الرجی
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔الرجی۔۔۔تحریر۔۔۔حمیرا علیم )بہار کا موسم شروع ہوتے ہی درختوں پر پتے اور خوشے پھوٹنے لگتے ہیں۔ ہر طرف ہریالی ہو جاتی ہے۔ پھول کھلنے لگتے ہیں۔لوگوں کے موڈ پہ بھی خوشگوار اثرہوتا ہے۔لیکن کچھ لوگوں کیلئے بہار کا موسم کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ ایسے کون سے بدذوق لوگ ہیں جو بہار کو عذاب سمجھتے ہیں۔تو جناب ہر وہ شخص جو کہ الرجی کا مریض ہے وہ اس موسم میں جن کیفیات کا شکار ہوتا ہے وہ کسی عذاب سے کم نہیں ہوتیں۔ویسے تو الرجی کا سیزن ستمبر سے مارچ تک رہتا ہے مگر کچھ لوگ سارا سال ہی الرجک رہتے ہیں۔خصوصا وہ جنہیں پولن، ڈسٹ اور سیزنل الرجی ہوتی ہے۔
الرجی کیا ہے اور کیوں ہوتی ہے اور اس کی علامات کیا ہیں اس سے بچاؤ کیلئے کیا تدابیر کی جانی چاہیے ہیں؟ جب جسم کے مدافعتی نظام کو کسی نقصان دہ چیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ الرجی کا شکار ہو جاتا ہے۔وہ اشیاء جو الرجی کیوجہ بنتی ہیں “الرجن” کہلاتی ہیں۔الرجی کی بہت سی اقسام ہیں۔کچھ موسمی ہوتی ہیں تو کچھ سارا سال رہتی ہیں۔اور بعض تو ایسی بھی ہیں جو پوری عمر پہ محیط ہو جاتی ہیں۔ان میں زیادہ عام مندرجہ ذیل ہیں۔
1: ادویات سے الرجی
عموما لوگ اس کا کم ہی شکار ہوتے ہیں کیونکہ زیادہ تر ادویات کا ری ایکشن نہیں ہوتا بلکہ سائیڈ ایفیکٹس ہوتے ہیں۔اسی لئے بعض مصنوعات پہ وارننگ لکھی ہوتی ہے کہ استعمال سے پہلے اسے بازو پہ ٹیسٹ کر لیں۔اس کی علامات سے اس کا پتہ چلایا جاتا ہے۔
2: خوراک سے الرجی
دنیا بھر میں مختلف لوگوں کو مختلف اشیائے خوردونوش سے الرجی ہوتی ہے۔لیکن مونگ پھلی اور اس سے بنی اشیاء سے الرجی ایک عام قسم ہے۔اس کی دو اقسام ہیں ایل جی ای میڈیایٹڈ اور نان ایل جی ای میڈیایٹڈ۔جب کوئی شخص ایسی خوراک کھاتا ہے تو اس کا منہ یا پورا جسم پھول جاتاہے۔منہ میں چھالے بن جاتے ہیں بعض اوقات سانس بھی رک جاتی ہے۔ہر شخص میں اس کی علامات مختلف ہوتی ہیں۔
3: حشرات اور کیڑے مکوڑوں سے الرجی
شہد کی مکھی، مکڑے، ہورنٹ، ییلو جیکٹ( بھڑوں کی اقسام) فائر اینٹ اور کوئی بھی ایسا کیڑا جو ڈنگ رکھتا ہے اس کا سبب بن سکتا ہے۔بنا ڈنگ کے کیڑے بھی اس کی وجہ بن سکتے ہیں جیسے کہ لال بیگ , بستر اور مٹی کے کھٹمل۔ان کے کاٹنے سے جسم پہ سرخ رنگ کے دھبے، خارش اور دمہ ہو سکتا ہے۔جو کہ سارا سال رہتا ہے۔
4: لیٹکس الرجی
قدرتی ربڑ لیٹیکس سے بنی اشیاء: دستانے، غبارے وغیرہ سے یہ الرجی ہو سکتی ہے۔
5: مولڈ الرجی
پھپھوندی فنگس ہیں۔اور چونکہ فنگس گھر کے اندر اور باہر بند اور کھلی ہر جگہ پہ ہوسکتا ہے اس لیے یہ الرجی سارا سال ہی رہتی ہے۔
6: پالتو جانوروں سے الرجی
پالتو جانوروں کے بالوں یا کھال سے ہونے والی الرجی بھی تب تک ختم نہیں ہوتی جب تک وہ جانور گھر میں رہے۔یہ یاد رکھیے کہ ایسے بلی اور کتے دستیاب نہیں ہیں جو الرجی فری ہوں۔
7: پولن الرجی
پولن الرجی موسمی ہوتی ہے۔کچھ لوگ اسے تپ کاہی Hay fever سمجھتے ہیں جبکہ یہ موسمی الرجی ناک کی سوزش ہے۔
8: لیکٹوز انٹولرینس Lectose Intolerance
اس کا شکار شخص کوئی ایسی چیز نہیں لے سکتا جس میں لیکٹوز پایا جاتا ہے۔دودھ ، مکھن، کریم،میدہ ، آٹا جس چیز میں شامل ہو وہ کھاتے ساتھ مریض کا سانس بند ہو سکتا ہے۔
