Daily Roshni News

آپ سب نے مسجد قبا کا نام سنا ھوگا ۔ یہ مسجد مدینہ ہجرت کا پہلا پڑاؤ تھا ۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )آپ سب نے مسجد قبا کا نام سنا ھوگا ۔ یہ مسجد مدینہ ہجرت کا پہلا پڑائو تھا ۔ اور یہاں بھی نخلستان ہی تھا ۔ رسولِ خدا نے اِس جگہ پہنچ کر قیام فرمایا اور کہا جب تک علیؑ نہیں آ جائے گا ، مَیں مدینہ داخل نہیں ہوں گا ۔ علیؑ کے ذمہ رسولِ خدا تین اہم کام لگا کر آئے تھے ۔ اول اُن کے بستر پر سونا ، دوئم اہلِ مکہ کی امانتیں اُن کے سپرد کرنا جن کی ہیں ، سوئم خاندانِ رسالت کی خواتین اور بچوں کو مدینہ لے کر آنا ۔ اگر دیکھیں تو یہ تینوں ایسے کام تھے جو علیؑ کی جوانمردی اور عقل و شعور کا پہلا امتحان تھا ۔ پہلے دونوں کاموں پر بات نہیں کروں گا کیونکہ اُن کے متعلق تاریخ میں دوست پڑھتے رہے ہیں ۔ تیسری ذمہ داری پر بات کرتا ہوں ۔  علی ؑ کی  عمر اُس وقت اکیس سال تھی ۔ علی نے فاطمہ ع سمیت بنی ہاشم کی خواتین ، بچوں اور  بوڑھوں کو بیس ناقوں پر بٹھایا اور پیدل چلے ۔ اُن کے ہاتھ میں پہلے اونٹ کی مہار تھی اور باقی اُس کے پیچھے قطار میں چل رہے تھے ۔ جب علی ؑ مکہ سے چالیس میل دور نکل آئے تو قریش کو خیال آیا کہ محمد رسول اللہ ص تو نکل گیا ، ہم نے اُن کے مال اور عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں کو یرغمال کیوں نہیں بنا لیا؟ تاکہ محمد ؑ مجبور ہو کر وآپس آئیں ۔ لہذا سب نے مل کر سر جوڑے اور چالیس چوٹی کے لفنٹر چُن کر علی کے پیچھے بھیجے کہ علی اور اُس کے ساتھ عورتوں اور بچوں کو وآپس لائو۔  جیسے ہی یہ قریب پہنچے ، گرد اُڑتی ہوئی دکھائی دی تو عورتیں اور بچے گھبرا گئے ، بچوں نے رونا شروع کر دیا ۔ علیؑ نے اُن سب کو حوصلہ دیا اور کہا سب خاموش ہو کر بیٹھ جائو ، میرے ہوتے ہوئے کوئی فرد آپ تک پہنچ نہیں پائے گا ۔ مَیں نے رسولِ خدا سے تمھیں سلامتی کے ساتھ مدینہ پہنچانے کا وعدہ کیا ہے اور وعدہ پورا کروں گا ۔  اِس کے بعد علیؑ نے اونٹ کہ مہار ایک پتھر کے ساتھ باندھی  اور سب اونٹوں کو اکٹھا کر کے ایک دائرے میں بٹھا دیا ۔  اتنے میں چالیس بدمعاش بھی قریب آ گئے ۔ علی ؑنے  اپنے پہلو سے خنجر نکالا  ، دس قدم آگے بڑھے اور زمین پر ایک لکیر کھینچ دی پھر پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو گئے ، جبکہ تلوار اُن کے پہلو میں لٹک رہی تھی ۔ تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھا ، پھر کفار سے مخاطب ہوئے ۔  