مطمئن زندگی کا راز
ترکی ادب سے انتخاب
ہالینڈ(مطمئن زندگی کا راز۔۔۔ ترکی ادب سے انتخاب)ڈیلی رقدیم زمانے میں ایک گاؤں میں بوڑھے اور عمر رسیدہ میاں بیوی رہتے تھے۔ ان کی زندگی خوشی سے بھر پور اور پر سکون تھی۔ان میں کبھی کسی بات پر نہ تو اختلاف ہوتا اور نہ جھگڑا۔معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے اچھی زندگی گزار نے کار از معلوم کر لیا ہے۔ ہمیشہ ایک دوسرے کی تعریف کرتے اور انہیں کبھی ایک دوسرے سے شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ نہ حرام کھاتے نہ حرام دیتے پاکستان کے مال تھے۔ جو تھوڑا بہت اپنی مت ثروت صولت سے کماتے اسی پر
مطمئن رہتے۔ نہ دولت مند تھے اور نہ مفلس۔ حرص اور لالچ سے دور تھے ،اس لیے بہت خوش و خرم تھے۔ ایک دن صبح ناشتہ کے بعد وہ اکٹھے بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ بوڑھے شوہر نے اٹھتے ہوئے کہا:
اچھا اب میں تیار ہوتا ہوں تاکہ بازار کا ایک چکر لگا آؤں۔“ تم بازار کیوں جارہےہو….؟ بیوی نے پوچھا۔ اپنا گھوڑاپہچنا چاہتا ہوں۔
بہت بوڑھا ہو گیا ہے اور اب میں اس پر کم ہی بیٹھتا ہوں۔“ میاں نے جواب دیا۔
بالکل ٹھیک ہے، تم سے انتخاب) جو بھی سوچتے ہو ٹھیک ہی سوچتے ہو۔“ بیوی نے کہا۔
تم بھی جو کام کرتی ہوا چھاہی کرتی ہو۔“ شوہر نے جواب دیا۔ بیوی اس جواب پر بچوں کی طرح خوش ہو گئی۔ اس نے اپنے شوہر سے پو چھا: آج رات تمہارے لئے مسلم سے ” خانم ! ابھی تو کھانے سے اٹھے ہیں اور تم کو رات
کے کھانے کی فکر پڑ گئی۔ زیادہ کھانے سے آدمی کا دماغ جواب دے جاتا ہے۔“ تمہارا دماغ جواب دے جاتا ہو گا، میرا نہیں۔ میں رات کو چلبر ( خاص قسم کا تر کی کھانا بناؤں گی۔“
بیوی نے کہا۔واو واو، واہوا۔ تم کو میری پسند کا کتنا خیال ہے۔ مزیدار بنانا، لہسن اور دہی خوب ڈالنا۔“ شوہر نے کہا۔ بوڑھے نے بیوی پر محبت بھری نگاہ ڈالی اور سوچنے لگا کہ گھوڑا بیچنے سے جو رقم ملے گی اس سے وہ اپنی بیوی کے لیے ایک اچھا سا کرتا اور شلوار خریدے گا۔
جب بوڑھا جانے لگا تو بیوی نے اس کو کپڑے پہنے میں مدد دی اور اوڑھنے کے لیے چادر لا کر دی اور ہدایت کی کہ وہ بازار میں زیادہ تھکے نہیں۔ کام آسانی سے ہو جائے تو ٹھیک ہے ورنہ واپس آجائے۔ اس کے بعد بوڑھا گھوڑے پر سوار ہو گیا اور بیوی کو الوداع کہہ کر روانہ ہو گیا۔ بیوی دور تک اس کو دیکھتی رہی اور ہاتھ ہلاتی رہی۔ وہ سوچنے لگی کہ اس کو کتنا اچھا شوہر ملا ہے۔ کبھی اس پر چینا چلایا نہیں، کبھی برا بھلا نہیں کہا۔ جب بھی بات کرتا ہے نرمی سے کرتا ہے اور ہمیشہ اس کی خواہش کے مطابق کام کرتا ہے۔ بوڑھا، گھوڑے کو لیے شہر کی جانب جا رہا تھا کہ اس کی نظر ایک آدمی پر پڑی جو ایک موٹی تازی بھیٹر کو کھینچے لیے جارہا تھا۔ بوڑھا سمجھ گیا کہ یقیناوہ شہر جارہا ہے تا کہ وہاں اس بھیڑ کو فروخت کر سکے۔ اس نے سوچا کہ یہ بھیڑ میں کیوں نہ خرید لوں۔ کیسی موٹی تازی ہے۔ ہم دونوں اس کا دودھ بھی پی سکیں گے اور بیوی اون کات کر اس سے کپڑے بھی بنا سکے گی۔ چنانچہ اس نے بھیٹر کو خریدنے کا فیصلہ کر لیا۔ آدمی کو زور سے آواز دی