الرجی کی علامات
عموما اس کا ری ایکشن فورا ظاہر ہوتا ہے۔جس میں کھانسی، چھینکیں، ناک کا بہنا یا بند ہو جانا، آنکھوں کا سرخ ہونا اور ان سے پانی بہنا ، جسم پہ سرخ دھبے اور خارش ،ایگزیما، دمہ یا جسم کا سوج جانا شامل ہیں۔اکثر یہ ری ایکشن اتنے شدید نہیں ہوتے لیکن بعض اوقات یہ شدت اختیار کر جاتے ہیں۔جنہیں Anaphylaxis یا Anaphylactic shock کہا جاتا ہے۔اس صورت میں مریض کو فورا ڈاکٹر کے پاس لیجا کر اسے طبی امداد دی جانی چاہیے ہے۔
علاج
اس کا مکمل علاج تو ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا۔ہاں احتیاطی تدابیر اور کچھ ادویات کے استعمال سے اسے کنٹرول ضرور کیا جا سکتا ہے۔
جب کبھی الرجی ہو تو Antihistamines) الرجی کی دوا) کا استعمال کرنا بہتر ہے تاکہ الرجی کا ری ایکشن نہیں ہو۔
بند ناک کیلئے Decongestant جیسے کی کوئی گولی، مائع یا اسپرے لیا جاتا ہے۔
جسم پر سرخی اور خارش کیلئے لوشن اور کریم استعمال کی جا سکتی ہیں۔
کسی الرجی کے ری ایکشن میں ہونے والی سوجن اور سرخی کو ختم کرنے کیلئے Steroids کی گولی، قطرے، کریم یا ان ہیلر لیا جا سکتا ہے۔
کچھ لوگوں کو جب شدید ری ایکشن ہو جاتا ہے تو انہیں Immunotherapy تجویز کیجاتی ہے۔جو طویل عرصے پہ محیط ہوتی ہے۔اس میں ڈاکٹرز کی زیر نگرانی الرجنز میں رہ کر اس کیخلاف قوت مدافعت بڑھائی جاتی ہے۔اور جب جسم اس کا عادی ہو جاتا ہے تو اس سے کم متاثر ہوتا ہے۔
لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود سے کسی بھی الرجی کیلئے تشخیص یا دوا نہیں لینی چاہیے۔
ڈاکٹر سٹیفن ڈئریس یونیورسٹی آف مانچسٹر سے گریجویٹ ہیں۔وہ ایک ایمونیلوجسٹ ہیں۔ان کا کہنا ہے
” لوگ الرجی کیلئے ایک این ٹی اسپیشلسٹ کے پاس جاتے ہیں۔جو کہ گلے، ناک اور آنکھوں متعلقہ مرائض کا علاج کرتے ہیں۔جبکہ الرجی کیئےالرجسٹ / ایمونیولجسٹ کے پاس جانا چاہیے جو کہ الرجی کا علاج بغیر سرجری کے کر سکتے ہیں۔بہت سے لوگ جو کہ ماحولیاتی الرجی کا شکار ہوتے ہیں ہر وقت بند ناک اور سر درد کی شکایت کرتے ہیں۔اسی لیے ایک این ٹی ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔بیشک الرجی کیوجہ سے جسم کے دوسرے اعضاء بھی متاثر ہوتے ہیں۔جیسےکہ جلد، پھیپھڑے، معدے کا نظام اور ناک کی ہڈی۔اگر آپکے ناک کی ہڈی پہ دباؤ ہے تو بجائے ای این ٹی اسپیشلسٹ کے پاس جانے کے الرجسٹ کو دکھائیں۔”
ڈاکٹر پیٹر سٹوری نیوزی لینڈ کے مشہور الرجسٹ ہیں۔ان کا کہنا ہے۔
” جب بھی آپ کو یہ علامات ظاہر ہوں آپکو فورا الرجسٹ کے پاس جانا چاہیے۔
ناک کی ہڈی کی انفیکشن
ناک کی ہڈی یا چہرے پہ دباؤ
کان بند ہونا
کان اور گلے کی سوزش
ناک بہنا یا بند ہونا چھینکیں۔ناک سے سانس لینے میں دشواری
آنکھوں میں خارش اور پانی بہنا۔
گلے کا بار بار صاف کرنا اور نزلہ جم جانا۔
شدید کھانسی اور دمہ
بھاری آواز
کھانسی کیوجہ سے بخار۔
مامونی قلت
خوراک سے الرجی۔
اسلام آباد میں موجود نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ۔NIH میں ہر قسم کی الرجی کا ٹیسٹ ہوتا ہے۔اور یہیں سے ایسے انجیکشنزملتے ہیں جنہیں ہفتہ وار جلد میں لگایا جاتا ہے۔یہ کورس چھ ماہ سے دو سال پہ محیط ہوتا ہے۔