اے قریش کے بیٹو ، مَیں رسول اللہ کے حکم پر مدینہ جا رہا ہوں اور اُن کی طرف سے مامور ہوں تاکہ اِن عورتوں اور بچوں کو سلامتی کے ساتھ مدینہ پہنچائو ں ۔ مَیں رسول کے حکم میں کوتاہی کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ۔ مَیں نے تمھاری امانتیں تمھارے حوالے کر دی ہیں ۔ یہ ناقے ہمارے اپنے ہیں ، اور اِن پر لدا سامان بھی ہمارا ہے ، ہم نے تم میں سے کسی کا قرض بھی نہیں دینا ۔ اِس کے بعد بھی اگر تم چاہتے ہو کہ میرے کام میں مداخلت کرو تو جسے اپنے ماں کے دودھ پر فخر ہے اور اُس کی ماں نے اُس کی لاش پر نہ رونے کی قسم کھائی ہے وہ اِس لکیر کو عبور کرے ، خدا کی قسم پھر وہ اُسے واپس عبور نہیں کر پائے گا ۔ اب مَیں یہاں کھڑا اُس وقت تک تمھارا انتظار کروں گا جب تک تم عبور نہیں کر لیتے یا جہاں کھڑے ہو وہیں سے  اپنے گھروں کو لوٹ نہیں جاتے  ۔ علیؑ کے الفاظ میں اتنی جلالت اور رعب تھا کہ وہ بدمعاش ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ، پھر ہر شخص دوسرے سے کہنے لگا تم آ گے بڑھو کیونکہ تم ہمارے سردار ہو مگر اب وہاں کوئی سرداری قبول کرنے کو تیار نہیں تھا اور علیؑ لکیر کی دوسری طرف کھڑا اُنھیں خموش دیکھ رہا تھا ۔یہاں تک کہ بہت دیر وہیں جمے رہے ، پھر عقبہ  بولا اے علیؑ تم ایک معزز اور ذی وقار مرد ہو ، ہم تو تم سے گزارش کرنے آئے تھے کہ تم مدینہ نہ جائو اور اپنی عورتوں اور بچوں کے ساتھ یہیں رہو ۔ ہماری دشمنی تو صرف محمد بن عبداللہ کے ساتھ ہے ۔اگر تم واپس نہیں جانا چاہتےتو ہم یہیں سے لوٹ جاتے ہیں ۔ اب علی نے کہا ، ٹھیک ہے تم شکر کے ساتھ اپنے سروں کو سلامت لے کر لوٹ جائو ۔ کیونکہ محمد رسول اللہ کی دشمنی میری دشمنی سے الگ نہیں ہے ۔  اِس کے بعد علی ؑ نے اُن سے کوئی کلام نہیں کیا اور کھڑے رہے ،یہاں تک کہ وہ غنڈے وہیں سے اپنے گھوڑوں کی باگیں پھیر کر مُڑے اور شکست خوردہ ہو کر مکہ آ گئے، کسی کی جرات نہ ہوئی کہ علیؑ کا راستہ روکے  ۔ اور علی دوبارہ اونٹ کی مہار پتھر سے کھول کر مدینہ کی طرف چل پڑے ۔ یہاں تک کہ قبا پہنچ گئے ۔ رسولِ خدا علیؑ کو دیکھ کر اتنے خوش ہوئے کہ اُن کے آنسو نکل آئے ۔ علی کے پائوں سے خون جاری تھی ۔ رسولِ خداخود اپنے ہاتھوں سے علیؑ کے سوجے ہوئے اور زخمی پائوں پر مرہم لگاتے جاتے تھے اور کہتے  جاتے تھے ، علی تُو نے تو اپنے آپ کو میری محبت میں ہلکان کر لیا ، خدا تم سے اتنا راضی ہے کہ اپنی مشیت تمھیں بیچ دی ہے ۔

 رسولِ خدا  علیؑ کے آنے کے بعد تین دن مزید وہیں رُکے رہے اور جب اُن کے پاوں ٹھیک ھوئے تو مدینہ کی جانب چل پڑے۔

Loading