ کہنے لگا “سر …! اتنا اچھا پھول کھلا ہو اوربچے نے ایسا اچھا چلنا سیکھا ہو اور ایسا خوب صورت دن ہو تو اسے چالیس روپے میں تو نہیں بیچا جاسکتا نا ! سر …. ! آج کا دن میرا ہے۔

سلطان کی یہ بات سن کر میں شر مندہ سا ہو کرواپس آگیا۔

اگر انسان ایسی صلاحیت رکھتا ہو تو پھر وہ خوشیوں کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے۔ اگر اس کی زندگی کی خوشیاں ایسی ہوں جیسی ہماری ہیں تو ٹین کے کنستر میں لگا پھول ہمیں کبھی نظر ہی نہیں آ سکتا ہے۔ دراصل ہمیں خوشیاں بانٹنا آتا ہی نہیں۔ ہم نے یہ فن سیکھا ہی نہیں ہے۔

شیئر کرنا ہمیں کسی سکول، کالج یا یو نیور سٹی نے سکھایا نہیں ہے۔ ہمیں ہمیشہ اپنی چیزیں سنبھال کر رکھنے کی ہی تلقین کی گئی ہے۔بانو قدسیہ کی والدہ لمبے لیے دوروں پر جایا

کرتی تھیں۔ وہ اپنے ساتھ کروشیا“ ضرور رکھتی تھیں۔ وہ سفر میں کروشیے کے ساتھ کھٹا کھٹ بنتی جاتی ہوتی تھیں جب وہ دورے سے لوٹ کر آتی تھیں تو ان کے پاس کچھ نہ کچھ مکمل ہوا ہوتا تھا۔ جب کبھی ولائیت کی خواتین آتی تھیں تو انہیں دیکھ کر بہت حیران ہوتی تھیں۔

ایک دفعہ ہم جہاز میں لاہور سے اسلام آباد جا رہے تھے تو انہوں نے اپنا کروشیا نکال لیا اور کچھ بجنے لگیں۔ ان کے ساتھ ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ وہ انہیں بڑے غور سے دیکھنے لگیں۔ (ان دنوں فوکر کا زمانہ تھا) وہ خاتون کہنے لگیں کہ آپ نے تو بڑے کمال کا ڈیزائن بنایا ہے۔ یہ بہت خوب صورت ہے۔ وہ گلاس کے نیچے رکھنے والی کوئی چیزتھی۔ میری ساس اس خاتون کو کہنے لگیں کہ یہ اب مکمل ہو گیا اور یہ اب تمھارا ہوا۔ اس نے بڑی مہربانی اور شکریے سے وصول کیا۔

جب میری ساس صاحبہ اس طرح کی کوئی دوسری چیز بنانے لگیں تو اس خاتون نے کہا کہ یہ تو میں حیدر کو دے دوں گی اور میں چاہتی ہوں کہ اس جیسا ایک اور میرے پاس بھی ہو۔ میری ساس کہنے لگیں کہ وقت تھوڑا ہے یہ بن نہیں پائے گا۔ آپ مجھے اپنا ایڈریس دے دیں میں پہنچا دوں گی انہوں نے بنانا شروع کر دیا۔

جب ہم پنڈی پہنچے تو اناؤنسمنٹ ہوئی کہ بہت دھند ہے جس کی وجہ سے لینڈنگ ممکن نہیں ہے لہذا اس جہاز کو پشاور لے جایا جارہا ہے۔ اس اعلان سے میری ساس بڑی خوش ہوئی کہ انہیں مزید وقت مل گیا ہے۔ جب پشاور لینڈ کرنے لگے تو پائلٹ کی آواز آئی کہ ہم یہاں لینڈ کرنے آئےتھے لیکن ہمیں واپس اطلاع ملی ہے کہ پنڈی کا موسم ٹھیک ہو گیا ہے۔ جب ہم پنڈی آئے تو وہ چیز تھوڑی سی رہ گئی اور مکمل نہیں ہوئی تھی۔ پائلٹ کی آواز پھر گونجھی کہ ہم لینڈنگ کرنے والے ہیں لیکن ایک دو چکر اور لگائیں گے تاکہ رن وے کا درست اندازہ ہو سکے ۔ جب وہ چیز مکمل بن چکی اور دو چکر بھی مکمل ہو گئے تو جہاز میں موجود ایک فوجی نے تالی بجائی اور میری ساس کو مخاطب کرتے ہوئے بولا کہ بیگم صاحبہ…..! اب لینڈ کرنے کی اجازت ہے….؟

میری ساس نے کہا کہ ہاں۔ہم نے اور آپ نے کبھی شیئر کرنے والا کام نہیں

کیا ہے۔ ہم نے کبھی خوشیوں کو شئیر نہیں کیا۔ حضور نبی اکرم ملی الم کا ارشاد گرامی ہے کہ مسکراہٹ بھی ایک صدقہ جاریہ ہے۔“ لیکن ہم نے اپنی مسکراہٹ پر بھی کنٹرول رکھا ہوا ہے کہ خبردار مسکرانا نہیں۔ جب ہم کالج یونیورسٹی میں جاتے ہیں تو ہمارا منہ ایسے سو جا ہوتا ہے جیسے پتہ نہیں کیا غضب ہو گیا اور ہم کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم مسکراتے پھریں۔ جب تک آپ خوشیاں بانٹیں گے نہیں خوشیاں پا نہیں سکتے۔ شیئر کرنے میں ہماری سوسائٹی میں تھوڑا نہیں بہت زیادہ خوف پایا جاتا ہے۔

ہمارے پیا باجی نور والے ایک دن کہنے لگے کہ اشفاق میاں تمھارے پاس جو لکھنے والا چین ہے وہ

کتنے کا ہے۔ میں نے کہا جناب جو میرے پاس ہے وہ ایک سو نوے روپے کا ہے اور بہت اچھا ہے۔ وہ کہنے لگے جب بھی بین خریدیں ستا خریدیں۔ وہ پوچھنے لگے کہ ستا کتنے کا آتا ہے ؟ میں نے کہا کہ وہ ایک روپے اس پیسے کا آتا ہے۔ فرمانے لگے بس وہی لے لیا کرو۔ میں نے کہا که انتناستا بین خرید نا تو میری بڑی بے عزتی ہے۔ وہ کہنے لگے پت جب بھی آپ ڈاکخانے جائیں اور کوئی آپ سے چین مانگ لے کہ مجھے پتہ لکھنا ہے اور وہ بھول کر اپنی جیب میں لگا کے چلا جائے تو آپ کو کوئی غم نہیں ہو گا اور آپ آرام سے سو جائیں گے لیکن اگر ایک سو نوے روپے والا ہو گا توآپ کو بڑاد کچھ ہو گا۔

خواتین و حضرات ….! اپنے دکھ اور کوتاہیاں دور کرنے کے لیے آسان طریقہ یہ ہے

کہ ہم تسلیم کرنے والوں میں، ماننے والوں میں شامل ہو جائیں۔

تسلیم نہ کرنے والا شخص نہ تو روحانیت میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی سائنس میں داخل ہو سکتا ہے۔

خواتین و حضرات ماننے والا شخص اس زمین سے اٹھے کر افلاک تک پہنچ جاتا ہے۔ جو نہ ماننے والا ہوتا ہے وہ بے چار ہ ہمارے ساتھ یہیں گھومتا پھر بارہ جاتا ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ زمین میں کشش نقل ہے تو پھر ہم آگے چلتے ہیں اور ہمارا اگلا سفر شروع ہوتا ہے جبکہ ناماننے سے مشکل پڑتی ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2025

Loading