الرجی کی ادویات کے سائیڈ ایفیکٹس بھی ہیں۔جیسے کہ غنودگی اور چہرے اور جسم پہ بالوں کا بڑھنا ۔
کہاجاتا ہے کہ اسلام آباد میں موجود جنگلی شہتوت بھی الرجی کی بڑی وجہ ہے۔اسی لیے موسم بہار کے آغاز میں ہی الرجی کے مریض اسلام آباد سے کراچی یا لاہور چلے جاتے ہیں۔اور دو یا تین ماہ بعد واپس آ جاتے ہیں۔کیونکہ جب پودوں کی پولینیشن کا عمل ختم ہو جاتا ہے تو الرجی کا زور بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے چند ایک بیماریاں موت کا سبب بنتی تھیں۔گردن توڑ بخار، دل کا دورہ، طاعون، جذام اور تپ دق۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس وقت دور جدید کی بیماریوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔بلکہ سائنس اس قدر ترقی یافتہ نہیں تھی کہ ان کی تشخیص کر پاتی۔آج اگر ڈاکٹرز مریض کو ٹیسٹس کی لمبی فہرست تھما دیتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ان ٹیسٹس سے ایک بیماری کی تشخیص کی جا سکے اور صحیح دوا تجویزکر کے بیماری کا خاتمہ کیا جا سکے۔پہلے بھی لوگ ذیابیطس، کینسر، ایڈز اور دیگر بیماریوں کیوجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے مگر کوئی تشخیص یا دوا نہ ہونے کیوجہ سے کہا جاتا تھا کہ بس اس کا وقت پورا ہو گیا تھا۔آج اللہ کا شکر ہے کہ سائنس نے ایسے آلات اور کیمیکلز بنا لیے ہیں جو نہ صرف تشخیص میں مدد دیتے ہیں بلکہ علاج بھی کرتے ہیں۔
مسز احمد کو پچھلے دس سال سے فوڈ الرجی ہے۔ کبھی کبھار انہیں کسی سبزی یا پھل کے کھانے سے الرجی ہو جاتی ہے۔جس کی وجہ سے ان کا منہ پھول جاتا ہے۔زبان بھاری ہو جاتی ہے۔اور آنکھوں سے پانی جاری ہو جاتا ہے اور اینٹی الرجی انجیکشن لگوانے کیبعد ہی ان کی حالت میں افاقہ ہوتا ہے۔
انوار صاحب پاکستان میں تھے جب انہیں ڈسٹ الرجی ہوئی۔صبح اٹھتے ساتھ انہیں چھینکیں آنا شروع ہو جاتی ہیں اور کان اور گلے میں شدید سوزش ہوتی ہے۔پھر وہ روزگار کے سلسلے میں انگلینڈ چلے گئے تو یہ الرجی بڑھتی گئی۔انہیں دمہ ہوگیا۔اب جب کبھی وہ سٹرس فیملی کا کوئی بھی فروٹ کھاتے ہیں یا خشک میوہ جات تو ان کا منہ پک جاتا ہے اور شدید بخار ہو جاتا ہے۔دو تین بار تو دمہ کا اٹیک اس قدر شدید تھا کہ وہ بیہوش ہو گئے۔ڈاکٹر نے انہیں ان ہیلر تجویز کیا اور گھر سے تمام کارپٹ اور قالین اٹھا دینے کا کہا کیونکہ کارپٹ اور قالین میں مٹی کے ذرات اور لیٹکس کیوجہ سے الرجنز ہوتے ہیں۔
مسز خالد کو پولن الرجی ہے۔جب کبھی موسم تبدیل ہوتا ہے تو ان کے ناک کان میں سوزش ہوتی ہے۔آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ہے۔اور کبھی کبھار چہرے کا کوئی حصہ جیسے ہونٹ، آنکھ یا گال سوج جاتے ہیں۔الرجسٹ نے انہیں اینٹی الرجی ادویات تجویز کی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ان گولیوں کیوجہ سے ہر وقت غنودگی محسوس کرتی ہیں۔لیکن مجبوری ہے اگر وہ یہ گولیاں نہ لیں تو چھینکوں کی وجہ سے وہ نہ تو ڈسٹنگ کر سکتی ہیں نہ ہی گھر کے کام۔
پچھلے انیس سال سے الرجی کا مریض ہونے کیوجہ سے میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اگر نہار منہ اور سونے سے پہلے کلونجی یا انجیر کے 3 یا 5 یا 7 دانے کھا لیے جائیں۔یا زیتون کے تیل یا شہد کا ایک چائے کا چمچ لے لیا جائے تو الرجی کی علامات سے بچا جا سکتا ہے۔