پاکستان کی مقبول شاعرہ ، نسائی احساسات و جذبات کی ترجمان، شہرۂ آفاق شاعرہ ”پروینؔ_شاکر صاحبہ “ ، نام سیّدہ_پروین_شاکر، تخلص پروینؔ تھا۔
24؍نومبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کے آباء و اجداد، چندن پٹی لہیریاسرائے ضلع دربھنگہ (بہار) ہندوستان کے رہنے والے تھے۔ تقسیم کے بعد ان کے والدین پاکستان ہجرت کر گئے۔ والد سیّد ثاقب حسین بھی شاعر تھے اور شاکرؔ تخلص کرتے تھے۔ اسی نسبت سے وہ شاکر لکھتی تھیں۔ ابتدا میں مینا تخلص کرتی تھیں۔ پندرہ برس کی عمر میں شاعری کی ابتدا ہوئی۔ پہلی نظم روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی۔ 1968ء میں جامعہ کراچی سے انگریزی ادب اور لسانیات میں ایم اے کیا۔1971ء میں پروین نے جنگ میں ذرائع ابلاغ کا کردار کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔ ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے انہوں نے بینک ایڈ منسٹریشن میں ایم اے کیا۔ عبد ﷲ گرلز کالج میں انگریزی کی لکچرر ہوئیں۔ سول سروس کے امتحان میں کامیاب ہوئیں۔ کسٹم اینڈ ایکسائز کے محکمے میں کسٹم کلکٹر ہوئیں۔ ان کی شادی ان کے خالہ زاد بھائی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی، لیکن 1989ء میں علیحدہ گی ہوگئیں۔ بیٹے کا نام سیّد مراد علی رکھا جسے گیتو بھی کہا جاتا تھا۔ پروین، احمد ندیم قاسمی سے بے حد متاثر تھیں اور انہیں عمو جان کہا کرتی تھیں۔ پہلا مجموعہ ”خوشبو“ انہی کے نام منسوب ہے۔
دورانِ تعلیم وہ مباحثوں اور مشاعروں میں حصہ لیتی رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور لسانیات میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں۔ پھر 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔ 1990ء میں ٹرینٹی کالج امریکہ سے تعلیم حاصل کی اور 1991ء میں ہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
شاعری میں آپ کو احمد ندیم قاسمی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی۔ آپ کا بیشتر کلام اُن کے رسالے فنون میں شائع ہوتا رہا۔ پروین شاکر کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔ 1977ء میں ان کا پہلا مجموعۂ کلام “خوشبو” شائع ہوا۔ اس مجموعے کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی اور پروین شاکر کا شمار اردو کے صف اول کے شعرا میں ہونے لگا۔ خوشبو کے بعد پروین شاکر کے کلام کے کئی اور مجموعے “صد برگ”، “خود کلامی” اور “انکار” شائع ہوئے۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کلام کی کلیات “ماہِ تمام” بھی شائع ہو چکی تھی جبکہ ان کا آخری مجموعہ کلام “کفِ آئینہ” ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔
پروین شاکر نے کئی اعزازات حاصل کئے تھے جن میں ان کے مجموعۂ کلام “خوشبو” پر دیا جانے والا آدم جی ادبی انعام، “خود کلامی” پر دیا جانے والا اکادمی ادبیات کا ہجرہ انعام اور حکومت پاکستان کاصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی شامل ہیں۔
26 دسمبر 1994ء کی صبح پروین شاکر اسلام آباد میں اپنے دفتر جا رہی تھیں کہ ان کی کار اسلام آباد کے ظفر چوک پر سامنے سے آتی ہوئی ایک تیز رفتار بس سے ٹکرا گئی۔ اس حادثے کے نتیجے میں پروین شاکر شدید زخمی ہوئیں، انہیں فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ پروین شاکر اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
تحریر ڈاکٹر سلمان امروہوی
◆ ▬▬▬▬▬▬ ✪ ▬▬▬▬▬▬ ◆
مقبول ترین شاعرہ پروینؔ شاکر کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
—
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
—
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا
—
اب تو اس راہ سے وہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
—
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
—
اک نام کیا لکھا ترا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے میری دشمنی رہی
—
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
—
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
