کائناتی موت کا بلبلہ
تحریر: محمد یاسین خوجہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کائناتی موت کا بلبلہ۔۔۔ تحریر: محمد یاسین خوجہ)کبھی کبھی مجھے یقین ہونے لگتا ہے کہ یہ معموں، عجوبوں، پہیلیوں اور رازوں بھری کائنات اسقدر پراسرار، عجیب اور حیرت انگیز نہیں ہے جتنا کہ انسانی دماغ ہے۔۔
اسکے تخیل کی پرواز کیلئے اس کائنات کی وسعتیں شاید نا کافی ہیں تبھی تو
یہ اپنے اندر کئی کئی کائناتیں تخلیق کر لیتا ہے۔۔۔
کائناتی وقت میں سے ذرا سا حصہ پا کر یہ اس طویل العمر کائنات کے آغاز و انجام اندازے قائم کر لیتا ہے۔۔۔
کبھی یہ کائنات کو چھوٹے سے نقطے سے اسکی پیدائش ( big bang) کی حقیقت بتاتا ہے،
کبھی یہ کائنات کو اسکی حرارتی موت(heat death) کی نوید سناتاہے،
کبھی اسے عظیم بھنچاؤ (big crunch) جیسے ہولناک انجام سے ڈراتا ہے،
اور کبھی اس کے جسم پر خوفناک بلبلہ بننےکے مفروضے بناتا ہے
(تھیوری آف کوسمک ڈیتھ ببل کی بات ہو رہی ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات اپنی وسعت، نزاکت اور پیچیدگی کے ذریعے ہمیشہ سے انسان
کو حیران کرتی آئی ہے۔ ستارے،کہکشائیں اور سیارے،ان دیکھی دنیاؤں کے تصورِ میں الجھاتے ہیں
نیوٹران ستارے، اپنی جاذبیت سے اپنی طرف کھینچتے ہیں، تو پلسار، کوئزار اور سپرنووا جیسے مظاہر ہمیں اپنی رعنائیوں اور توانائیوں سے مرعوب کرتے ہیں،
اور بلیک ہولز اپنی ہولناکی سے ڈراتے ہیں۔۔۔۔
یعنی کائنات بڑی ہی دلچسپ و عجیب ہے
یہاں تک کہ
کائنات کا آغاز بھی دلچسپ ہے اور اسکا انجام بھی بڑا تجسس آمیز ہے
کائنات کے اختتامی نظریات میں سے عجیب، منفرد اور حیرت انگیز نظریہ ایک ایسے خوفناک بلبلے کی تشکیل کا ہے جو آناً فاناً ہر چیز ملیا میٹ کردے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوسمک ڈیتھ ببل نامی نظریہ کی بنیاد 1964 میں پڑ گئی تھی جب ایک برطانوی طبعیات دان پیٹر ہگس نے اپنا ایک عجیب و غریب مشاہدہ پیش کیا کہ
پوری کائنات میں ایک ایسی فیلڈ موجود ہے جس کے سبب کائنات میں موجود تمام ذرات کو اپنے اندر مادہ رکھنے کی صلاحیت مِلتی ہے، اس وقت تو اس کی اس بات کو یکسر رد کر دیا گیا، اس نے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے بڑی تگ ودو کی
یہ خیال اس وقت ایا جب وہ اس بات پر غور کررہا تھا کہ بعض کوانٹم ذرات میں مادے کی مقدار کم ہے اور بعض میں زیادہ
اور بعض ذرات جیسے فوٹون میں تو مادہ بالکل موجود نہیں
پیٹر ہگس کے مطابق
پوری کائنات میں یہ فیلڈ موجود ہے (جسے اب اسی کے نام پر ہگس فیلڈ کہا جاتا ہے) اور یہ کائنات میں موجود کوانٹم ذرات کو ماس دینے کا سبب بنتی ہے
جو بھی کوانٹم ذرہ اس میں سے گزرتا ہے اُسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کسی ذرے کو کم تو کسی کو زیادہ اور جو ذرہ جتنی مزاحمت کا سامنا کرتا ہے وہ اتنا زیادہ مادے کا حامل ہوجاتا ہے جیسے بنیادی ذرات فوٹون، میوان، کوارک گلو آن اور الیکٹرون وغیرہ ہگس فیلڈ سے گزرتے ہیں تو ان میں ٹاپ کوارک کو سب سے زیادہ مزاحمت برداشت کرنی پڑتی ہے اسلئے اس میں ماس کی مقدار بھی باقی ذرات سے زیادہ ہوتی ہے اور فوٹون کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوتا اس لیے وہ ماس لیس یا غیر مادی ہی رہتا ہے
یہ باتیں تو
سائنسدانوں کے لیے بھی بڑی عجیب اور حیران کن تھیں اور ہضم نہیں ہورہی تھیں، مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان باتوں کو اہمیت حیثیت حاصل ہوتی گئی
