کسی گاؤں کے سردار کا انتقال ہو گیا۔گاؤں والوں کے درمیان بحث شروع ہو گئی کہ نیا سردار کس کو بنایا جائے۔گاؤں والے کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکے۔آخر یہ طے پایا کہ جو شخص سب سے پہلے گاؤں میں داخل ہو گا،اس کو سردار بنا لیا جائے گا۔یہ سن کر ایک تجربے کار دانا بزرگ نے کہا:”یہ مناسب نہیں ہے۔ہونا یہ چاہیے کہ پہلے اپنے قریبی لوگوں میں،پھر علاقے میں اور پھر شہر سے باصلاحیت اور مخلص انسان کو منتخب کرو۔
لیکن گاؤں والوں نے اس دانا شخص کی بات نہ مانی اور گاؤں میں سب سے پہلے داخل ہونے والے شخص کے استقبال کی تیاری شروع کرنے لگے۔گاؤں والوں نے اپنی روایت کے مطابق کھجور کی شاخیں اُٹھا کر اور راہوں میں دریاں بچھا کر آنے والے کا انتظار کرنے لگے۔
کچھ دیر بعد گدھے پر سوار نیلی چادر اوڑھے ایک شخص گاؤں میں داخل ہوا۔جس کو دیکھ کر گاؤں والوں نے خوشی کا اظہار کیا اور اس سے کہا:”آج سے آپ ہمارے گاؤں کے سربراہ ہیں۔“
ان کی بات سن کر گدھے پر سوار شخص نے کہا:”میں کیسے تمہاری بات مان لوں کہ میں تمہارا سردار ہوں اور تم میرا ہر حکم مانو گے۔“
گاؤں والوں نے کہا:”آپ جو بھی حکم دیں گے،ہم اس پر عمل کریں گے۔“
گدھے پر سوار شخص نے کہا:”میں تم کو آزمانے کے لئے حکم دیتا ہوں کہ تم لوگوں کے پاس جو بھی سونا چاندی،مال وزر ہے،میرے حضور پیش کرو۔یہ حکم سن کر تمام گاؤں والے اپنے گھروں سے سارا مال سمیٹ کر لے آئے۔جس کو دیکھ کر اس شخص نے کہا:”میں بہت تھکا ہوا ہوں۔آرام کرنا چاہتا ہوں۔تم سب لوگ جشن مناؤ۔“
گاؤں والوں نے اس شخص کو اس کی آرام گاہ پر چھوڑ دیا۔سب لوگ جشن میں لگ گئے اور تھک کر سو گئے۔دوسرے دن جب نئے سربراہ کو لینے گئے تو وہ وہاں نہیں تھا۔وہ سارا مال اور سب دولت سمیٹ کر فرار ہو چکا تھا۔
یہ دیکھ کر گاؤں والوں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا۔جب دانا شخص نے گاؤں والوں کی یہ حالت دیکھی تو کہا:”اب کیا رونا پیٹنا جب چڑیا چگ گئی کھیت۔“
تمام گاؤں والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس دانا شخص کو باہمی مشاورت سے گاؤں کا نیا سربراہ بنا لیا گیا۔