—
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر کرتے رہے
—
کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
—
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا
—
عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
—
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
—
بہت سے لوگ تھے مہمان میرے گھر لیکن
وہ جانتا تھا کہ ہے اہتمام کس کے لئے
—
کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سے اس کی دلہن سجاؤں گی
—
اس کے یوں ترک محبت کا سبب ہوگا کوئی
جی نہیں یہ مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا
—
کچھ تو ترے موسم ہی مجھے راس کم آئے
اور کچھ مری مٹی میں بغاوت بھی بہت تھی
—
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں
روز اک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
—
کانپ اٹھتی ہوں میں یہ سوچ کے تنہائی میں
میرے چہرے پہ ترا نام نہ پڑھ لے کوئی
—
ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
—
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
—
میں پھول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا
—
دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف
مانگنے والے کی حاجت نہیں دیکھی جاتی
—
یہی وہ دن تھے جب اک دوسرے کو پایا تھا
ہماری سالگرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے
—
اس نے مجھے دراصل کبھی چاہا ہی نہیں تھا
خود کو دے کر یہ بھی دھوکا، دیکھ لیا ہے
—
کچھ فیصلہ تو ہو کہ کدھر جانا چاہئے
پانی کو اب تو سر سے گزر جانا چاہئے
—
میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی
—
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
—
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
—
اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
—
جستجو کھوئے ہوؤں کی عمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہم راہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
—
قدموں میں بھی تکان تھی گھر بھی قریب تھا
پر کیا کریں کہ اب کے سفر ہی عجیب تھا
—
رخصت کرنے کے آداب نبھانے ہی تھے
بند آنکھوں سے اس کو جاتا دیکھ لیا ہے
—
تھک گیا ہے دلِ وحشی مرا فریاد سے بھی
جی بہلتا نہیں اے دوست تری یاد سے بھی
—
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح
—
رستہ میں مل گیا تو شریک سفر نہ جان
جو چھاؤں مہرباں ہو اسے اپنا گھر نہ جان
—
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
—
شب وہی لیکن ستارہ اور ہے
اب سفر کا استعارہ اور ہے
—
مقتلِ وقت میں خاموش گواہی کی طرح
دل بھی کام آیا ہے گمنام سپاہی کی طرح
—
ہتھیلیوں کی دعا پھول بن کے آئی ہو
کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو
—
جب ہوا تک یہ کہے ، نیند کو رخصت جانو
ایسے موسم میں جو خواب آئیں غنیمت جانو
—
راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سمتوں کی خبر
شِہرِ نا معلوم کی چاہت مگر کرتے رہے
—
اِتنی جسارتیں تو اُسی کو نصیب تھیں
جھونکے ہَوا کے،کیسے گلے سے لپٹ گئے
—
عشق دریا ہے، جو تیرے وہ تہی دست رہے
وہ جو ڈوبے تھے، کسی اور کنارے نکلے
—
رنج سہنے کی مرے دل میں تب و تاب کہاں
اور یہ بھی ہے کہ پہلے سے وہ اعصاب کہاں
—
بہت عزیز سہی اُس کو میری دلداری
مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دُکھا بھی گیا
—
بہت عزیز ہیں آنکھیں مری اُسے ، لیکن
وہ جاتے جاتے انہیں کر گیا ہے پُر نم پھر
—
یہ غنیمت ہے کہ اُن آنکھوں نے پہچانا ہمیں
کوئی تو سمجھا دیارِ غیر میں اپنا ہمیں
—
غیروں کی دشمنی نے نہ مارا،مگر ہمیں
اپنوں کے التفات کا زہر اب لے گیا
—
یہی تو وجہِ شکستِ وفا ہُوئی میری
خلوصِ عشق میں سادہ دلی کی آمیزش
—
برس سکے تو برس جائے اس گھڑی ، ورنہ
بکھیر ڈالے گی بادل کے سارے خواب ، ہوا
—
وہ دلنواز لمحے بھی گئی رُتوں میں آئے۔ جب
میں خواب دیکھتی رہی، وہ مجھ کو دیکھتا رہا
—
دُعا کا ٹوٹا ہُوا حرف، سرد آہ میں ہے
تری جُدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے
منقول