Daily Roshni News

اسلامی بینکاری ترقی یافتہ ممالک میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔

اسلامی بینکاری

ترقی یافتہ ممالک میں تیزی سے مقبول ہو رہی ہے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل2021

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )اسلامی تعلیمات صنعت و تجارت ، معیشت اور سائنس و ٹیکنالوجی سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کرتی ہیں، آج مغربی دنیا نہ صرف ان اصولوں کی افادیت کا اعتراف کرتی ہے بلکہ انہیں بڑی تیزی سے اپنا بھی رہی ہے جس کی ایک چھوٹی سی مثال اسلامی بینکاری نظام ہے، یہ بینکاری صرف اسلامی دنیا ہی نہیں بلکہ آج یورپ میں بھی یہ انتہائی تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ یورپ میں یورپی اسلامی سرمایہ کار بینک اور برطانوی اسلامی بینک جیسے کئی بڑے اسلامی مالیاتی ادارے سامنے آرہے ہیں۔ تھائی لینڈ اور سنگاپور بھی انہی خطوط پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ایشیاء میں ہانگ کانگ اور سنگاپور پُرکشش اسلامی فنانس مارکیٹ کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ اس وقت برطانیہ کی کئی یونیورسٹیوں میں اسلامی بینکنگ سے متعلق ماسٹرز ڈگری پروگرام شروع کیے گئے ہیں۔

آج اسلامی فنانس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس نے دنیا پر ثابت کیا ہے کہ اسلام ایک پر سکون اور مساوات پر مبنی دین ہے ، یہی وجہ ہے که آج اسلامی بینکنگ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اب غیر مسلم بھی اس نظام میں و چپی لے رہے ہیں۔

معاشیات ہمیشہ سے ہی نظام زندگی کا ایک اہم ترین شعبہ رہا ہے اور آج کے دور میں بینکاری معاشی نظام کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام نہ تو اسراف و تبذیر کو پسند کرتا ہے اور نہ ہی دولت کے ارتکاز کو …. اگر دولت کو بڑھانا مقصود ہو تو اسے اشیا و خدمات کی پیدائش کے عمل میں لگانا ہو گا اور پھر اس کے نفع نقصان دونوں میں حصہ دار بننا ہو گا۔

نٹرسٹ کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ معاش کا ایک اہم پہلو انٹرنیٹ ہے۔ اس کا دوسرا اہم عنصر بے محابہ تخلیق زر اور Credit Creation کا ہے جو وسائل کی غیر عادلانہ تقسیم اور ارتکاز دولت کا ایک بڑا سبب ہے۔

اسلامی مالکاری کے ماہرین مختلف پیداواری مراحل کو ممکن بنانے کے لئے معقول حد تک تخلیق زر کی اجازت دیتے ہیں۔ اس طرح دولت یعنی روپے پیسے سے نفع حاصل کرنے کی درج ذیل صورتیں سامنے آتی ہیں۔

اولااس سے خود کوئی کاروبار کرنا جس سے کوئی شخص Value Addition یعنی اضافه قدر کے عمل کی بناء پر منافع کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ یہ اضافه قدر تجارت، صنعت، کرایہ داری وغیرہ کے طریقوں سے ممکن ہوتا ہے۔

ثانیاً شراکت کی بنیاد پر کاروبار جس میں شراکت دار اپنی اپنی Value Addition کے تناسب سے نفع میں حصہ دار ہوتے ہیں۔ یہ پیداواری عمل نفع یا نقصان دونوں پر منتج ہو سکتا ہے۔ سود پر مبنی بینکاری کا نظام نا انصافی پر مبنی ہے لیکن اس میں خاص طور سے استحصال ان کھاتے داروں کا ہوتا ہے جو بینکوں میں اپنی رقوم جمع کرتے ہیں۔ صرف اور صرف نفع و نقصان کی بنیاد پر سرمائے کی فراہمی (بینکوں کے قرضوں کا متبادل) اور اسی بنیاد پر ڈپازٹس کا حصول ہی سود پر مبنی نظام بینکاری کا اصل اور حقیقی متبادل ہے۔ دنیا بھر میں قائم 200 سے زائد اسلامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر ڈپازٹس کے حصول اور سرمائے کی فراہمی کے لئے قابل عمل اور پر کشش اسکیمیں وضع کریں۔

پاکستان میں عام مسلمانوں اور تاجروں کی خاطر خواہ تعداد کی یہ خواہش رہی کہ وہ سودی تجارت اور بینکاری سے نجات حاصل کر کےاسلامی اصولوں پر تجارت کریں۔ پاکستان میں اسلامی بینکاری کا مارکیٹ شیئر روز بروز بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ دنیا کے 51 اسلامی ممالک میں 500 سے زائد اسلامی بینک اور مالیاتی ادارے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جس سے کروڑوں لوگ مستفید ہو رہے ہیں، ان اداروں سے استفادہ کرنیوالوں میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی شامل ہیں جو آج غیر سودی بینکاری کو زیادہ محفوظ تصور کرتے ہیں، آئندہ ایک عشرے میں توقع کی جارہی ہے کہ اسلامی بینکاری کا حصہ بڑھ کر آٹھ سے دس فیصد ہو جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا بینکوں کا موجودہ نظام تبدیل کر کے اسلامی بینکاری کا نفاذ ممکن ہے ….؟ جی ہاں ممکن ہے۔ اس وقت پاکستان میں کئی بینک عملی طور پر اسلامک بینکنگ کر رہے ہیں۔ اسلامی ممالک میں سعودی عرب، بحرین، دبئی، ملائیشیا، کویت اور غیر اسلامی ممالک میں امریکہ ، کینیڈا، انگلینڈ، لیگیمبرگ، سوئٹزر لینڈ، آسٹریلیا اور دیگر بہت سارے ممالک میں تقریباً دو سو سے زیادہ مالیاتی ادارے Islamic Financial System کو اپنا رہے ہیں

آئندہ چند برسوں میں اسلامی بینکاری کی کامیابی کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام اور تاجروں کی دلچسپی اسلامک بینکاری میں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ پاکستان میں اسلامی بینکاری میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ اور ماسٹرز کی تعلیم فراہم کرنے کیلئے دائرہ کار کو وسعت دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اس وقت اسلامی بینکوں کو تربیت یافته اسلامی بینکاروں کی شدید ضرورت ہے اور انہیں معیاری تعلیم و تربیت کے حامل افراددرکار ہیں، حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہیے۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل2021

Loading