Daily Roshni News

آپ نے آسمان پر ہوائی جہاز کو اڑتے دیکھا ہوگا، جو اپنے پیچھے ایک سفید لکیر چھوڑ دیتا ہے۔۔۔تحریر۔۔۔وارث علی

آپ نے آسمان پر ہوائی جہاز کو اڑتے دیکھا ہوگا، جو اپنے پیچھے ایک سفید لکیر چھوڑ دیتا ہے۔

تحریر۔۔۔وارث علی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تحریر۔۔۔وارث علی)آپ نے آسمان پر ہوائی جہاز کو اڑتے دیکھا ہوگا، جو اپنے پیچھے ایک سفید لکیر چھوڑ دیتا ہے۔ ان لکیروں کو “کونٹریلز” (contrails) کہا جاتا ہے۔ دراصل جب کسی انجن میں کسی قسم کا ایندھن جلتا ہے تو دو چیزیں فاسد مادوں کی صورت میں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک کاربن ڈائی آکسائڈ اور دوسرے پانی کے بخارات۔

جہاز کے انجن میں بھی یہ پانی کے بخارات اور کاربن ڈائی آکسائڈ پیدا ہوتی ہیں جو جہاز اپنے انجن سے باہر خارج کردیتا ہے۔ جہاز جس بلندی پر اڑتا ہے وہاں فضا کافی ٹھنڈی ہوتی ہے، اس ٹھنڈ کی وجہ سے یہ پانی کے بخارات ایک طرح سے جم جاتے ہیں (condense) اور ان کے جمنے سے وہ سفید لکیریں جہاز کے پیچھے نظر آتی ہیں۔

یہ لکیریں شاید دیکھنے میں اچھی لگیں لیکن ان کی وجہ سے گلوبل وارمنگ بڑھتی ہے۔ گلوبل وارمنگ کیا ہوتی ہے ؟ اصل میں سورج سے ہماری زمین کی طرف لہروں کی صورت میں گرمی آتی ہے، جو زمین کو گرم کرتی ہیں، لیکن ان لہروں کا ایک حصہ زمین سے ٹکرا کر واپس خلا میں بھی پھیل جاتا ہے۔ مگر کچھ گیسوں اور فضائی آلودگی کی وجہ سے زمین کی اوپری فضا میں آلودہ گیسوں کی ایک تہہ بن جاتی ہے جو زمین سے ٹکرا کر جانے والی لہروں کو واپس نہیں جانے دیتی اور اس طرح یہ لہریں زمین پر قید ہوجاتی ہیں اور زمین کا درجہ حرارت بڑھتا ہے۔ اس عمل کو گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے اس درجہ حرارت کے بڑھنے سے مختلف مسائل آتے ہیں جیسے گلیشیرز کا پگھلنا، سیلاب اور موسمی آفات وغیرہ۔

ان لکیروں میں موجود جمے والے پانی کے بخارات بھی گلوبل وارمنگ کی وجہ بننے والی اس تہہ کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس طرح یہ بھی گلوبل وارمنگ کی ایک وجہ ہیں۔ بلکہ گلوبل وارمنگ کے حوالے سے یہ کاربن ڈائی آکسائڈ سے تقریباً چار گنا زیادہ خطرناک ہیں۔ اس وقت یہ ایویشن کی آلودگی کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔

جہازوں سے کاربن ڈائی آکسائڈ کا خروج کم کرنے کے لیے تو مختلف طریقے اپنائے گئے۔ مگر ان بخارات کے “کونٹریلز” کے لیے کوئی کامیاب عملی طریقہ سامنے نہیں آیا۔

مگر پھر پاکستان کی خاتون “ایروناٹیکل انجینئر” ڈاکٹر سارہ قریشی” نے ایسا انجن بنایا جو نہ صرف ان پانی کے بخارات کو باہر جاکر کونٹریلز بنانے سے روکے گا اور اسے اندر میں ہی محفوظ رکھے گا بلکہ ان محفوظ شدہ پانی کے بخارات کو بارش برسانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکے گا۔ یعنی ایک تیر سے دو شکار۔

 مجھے ڈاکٹر سارہ قریشی کے کارنامے کے بارے میں ایک مہینہ پہلے پتہ لگا (ایک امتحان میں انکے حوالے سے سوال دیکھ کر)۔ سارہ قریشی کی اس کامیابی کا کریڈٹ ان کے والد کو بھی جاتا ہے، جو خود ایک فزسٹ ہیں اور دونوں باپ بیٹی (تصویر میں) نے مل کر ایک کمپنی بھی بنا لی ہے جس سے وہ اپنی ایجاد کو دنیا میں پہنچا رہے ہیں۔

ڈاکٹر سارہ کو 22 سے زیادہ ایوارڈز مل چکے ہیں۔ مگر شاید ان کی کامیابی اتنی مشہور نہ ہو۔ جبکہ آج 23 مارچ کو ایک ادکارہ کو “تمغہ امتیاز”ملا ہے۔ اس کے لاکھوں فالورز ہیں۔ مجھے اس اداکارہ سے بھی مسلہ نہیں۔ لیکن میرے خیال میں ڈاکٹر سارہ قریشی جیسی خواتین ہمارے ملک کی خواتین کی قابلیت کی زیادہ اچھی عکاسی کرتی ہیں۔۔۔

#وارث_علی

Loading