Daily Roshni News

آج کی اچھی بات۔۔۔تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب۔۔۔(قسط نمبر2)

آج کی اچھی بات

تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب

(قسط نمبر2)

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور دسمبر 2022

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ آج کی اچھی بات۔۔۔ تحریر۔۔۔حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی صاحب)  کھڑکی کے باہر پیپل کا درخت ہو ، اونچی شاخ پر کویل کوک رہی ہو اور چھاؤں میں بچے کھیلتے ہوں ۔ جسم ان تک پہنچنے کے لئے قدم در قدم محتاج ہے جب کہ نگاہ ایک نظر میں فاصلہ طے کر لیتی ہے۔ نگاہ کے لئے ایک بالشت اور لاکھوں میل فاصلہ برابر ہے* سماعت، شامہ اور گویائی پر بھی توجہ کیجئے۔ ہم جسمانی فاصلہ طے کئے بغیر دیوار کے اس پار کی آواز سن لیتے ہیں۔ باغ میں داخل ہونے سے پہلے خوش بو بتا دیتی ہے کہ کس پھول کی ہے۔ بچہ ماں کو پکارتا ہے تو ماں کو بچہ بعد میں نظر آتا ہے، آواز پہلے آجاتی ہے۔ دوست یاد آتا ہے (جس سے برسوں پہلے ملاقات ہوئی)، دماغ میں اس کی تصویر بنتی ہے اور تھوڑی دیر میں دروازے پر گھنٹی بجتی ہے۔ روز و شب کے معمولات سے وضاحت ہوتی

ہے کہ ہر حرکت اسپیس کی پابند ہے اور ہر حرکت اسپیس کی نفی کر رہی ہے۔ قانون : آدمی جب چلتا ہے ، کچھ دیکھتا ہے یا کوئی بات سنتا ہے تو اسپیس قدموں سے لپٹتی ہے۔ اگر وہ دیکھ لے کہ میں اسپیس کے لیٹنے کی وجہ سے چل رہا ہوں، سن رہا ہوں، دیکھ رہا ہوں تو اسپیس کے اوجھل اور ظاہر ہونے کے قانون سے واقف ہو سکتا ہے۔

کائنات اور ہمارے درمیان فاصلہ نہیں۔ ہم نے اسپیس کی تقسیم کو تسلیم کر لیا ہے اس لئے دوری نظر آتی ہے۔ کبھی یہ دوری ایک اسپیس کو ہزاروں لمحات میں ظاہر کرتی ہے اور کبھی اسپیس کے ہزاروں ٹکڑے ایک لمحے میں جڑ جاتے ہیں۔ جو چیز کروڑوں میل کے فاصلے کو لمحے سے روشناس کرتی ہے ، وہ ادراک (information) ہے۔

ادراک کیا ہے ؟ ایک نقطہ ہے۔ نقطے کا پھیلنا اور سمٹنا بھی ادراک ہے۔ نقطہ سمٹتا ہے تو رات کی زندگی بنتی ہے اور پھیلتا ہے تو یہ دن کی زندگی کا تذکرہ ہے۔ ادراک کی یہ بتایا جاتا ہے کہ سورج زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل اور چاند زمین سے ڈھائی لاکھ میل فاصلے پر ہے۔ دونوں طرزیں اندر میں موجود ہیں اور ہم اس دائرے سے روز و شب گزرتے ہیں۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے،

” رات کو دن میں پروتا ہوا لے آتا ہے اور دن کو رات میں۔ بے جان

میں سے جاندار کو نکالتا ہے اور جاندار میں سے بے جان کو اور جسے چاہتا

ہے، بے حساب رزق دیتا ہے ۔ “ (ال عمران : ۲۷)

رات کی اسپیس (نیند) میں زمین و آسمان کے فاصلے بے معنی ہو جاتے ہیں جب کہ دن کی اسپیس کا مظاہرہ مادی جسم کی بیداری سے ہوتا ہے۔ جب حرکت جسم کے ذریعے ہوتی ہے تو اسپیس ٹکڑوں میں نظر آتی ہے اور جب نگاہ کا ذکر ہوتا ہے تو اسپیس اوجھل ہو جاتی ہے۔ رات کا دن اور دن کا رات میں داخل ہونا یہ ہے کہ چھوٹی اسپیس بڑی اسپیس میں داخل ہوتی ہے اور بڑی اسپیس چھوٹی اسپیس میں چھپ جاتی ہے۔ یہی حال زندگی اور

موت کا ہے۔ موت سے مراد مٹی کا مٹی میں تبدیل ہونا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ ” آج کی بات غور سے پڑھئے اور سوچئے کہ نگاہ کے ساتھ فزیکل باڈی کا عکس دماغ کی اسکرین پر تصویر کی طرح نظر آتا ہے۔ تصویر کیا ہے اور

اس کا اداریے میں بیان کئے گئے رموز سے کیا تعلق ہے ؟

اداریے میں اسپیس کے بارے میں کچھ حقائق بیان ہوئے ہیں۔ یکسو ہو کر پڑھئے۔ ذہن میں کتاب کے صفحات کھلیں گے۔ پہلے دھند سے گزر ہو گا پھر روشنی الفاظ کو واضح

کرے گی۔ جو ذہن میں آئے، لکھ کر ادارہ ”ماہنامہ قلندر شعور کو بھیج دیجئے۔

اداریے کو قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں سمجھتے،

سن رکھو! اللہ ہر شے پر محیط ہے۔“ (حم السجدۃ : ۵۴)

اللہ حافظ

بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور دسمبر 2022

Loading