بعد میں فزکس کے ماہرین اور مشہور نظریہ دان سڈنی کولمین اور فرانسس ڈی لوشیا نے 1980 کی دہائی میں اس نظریہ پر بہُت سے تحقیقی مقالہ جات شائع کیے
اور پھر جدید سائنس نے ثابت کیا کہ ہگس فیلڈ بھی ہگس بوزون نامی ذرے سے منسلک ہے جس کی دریافت 2012 میں سرن کے لارج ہیڈرون کولائیڈز (ایل ایچ سی) نے کر لی اور پیٹر ہگس کا یہ تصور حقیقت بن گیا۔۔۔
جدید سائنس نے خلا کا تصور بھی بدل دیا خلا جسے ہم خالی سمجھتے ہیں حقیقت میں کائنات میں کہیں خالی جگہ کا تصور بھی نہیں
یعنی یہ خلا اصل میں ایک فالس ویکیوم ہے
کیونکہ یہ تو کوانٹم ذرات سے بھرا پڑا ہے اور ہر آن یہ ذرات بنتے مٹتے رہتے ہیں اس عمل کو کوانٹم فلکچوایشن کہتے ہیں
اور ہگس بوزون ہر وقت خلا میں بنتے اور فنا ہوتے رہتے ہیں اور دیگر ذرات کو مادہ رکھنے کی صلاحیت دیتے رہتے ہیں
ہگس بو زون کی اسی خصوصیت کی بدولت اسے خدائی ذرہ یعنی گاڈ پارٹیکل کا نام بھی دیا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس دانوں کا خیال ہےکہ ہگس فیلڈ جو کہ پوری کائنات میں پھیلی ہوئی ہے اپنی مستحکم (اسٹیبل) حالت میں نہیں ہے
ماہرین کے مطابق جسے ہم کائنات کا نازک توازن یا فائن ٹیوننگ کہتے ہیں یہ
حقیقت میں کائنات کی غیر مستحکم حالت ہے۔۔۔
یہ بالکل ایسے ہے جیسے آپ کسی رسی پر چل رہے ہوں جو ظاہر میں مضبوط لگتی ہو،
مگر حقیقت میں اتنی نازک ہو کہ کسی دم ٹوٹ سکتی ہو۔۔۔
کائنات کی اس غیر مستحکم حالت (میٹا اسٹیبل) نے اس نظریے کو جنم دیا ہےجو
کوسمک ڈیتھ ببل (Cosmic Death Bubble) کہلاتاہے
بعض اوقات اسے
اسے ویکیوم ڈیکئے آف دی یونیورس اور کوسمک ببل آف ڈوم بھی کہتے ہیں۔۔۔
یہ نظریہ “فالس ویکیوم ڈیکے” (False Vacuum Decay) کے سائنسی ماڈل سے جڑا ہوا ہے۔
جس طرح کائنات کی ہر چیز مستحکم رہنا چاہتی ہے، اور مستحکم رہنے کے لئے زیادہ انرجی اسٹیٹ سے کم انرجی اسٹیٹ کی طرف سفر کرتی ہے۔۔۔۔
جیسے پانی مستحکم رہنے کے لیے اونچائی سے نیچے آنے کے لئے مزاحمت کرتا ہے،
جیسے الیکٹرون اسٹیبل رہنے کے لیے خود کو کم انرجی اسٹیٹ میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے
اِسی طرح
پارٹیکل فزکس کے ماہرین نے، معلوم ذرات کے موجودہ معیاری ماڈل اور ہگس بوزون کے ماس کی پیمائش کو دیکھتے ہوئے، حساب لگایا ہے کہ ہگس فیلڈ اپنی مستحکم حالت (کم ترین انرجی اسٹیٹ) میں نہیں ہو سکتی۔
کائنات کی غیر مستحکم سٹیٹ کو فالس ویکیوم اور مستحکم حالت کو true vacuum بھی کہا جاتا ہے
کوانٹم میکینکس کے اصولوں۔ کے مطابق کائنات کبھی بھی
اپنے استحکام (لوئسٹ انرجی لیول) کی طرف سفر شروع کر سکتی۔۔۔
(یعنی فالس ویکیوم، کسی وقت بھی true vacuum میں بدلنا شروع ہو سکتا ہے)
اگر ایسا ہوا توایک ایسا خوفناک بلبلہ (ویکیوم ببل)پیدا ہوگا جو روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہوئے اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو ناگزیر طور پر
کسی بلیک ہول میں کولیپس ہونے پر مجبور کر سکتا ہے
یا پھر کائنات کو نئے سرے سے ایسی ترتیب دے دے گا
جس میں فزکس کے قوانین یکسر ہی مختلف ہُوں گے،،،
اور یہ ہمارے لیے بہت بڑی تباہی کی نوید ہے اور یہ بھی ممکن ہے کائنات کے کسی دور دراز کونے میں یہ عمل وقوع پذیر ہو چکا ہو اور یہ تباہی لمحہ لمحہ روشنی کی تیزی سے ہماری طرف بڑھ رہی ہو۔۔۔
ماہر فلکیات کیٹی میک نے اپنی کتاب ” اینڈ آف ایوری تھنگ” میں اس نظریے اور موجودہ تمام اختتامی نظریات کا احاطہ بہت اچھے سے کیا ہے
