Daily Roshni News

الله جميل ويحب الجمال۔۔ اللہ خوب صورت ہے اور خوب صورتی پسند فرماتا ہے۔۔۔ تحریر۔۔۔حماد علی شاہ

الله جميل ويحب الجمال
اللہ خوب صورت ہے اور خوب صورتی پسند فرماتا ہے
تحریر۔۔۔حماد علی شاہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ الله جميل ويحب الجمال۔۔ اللہ خوب صورت ہے اور خوب صورتی پسند فرماتا ہے۔۔۔ تحریر۔۔۔حماد علی شاہ)گل دگنا، غنچہ دہن لڑکی پر نظر پڑی تو لڑکا پڑھائی بھول کر عشق میں گرفتار ہو گیا۔ اب حکیم صاحب سبق پڑھاتے مگر توجہ نہ ہونے کے سبب لڑکے کو سبق یاد نہ رہتا۔ آخر حکیم صاحب سمجھ گئے ۔.
کائنات کا قیام افزائش پر ہے۔ افزائش کا ایک مفہوم اپلیس کا بڑھنا اور دوسرا رخ گھٹنا ہے۔ اپیس کم ہوتی ہے تو فرد جہاں سے آیا ہے، اس مقام اور فرد کے درمیان فاصلہ کم ہو جاتا ہے۔ اور جب اپیس بڑھتی ہے۔ فاصلہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
ا۔ فاصلہ بڑھنے سے خوب صورتی کم ہوتی ہے۔
۲۔ فاصلہ کم ہونے سے حسن نمایاں ہوتا ہے۔
ہر شے کی خوب صورتی معین تناسب میں ہے جس پر اس کی تخلیق ہوئی ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے تو نرم و ملائم وجود ہر دل کو لبھاتا ہے۔ یہ کشش جسم کی نہیں، اس فطرت کی ہے جس پر بچہ قائم ہے۔ بچہ کی تربیت غیر فطری ماحول میں ہو تو وقت گزرنے کے ساتھ خوب صورتی مغلوب ہو جاتی ہے۔ تربیت فطری تقاضوں سے ہم آہنگ ماحول میں ہونے سے جوانی اور بڑھاپے میں داخل ہونے کے بعد بھی فطرت میں موجود کشش فرد کی کشش بن جاتی ہے۔


ر بر بینڈ کو دونوں سروں سے کھینچیں ، اسپیس بڑھتی ہے اور دونوں کنارے منسلک ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ کھچاؤ ختم کرنے سے ربر بینڈ معمول کی حالت پر آجاتا ہے۔ یہ مثال انھیں کے گھٹنے بڑھنے کو بخوبی بیان کرتی ہے۔
اسپیس بڑھنے سے ربر کی ہیئت متاثر ہوتی ہے اور وہ کم زور ہو کر کئی جگہوں سے کھلنے لگتا ہے۔ ربر کی فطری اسپیس کو قائم رکھیں تو بناوٹ میں توازن قائم رہتا ہے۔ حالاں کہ ربر میں اپیس ابھی بھی موجود ہے لیکن یہ وہ اسپیس ہے جور بر بینڈ بنانے والے نے ربر کو ظاہر کرنے کے لئے خود متعین کی ہے۔ جب شے تخلیق کار کی متعین کردہ حدود میں رہتی ہے تو دراصل وہ بنانے والے کے ذہن کے مطابق ہوتی ہے اور اسی کے سبب خوب صورت لگتی ہے۔
بیان کی گئی مثال آدمی اور انسان پر صادق آتی ہے۔ آدمی جتنا اپنی مقداروں سے دور ہوتا ہے، اس کی خوب صورتی ، بدصورتی بن جاتی ہے ۔ قدرت کی متعین کردہ مقداروں میں رہنے سے وہ احسن تقویم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں،
ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر تخلیق کیا ، پھر اسے اسفل سافلین میں پھینک دیا۔“ (التین : ۴-۵) احسن تقویم وہ ساخت ہے جس پر قائم رہ کر بندہ خلیفہ فی الارض کے منصب پر فائز ہوتا ہے اور یہی نوع آدم کی اصل خوب صورتی اور مقام ہے۔ اس کے برعکس جو کچھ آدمی کے اندر ہے، وہ فکشن ہے۔


