اشفاق احمد کی لازوال تحریریں۔۔۔(قسط نمبر 2)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اشفاق احمد کی لازوال تحریریں۔۔۔(قسط نمبر 2)
شاداب ہے۔ پھول اپنی خوشبو سے ماحول کو حسب معمول معطر کر رہے ہیں۔
وہ جنھیں حقیر و ذلیل سمجھتا تھا وہ تو بلند و برتر ہیں۔ حقیر وذلیل تو وہ خود ہے…!!
لمحہ فكریہ
وہ نو مسلم رشتہ ازدواج میں بندھ چکا تھا۔ میں جب مبارک باد دینے اس کے گھر پہنچا تو دیکھا اس کی بیوی جسے دین فطرت وراثت میں ملا تھا اپنے نو مسلم شوہر سے قرآن پڑھنا سیکھ رہی تھی۔ !!
جب وقت پڑا
الیکشن سے پہلے
کیا تم نے مزدوروں کی مدد کے لئے سارا انتظام کر لیا ہے؟
“ جی سر“
جاؤا نہیں ہمارے اسٹیج کے سامنے بٹھاؤ اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھنا ۔ وہ ہمارا
ووٹ بینک ہے۔
الیکشن کے بعد
کیا پروگرام کی ساری تیاریاں ہو چکی ہیں ؟“
جی سر
”میرے پرو گرام میں کم از کم آٹھ دس ہزار سامعین ہونے چاہئے. “
ہم پوری کوشش کر رہے ہیں سر ۔ “
لیکن خیال رہے اسٹیج کے سامنے سبھی سوٹ بوٹ والے لوگوں کو بٹھانا اور مزدور پیشہ لوگوں کو نعرے لگانے اور تالیاں بجانے کے لئے پیچھے کھڑے کر دینا !!
پہلو کا دکھ
جنازہ کے پیچھے پیچھے جانے والے لوگوں کو حیرت تھی کہ شریک حیات کا انتقال ہو جانے پر بھی اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں نکلے بھیٹر میں کسی نے سر گوشی کی کہ ہو سکتا ہے اس سانحہ پر اُسے کوئی غم ہی نہ ہوا ہو لیکن شاید لوگوں کو اس کا علم نہ تھا کہ اُسے غم کھانے اور آنسو پینے کا ہنر بھی آتا ہے۔ دوسرے دن وہ تنہائی کی چادر اوڑھے خاموش رہنے لگا۔
روزانہ صبح اٹھ کر قبرستان جانا، اس کا معمول بن گیا اور پھر چار ماہ بعد یہ خبر بھی حیرت و استعجاب میں ڈوبے لوگوں کو سنادی گئی کہ شریک حیات کی موت پر آنسو نہ بہانے والا حرکت قلب بند ہو جانے پر اس دار فانی سے کوچ کر گیا ہے۔
فارملٹی
میں نے سنا ہے۔ آج خالی اسامیوں کے لئے آپ نے امیدواروں کا انٹرویو لیا ہے۔
جی ہاں۔“ تو کیا امید واروں کا سلیکشن ہو گیا۔ ؟“ جی نہیں۔ یہ تو فارملٹی ہے قانون کے دائرے میں رہنے کے لئے امیدواروں کا انٹر ویو لینا ہی پڑتا ہے۔ اصل انٹر ویو تو والدین کا ہوتا ہے۔ اور وہ ابھی ہونا باقی ہے !! گیا۔؟“
وقت کی کروٹ
معصوم بچہ جب روکھی سوکھی روٹی کھا کر اچھل کود کرتا تو ماں کہتی بیٹاز یادہ اچھل کود نہ کر ور نہ مجھے بھوک لگ جائے گی۔ میں روٹی کہاں سے لاؤں گی۔ لیکن آج بچہ کا چہرہ خوشی سے کھلا ہو ا تھا وہ پیٹ بھر کھانا کھا کر خوب دھوم دھڑ کا اور شرارتیں کر رہا تھا۔ ماں بھی اسے ڈانٹنے کی بجائے اس کی شرارتوں پر ہنس رہی تھی۔
بچہ اپنی ماں کو خوش دیکھ کر کہنے لگا۔ ”ماں تو ریچ کر کہتی تھی کہ سبھی دن ایک جیسے نہیں رہتے۔ ماں جب سے زلزلہ آیا ہے ہمارے مصیبت کے دن گئے اب تو ہر ٹینٹ میں کھانا ملتا ہے اور میں دن بھر کھاتا رہتا ہوں ! !
موت
وہ اب جینا نہیں چاہتا تھا۔ زندگی کے مسائل حل کرتے کرتے وہ پریشان ہو چکا تھا لہذا اپنی پریشان کن زندگی سے چھٹکارہ پانے کے لئے اس نے خود کشی کر لی۔
جیسے ہی اس نے اپنے آپ کو کنویں کے حوالے کیا لوگ دوڑ پڑے اور اسے زندہ سلامت نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن وہ زندہ رہ جانے پر پچھتا رہا تھا۔ اسے ان لوگوں پر غصہ آرہا تھا جنھوں نے اسے بچا یا تھا۔ لیکن لوگوں نے اسے زندگی سے پیار کرنا سکھایا زندگی سے مقابلہ کرنے اور سلیقہ سے جینے کا حوصلہ دیا۔ ۔
دوسرے دن سے وہ نئے حوصلے اور نئے عزم کے ساتھ زندگی گزارنے لگا اسے زندگی سے پیار ہو گیا تھا اب وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن چوتھے دن اسے ٹھوکر لگی وہ نیچے گرا اور اس کی روح پرواز کر گئی …. !!
مرده پرست صبح سے ہی گھر کے سامنے شامیانہ لگادیا گیا تھا۔ گھر میں بہت چہل پہل تھی۔ آج شام اسی بیٹے نے اپنے مرحوم باپ کے ایصال ثواب کے لئے سینکڑوں لوگوں کو کھانے کی دعوت پر بلایا تھا جس نے مرحوم باپ کو اپنی حیات میں ایک ایک وقت کے کھانے کے لئے ترسایا تھا ….!!
انا کی موت
راہ پر رکھے چراغ نے کہا میں بھٹکے ہوئے مسافروں کو راستہ دکھاتا ہوں۔ میں سب سے بڑا ہوں۔“ مجلس میں رکھے چراغ نے کہا۔ لوگ میری روشنی کے ارد گرد بیٹھ کر اچھی اور نیک باتیں کرتے ہیں لوگ ایک دوسرے کو نیک راستے پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں میں نہ رہوں تو یہ نیک کام انجام نہ پائے لہذا میں بڑا ہوں۔“ مندر میں رکھے چراغ نے کہا۔ ”میں تو مندر میں رہتا ہوں اور بھگوان کو روشنی میں میں نے ہی رکھا ہے۔ اس لئے میں تم سب سے بڑا ہوں۔“ اتنے میں ایک ہلکا سا ہوا کا جھونکا آیا اور تینوں چراغوں کو بجھا کر چلا گیا ….!!
نا خلف بیٹے
وہ بے حد غریب سات چھوٹے چھوٹے بچوں کا باپ تھا ہمیشہ دو وقت کی پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے تگ و دو کرتارہتا تھا لیکن اُسے ذہنی سکون تھا۔
وقت نے کروٹ بدلی۔ اس کی غربت کے دن ختم ہوئے بچے اس کے قد کے برابر ہو گئے لیکن اب وہ ذہنی طور سے پریشان ہے کیونکہ اس کی زندگی کا سکون اس کے نا خلف اور آوارہ بیٹوں نے چھین لیا ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2019