وہ کہتی ہیں “ویکیوم ڈیکئے” ایک ایسا حیرت ناک اور تیزرفتار طریقہ ہے جس کے ہونے کی خبر کسی کو نہ ہو پائے گی، اسلئے آپ کو اس سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے، اس طریقہ سے آپکو کسی درد ناک صورت حال سے نہیں گزرنا پڑے گا اور سب کچھ ہوجائے گا”
۔۔۔۔۔۔
اگر یہ چاند اور زمین کی دوری جتنے فاصلے پر بھی کہیں بنتا ہے تو
اس سے پہلے کہ ہم کچھ سوچیں سمجھیں، اس سے بچنے کی تدبیر کریں، ہم راہ عدم سدھار چکے ہوں گے
ہاں اگر یہ سورج کے ارد گرد کہیں بنتا ہے اور ہم بروقت خبر پا کر، روشنی سے بھی تیز بھاگ سکیں گے توجب تک بھاگتے رہیں گے اس کے۔قہر سے محفوظ رہیں گے
اور لمحہ بھر ٹھہرنے کی دیر ہے کہ پھر
نہ ہم ہوں گے، نہ ہماری داستان ہوگی اور نہ کوئی داستان سننے والا ہوگا
شاید ہمارے جسم کے ایٹموں کی ہیئت بھی یکسر بدل جائے۔۔۔
قیامت کے نفاذ کی تیز رفتاری بھی اس سے ملتی جلتی ہے
اس بلبلے کی پلینک نقطے پر تشکیل، اور روشنی کی رفتار سے اُسکےپھیلاؤ اور اس کی زد میں آنیوالی ہر چیز کی اچانک تباہی کی پیش گوئیوں پر مشتمل
یہ نظریہ نہیں مذہب کی بتائی گئی قیامت جیسا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نظریہ کے مطابق
یہ ببل آغاز میں ایک پلینک نقطے جتنا چھوٹا ہوگا، یعنی اتنا چھوٹا کہ آپ اسے کسی خوردبین سے بھی نہ دیکھ سکیں۔ لیکن جیسے ہی یہ حرکت میں آئے گا، یہ روشنی کی رفتار سے پھیلتا جائے گا۔
یعنی ہر سیکنڈ میں اس ببل کے قطر میں 300,000 کلومیٹرز کا اضافہ ہوگا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نظریے کے مطالعہ کے بعد میرے ذہن میں یہ خیال آیا ہے کہ۔۔۔۔۔
ہماری کائنات کی تخلیق کا آغاز بھی ایک پلینک نقطے سے ہوا اور یہ نظریہ بھی ایک پلینک نقطے سے ہی اسکی تخریب کی شروعات کی پیش گوئی کرتا ہے
یعنی ایک پلینک نقطے سے تمام مادہ و توانائی اورقوانین اب سے یکسر مختلف صورتوں میں ڈھلتے جائیں گے
کہیں ایسا تو نہیں کہ۔۔۔۔ ہمارا نقطہء آغاز( بگ بینگ) کسی کیلئے پیغامِ فنا (ڈیتھ ببل) ثابت ہوا ہو اور ہمارا ڈیتھ ببل کسی کیلئے بگ بینگ ثابت ہو جہاں
نئے قوانین ہوں، نئی قوتیں ہوں، اور شاید نئے ستارے، سیارے، اور زندگی کی نئی شکلیں بھی ہوں۔
اگر ایسا ہے، تو یہ سلسلہ نہ جانے کب سے جاری ہے اور کب تک جاری رہنا ہے:
یعنی ایک چیز کی انتہا میں دوسری چیز کی ابتدا کا راز مضمر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔,
کوسمک ڈیتھ ببل کا تصور خوفناک بھی ہے اور حیران کن بھی۔ یہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ کائنات کتنی نازک اور غیر مستحکم ہو سکتی ہے، اور اس کے ساتھ ہی یہ ہمیں تخلیق کے ایک لامحدود سلسلے کے بارے میں سوچنے پر بھی مائل کرتا ہے
اور شاید، کوسمک ڈیتھ ببل کے فلسفے میں ہی وہ راز چھپا ہو جو ہمیں اپنی کائنات کی حقیقت اور اس کے پار کے جہانوں کو سمجھنے میں مدد دے۔
آپ کیا سوچتے ہیں؟
کہ ایسا نہیں ہو سکتا؟
اگرآپکو نہیں پتہ تو کیا ایسا نہیں ہوا ہوگا۔۔۔۔۔؟؟
اگر آج اپنے وقت میں آپ اشرف المخلوقات ہیں۔۔۔
تو کیا آنے والے وقتوں میں کوئی اور مخلوق یہ شرف نہیں پا سکتی
یا گزرے زمانوں اور گزرے جہانوں میں کوئی ایسی قابلِ مخلوق پیدا نہ ہو سکی؟
اس 1380 کروڑ سالہ کائنات میں محض پچاس، سو برس کی عمر پانے والے، فقط چند لاکھ سال قبل ظاہر ہونے والے ہم لوگوں نے
ابھی جانا ہی کتنا ہے اور جان بھی کتنا سکتے ہیں؟؟