آسیہ، فرعون کی بیوی، اُس زمانے کے عظیم ترین محل میں رہتی تھی۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )آسیہ، فرعون کی بیوی، اُس زمانے کے عظیم ترین محل میں رہتی تھی۔ اُس کے پاس بے شمار نوکر اور کنیزیں تھیں، اور اس کی زندگی آسائشوں سے بھری ہوئی تھی۔ اُس کا شوہر، فرعون، ایک ظالم اور جابر حکمران تھا، جس نے خود کو لوگوں کا خدا بنا لیا تھا اور دعویٰ کیا تھا: “میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔”
یہ فرعون، جو کبھی ایک حقیر نطفہ تھا، دولت، فوج اور غلاموں کے غرور میں مبتلا ہو گیا تھا۔ لیکن اُس کے قریب ترین انسان، اُس کی بیوی آسیہ بنت مزاحم، نے اُس کی خدائی کے دعوے کو چیلنج کیا۔ ابتدا میں وہ اپنے ایمان کو چھپاتی رہی، مگر جب اُس نے ایمان کا اعلان کیا، تو فرعون نے اُسے ہر طرح کے عذاب میں مبتلا کر دیا۔
آسیہ ان چار خواتین میں سے ایک تھیں، جو دنیا کی عظیم ترین خواتین میں شمار ہوتی ہیں۔
ایک دن فرعون نے ایک ماں، جو اپنی بیٹی کے بال سنوار رہی تھی، کو اللہ کا نام لینے پر اُبلتے تیل میں اُس کے بچوں سمیت ڈال دیا۔ آسیہ کو جب یہ بات بتائی گئی، تو اُس نے اپنے شوہر سے کہا: “تم پر افسوس ہے! تم اللہ کے مقابلے میں کتنے بے خوف ہو!”
فرعون نے جواب دیا: “کیا تم پر بھی وہی جنون طاری ہو گیا ہے جو اُس ماں پر ہوا تھا؟”
آسیہ نے جواب دیا: “نہیں، مجھے کوئی جنون نہیں ہوا، لیکن میں اللہ رب العالمین پر ایمان لے آئی ہوں۔”
فرعون نے آسیہ کی ماں کو بلایا اور کہا: “تمہاری بیٹی پر بھی وہی جنون طاری ہو گیا ہے جو ماں پر تھا!”
اُس نے قسم کھائی کہ یا تو وہ اپنے ایمان سے پلٹے گی یا موت کو قبول کرے گی۔
آسیہ کی ماں نے اُس سے کہا کہ وہ فرعون کی بات مان لے، مگر آسیہ نے صاف انکار کر دیا۔
یہ تھا اُس کا عزم… اُس نے طاقت اور جبر کے آگے سر نہ جھکایا۔
جب فرعون نے دیکھا کہ آسیہ اپنے ایمان سے پیچھے نہیں ہٹے گی، تو اُس نے اُسے صحرا میں لے جا کر چار کھونٹوں کے درمیان باندھ دیا، بغیر کھانے پینے کے، اور اُسے تین دن تک تپتی دھوپ میں چھوڑ دیا۔
پہلے دن، فرعون آیا اور اُس سے پوچھا: “کیا تم پلٹتی ہو؟”
آسیہ نے جواب دیا: “نہیں، یہ تو میرے ایمان میں مزید اضافہ کر رہا ہے۔”
دوسرے دن بھی اُس نے یہی پوچھا، اور آسیہ کا جواب وہی تھا۔
تیسرے دن اُس نے پھر پوچھا: “کیا تم پلٹتی ہو؟”
آسیہ نے کہا: “میں پلٹنے والی نہیں ہوں۔”
فرعون نے حکم دیا کہ ایک بڑی چٹان کو اُٹھا کر اُس کے اوپر پھینکا جائے۔ اگر وہ اپنے ایمان سے پلٹ آئے تو اُسے زندہ چھوڑا جائے، ورنہ اُسے قتل کر دیا جائے۔
لیکن اُس لمحے، آسیہ نے اللہ کی طرف دیکھ کر دعا کی:
“اے میرے رب! میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے، اور مجھے فرعون اور اُس کے عمل سے نجات دے، اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات دے!”
اللہ نے اُس کی بصیرت کو کھول دیا اور اُس کو جنت میں اُس کا مقام دکھایا، جسے دیکھ کر وہ خوش ہو گئی اور ہنس پڑی۔
فرعون اور اُس کے ساتھی حیران تھے کہ وہ کیوں ہنس رہی ہے، جبکہ اُسے عذاب دیا جا رہا ہے!
اللہ نے اُس کی روح کو جنت میں منتقل کر دیا، اور جب چٹان اُس کے جسم پر گری، تو وہ درد محسوس نہ کر سکی، کیونکہ اُس کی روح پہلے ہی جنت میں جا چکی تھی۔
اللہ آسیہ سے راضی ہو گیا اور اُس کا مقام جنت میں مقرر کیا۔