ارے بھائی ارے بھائی، ذرا ادھر آنا۔“ کیا مجھ کو بلا ر ہے ہو بڑے میاں….؟” آدمی
نے مڑتے ہوئے پو چھا۔
ہاں تم ہی کو بلا رہا ہوں۔ کیا تم بھیٹر کو بیچنے لے جارہے ہو …. ؟ بوڑھے نے پوچھا۔
”ہاں، شہر لے جارہا ہوں۔“
میں بھی گھوڑا بیچنے کے لیے شہر جارہا ہوں۔ کیا تم اس گھوڑے کے بدلے میں اپنی بھیڑ دے سکتے ہو ….؟” بوڑھے نے پوچھا۔
کیا کہہ رہے ہو بڑے میاں۔ بھیڑ کے بدلے میں گھوڑا دے رہے ہو، جس کی تم کو بازار میں زیادہ قیمت ملے گی۔ “ آدمی نے کہا۔
پیسہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ میرے کسی کام نہیں آئے گا بلکہ خرچ ہو جائے گا، لیکن یہ بھیڑ میری بیوی کے کام آسکتی ہے۔ ” بوڑھے نے جواب دیا۔ آدمی کو اس جواب پر بڑا تعجب ہوا۔ سوچنے لگا سودا اچھا ہے، میں گھوڑے کو لے کر زیادہ قیمت پر فروخت کر سکوں گا اس لیے بھیڑ کے بدلے لے لینا چاہیے۔ چنانچہ اس نے بھیڑ، بوڑھے کو دے دی اور گھوڑا لے لیا۔ دونوں اس سودے پر خوش ہوئے اور اپنی اپنی راہ چل دیے۔ بوڑھا تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک آدمی بہت بڑی بلی کو بغل میں دیائے چلا جا رہا ہے۔ بوڑھے نے سوچا کہ بلخ بہت اچھی ہے، ایسی موٹی تازی ہے کہ کم بطخیں ایسی ہوں گی۔ اگر میں بھیڑ کے بدلے یہ بلخ لے لوں تو بیوی اس کو دیکھ کر بہت خوش ہو گی کیونکہ اس کو بلخ کا بھنابوڑھا اب تھک چکا تھا۔ سامنے ایک چائے خانہ پر نظر پڑی، سوچا کہ کچھ دیر اس میں بیٹھ کر آرام کرلے اور ایک پیالی چائے پی لے۔ چنانچہ و چائے خانہ میں داخل ہو کر ایک بینچ پر بیٹھ گیا اور ایک پیالی چائے لانے کے لیے کہا۔ اس وقت ایک پڑھا لکھا سفید پوش آدمی بھی چائے خانہ میں داخل ہوا اور اس کے پاس بیٹھ کر چائے لانے کے لیے کہا۔ اچانک اس کی نظر سیبوں کی ٹوکری پر پڑی جس سے مشک جیسی خوشبو نکل کر چاروں طرف پھیل رہی تھی۔ آدمی نے بوڑھے سے پو چھا:
“کیا تم یہ سیب فروخت کرنے کے لیے بازار لے جارہے ہو…..؟”
جناب عالی! یہ سیب فروخت کے لیے نہیں ہیں۔ میں ان کو اپنے گھر لے جارہا ہوں۔ یہ میں نے اپنی بیوی کے لیے حاصل کیے ہیں۔“ بوڑھے نے جواب دیا۔
وہ دونوں باتیں کر رہے تھے کہ چائے آگئی اور دونوں چائے پینے لگے ۔ آدمی نے بوڑھے سے پوچھا: یہ سیب تم نے کتنے میں لیے ہیں۔ “ بوڑھے نے بتایا کہ وہ اپنا گھوڑا فروخت کرنے کے لیے گھر سے نکلا تھا اور اب اس کے بدلے یہ سیب لے جا رہا ہے۔ آدمی یہ سن کر سنائے میں آگیا۔ کہنے لگا:
یعنی تم نے گھوڑا دے کر یہ سیب لیے ہیں۔“ نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں نے گھوڑا دے کر ایک بھیڑ لی تھی۔ بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جنوری 2015