بدصورت سے مراد اسفل سافلین یا بگڑی ہوئی شکل ہے جو مقداروں میں عدم توازن سے پیدا ہوتی ہے۔ فطرت میں توازن اور حسن ہے لہذا وہ عادات و خصائل جو فطرت کے خلاف ہیں ، بدصورتی کا سبب ہیں۔
یک سو ہو کر اپنا چہرہ دین حنیف کی طرف قائم کرلو، اس فطرت پر جس پر اللہ نے تخلیق کی ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی۔ یہی قائم رہنے والا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ “ (الروم : ۳۰)
جھوٹ بولنے والے کا چہرہ دیکھیں ۔ لالچ اور مکاری چہرہ کا زاویہ بدل دیتی ہے۔ غرور سے نرمی کی جگہ جمود آ جاتا ہے۔
نفرت آنکھوں کی چمک وحشت میں بدل دیتی ہے۔ قصہ سے معصومیت کی جگہ فرعونیت لے لیتی ہے۔ اس کے برعکس بچ بولیں اور چہرہ پر چمک دیکھیں ۔ خلوص بندہ کو خالص کر دیتا ہے۔
معاف کرنے والے کا چہرہ پُرسکون ہوتا ہے۔ مسکراہٹ بند دروازے کھولتی ہے اور محبت فاتح عالم بن جاتی ہے۔
خوب صورتی کا تعلق محبت سے ہے اور محبت ایسکی خوشی ہے جوفی سے گزر کر اثبات بنتی ہے۔ فاق کی ارضا مخلوق کی رضا بن جاتی ہے۔ قرب سے چہرہ روشن اور آنکھوں میں چمک پیدا ہوتی ہے۔ دیکھنے والے لوگ ایسے فرد کے دل کا حال نہیں جانتے لیکن قربت کے عکس کو خوب صورتی کا نام دیتے ہیں۔ قربت یا محبت کسی بھی شے سے ہو سکتی ہے۔ موسیقی سے جنون کی حد تک محبت کرنے والا موسیقی میں جذب و جاتا ہے، نتیجہ میں سروں میں سحر پیدا ہوتا ہے اور دنیا سے بہترین گلوکار یا موسیقار کہتی ہے ۔ موسیقی اس ی خوب صورتی کا ذریعہ بن گئی۔ بظاہر وہ شخص واجبی نقش کا حامل کیوں نہ ہولیکن دل کش آواز کے سبب یا کے لئے اس کا چہرہ دل آویز ہو گیا۔
اچھے عمل سے بندہ خوب صورت نظر آتا ہے۔ آپس ی چپقلش کو نظر انداز کر کے دوسرے افراد صرف یہ یکھتے ہیں کہ اس نے مشکل وقت میں ہماری یا کسی کی کی ۔ چہرہ وہی ہے لیکن ہم دردی کے جذبات سے وخال کے زاویے اپنے مقام پر آگئے اور لوگوں نےفرد کو خوب صورت دیکھا نقش و نگار وہی ہیں،رنگ بدل گیا۔


