Daily Roshni News

قدرت اللہ شہاب، حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سلام اللہ علیہا کے ضمن میں  لکھتے ہیں ..

قدرت اللہ شہاب، حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سلام اللہ علیہا کے ضمن میں  لکھتے ہیں ..

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک بار میں کسی دور دراز علاقے میں گیا ہوا تھا وہاں پر ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک بوسیدہ سی مسجد تھی۔ میں جمعہ کی نماز پڑھنے اس مسجد میں گیا ہوا تھا ،تو ایک نیم خواندہ سے مولوی صاحب اردو میں    بے حد طویل خطبہ دے رہے تھے ۔ان کا خطبہ گزرے ہوئے زمانوں کی عجیب وغریب داستانوں سے اٹا اٹ بھرا ہوا تھا ۔کسی کہانی پر ہنسنے کو جی چاہتا تھا ،کسی پر حیرت ہوتی تھی،لیکن ایک داستا ن کچھ ایسے انداز سے سنائی کہ تھوڑی سے رقت طاری کرکے وہ سیدھی میرے دل میں اتر گئی۔

 

یہ قصہ ایک باپ اور بیٹی کی باہمی محبت واحترام کا تھا۔ باپ حضرت محمد ﷺ تھے اور بیٹی حضرت بی بی فاطمہؓ تھیں۔ مولوی صاحب بتا رہے تھے کہ حضور رسولِ کریم ﷺ جب اپنے صحابہ کرام ؓ کی کوئی درخواست یافرمائش منظور نہ فرماتے تھے تو بڑے بڑے برگزیدہ صحابہ کرام ؓ بی بی فاطمہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی منّت کرتے تھے کہ وہ ان کی درخواست حضور ﷺ کی خدمت میں لے جائیں اور اسے منظور کروالائیں. حضور نبی کریم ﷺ کے دِل  میں بیٹی کا اتنا پیار اور احترام تھا کہ اکثر اوقات جب بی بی فاطمہ ؓ ایسی کوئی درخواست یا فرمائش لے کر حاضر خدمت ہوتی تھیں تو حضور ﷺ خوش دلی سے منظور فرما لیتے تھے ۔

ا س کہانی کو قبول کرنے کے لیے میرا دل بے اختیار آمادہ ہو گیا۔

جمعہ کی نماز کے بعد میں اسی بوسیدہ سی مسجد میں بیٹھ کر نوافل پڑھتا رہا۔کچھ نفل میں نے حضرت بی بی فاطمہ ؓ کی روح مبارک کو ایصالِ ثواب کی نیّت سے پڑھے۔ پھر میں نے پوری یکسوئی سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگی، ”یا اللہ میں نہیں جانتا کہ یہ داستان صحیح ہے یا غلط لیکن میرا دل گواہی دیتاہے کہ تیرے آخری رسول کے دل میں اپنی بیٹی خاتون ِجنت کے لیے اس سے بھی زیادہ محبت اورعزت کاجذبہ موجزن ہو گا۔اس لیے میں اللہ سے درخواست کرتاہوں کہ وہ حضرت بی بی فاطمہ ؓ کی روح کو اجازت مرحمت فرمائیں کہ وہ میری ایک درخواست اپنے والد گرامی ﷺ کے حضور میں پیش کرکے منظور کروالیں. درخواست یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ کا متلاشی ہوں ،سیدھے سادھے مروّجہ راستوں پر چلنے کی سکت نہیں رکھتا اگر سلسلہ اویسیہ واقعی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے تو اللہ کی اجازت سے مجھے اس سلسلہ سے استفادہ کرنے کی ترکیب اور توفیق عطافرمائی جائے۔

اس بات کا میں نے اپنے گھرمیں یا باہر کسی سے ذکر تک نہ کیا ۔

    چھ سات ہفتے گزر گئے اور میں اس واقعہ کو  بھول بھال گیا ،پھر اچانک سات سمندر پار کی میری ایک جرمن بھابھی کا ایک عجیب خط موصول ہوا ۔وہ مشرف بہ اسلام ہو چکی تھیں اور نہایت اعلیٰ درجہ کی پابندِ صوم و صلوٰة خاتون تھیں ۔انہوں نے لکھا تھا:

The other night I had the good fortune to see”Fatima ” ,daughter of the Holy Prophet (peace be upon him)in my dream .She talked to me most graciously and said ,”Tell your brother-in-law Qudrat Ullah Shahab, that I have submitted his request to my exalted Father who has very kindly accepted it”.

    اگلی رات میں نے خوش قسمتی سے فاطمہ ؓ بنتِ رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا انہوں نے میرے ساتھ نہایت تواضع اور شفقت سے باتیں کیں اورفرمایا کہ اپنے دیور قدرت اللہ شہاب کو بتادو کہ میں نےاس کی درخواست اپنے برگزیدہ والد گرامی ﷺ کی خدمت میں پیش کردی تھی ۔انہوں نے ازراہ ِنوازش منظور فرمالیا ہے“۔

         یہ خط پڑھتے ہی میرے ہوش وحواس پر خوشی اورحیرت کی دیوانگی سی طاری ہوگئی ، مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدم زمین پر نہیں پڑرہے بلکہ ہوا میں چل رہے ہیں کہ

ع۔ مجھ سے بہتر ذکر میرا ہے کہ اس محفل میں ہے !

( قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ سے ماخوذ)

Loading