خوب صورتی نین نقش میں نہیں ، کشش کے سبب ہے۔ گریز اور کشش فرد یا شے میں موجود متعلقہ وصف کے غالب ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک شخص پیسوں سے محبت کرتا ہے، پیسوں میں کم و بیش ہر مادی شے کو خرید نے اور فروخت کرنے کا احساس ہے ۔ یہ احساس کشش بن کر فرد کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ فرد قربت محسوس کر کے رنگ رنگ نوٹوں کی خوب صورتی میں کھو جاتا ہے، رشتوں کو پیسوں میں تو لتا ہے اور ہر شے کی قیمت لگاتا ہے۔ دولت مندوں سے وہ لوگ متاثر ہوتے ہیں جو پیسوں سے محبت کرتے ہیں۔ اپنے حال میں خوش رہنے والے کی خوب صورتی شکر کی عادت میں ہے۔ ہر فرد ذوق کے مطابق چیزوں کو خوب صورت اوربدصورت دیکھتا ہے۔ اس طرح خوب صورتی کا معیار تبدیل ہوتا رہتا ہے کیوں کہ لوگ مخصوص پیمانوں میں رویوں کو جانچتے ہیں۔ ایک لڑکا حکمت سکھنے حکیم صاحب کے پاس گیا ۔ محنت کی ،حکیم صاحب بھی اس سے خوش تھے۔ ایک روز کسی طرح اس کا سامنا ان کی بیٹی سے ہو گیا۔ گل و گلنار، غنچہ دہن لڑکی پر نظر پڑی تو لڑکا پڑھائی بھول کر عشق میں گرفتار ہو گیا۔ اب حکیم صاحب سبق پڑھاتےگر توجہ نہ ہونے کے سبب لڑکے کو سبق یاد نہ رہتا۔
آخر حکیم صاحب سمجھ گئے ۔ بیٹی کو ایسی دوا کھلائی کہ اسے قے اور اسہال ہو گیا۔ دو روز میں چہرہ سے سرخی غائب اور پیلاہٹ نمایاں تھی ۔ آنکھوں کے گرد حلقے بن گئے ۔ خوب صورتی نہ جانے کہاں کھو گئی۔ حکیم صاحب نے کسی طرح دونوں کا سامنا کروایا۔ لڑکے نے لڑکی کو دیکھا۔ منہ پھیر لیا اور پڑھائی میں مشغول ہو گیا ۔ حکیم صاحب کو غصہ آیا۔ اٹھے اور قے والی ٹوکری لڑکے کے سامنے رکھ دی اور کہا، کپڑا بناؤ۔ اس نے کپڑا ہٹایا اور منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ حکیم صاحب نے لڑکے سے پوچھا۔ تجھے اس سے محبت تھی؟

خوب صورتی اور بدصورتی کا ہمارا معیار نکشن ہے۔ اگر معیار کسی پیمانہ پر قائم ہے تو پیا نہ محدود ہوتا ہے۔ محدود شے ایک حالت میں قائم نہیں رہتی۔
ہر قوم میں خوب صورتی کا تصور مختلف ہے۔ کوئی سرخ و سفید رنگ سے متاثر ہوتا ہے تو کسی کے لئے سانولا رنگ جاذب نظر ہے۔ کوئی گندمی رنگ پر فدا ہے تو کسی کے لئے حسن کا معیار سیاہ رنگ ہے۔ عشق کی لازوال داستانوں میں ایک قصہ لیلیٰ مجنوں کا ہے۔ لیلی کے معنی سیاہ کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ لیلی کالی تھی اور مجنوں اس پر جان و دل سے فدا تھا۔ جذبات میں گہرائی کا یہ عالم تھا کہ ہر ذرہ میں چمک اسے لیلی محسوس ہوتی۔ مجنوں ایک روز کنارے ریت چھان رہا تھا کسی نے پوچھا، کیا کر رہے ہو؟ جواب دیا، لیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔
سوال کرنے والا ہنس دیا اور بولا، مجنوں میاں! ریت کے ذرات میں لیلیٰ کہاں؟ مجنوں بولا، کیا تمہیں ان ذرات میں لیلی نظر نہیں آتی ؟ ذرات میں چمک لیلی کے دم سے ہی تو ہے!

خوب صورتی کے بارے میں دانش ور کہتے ہیں، ہر شے میں خوب صورتی ہے مگر ہر آنکھ اس کا اور اک نہیں کرتی۔ (حکیم کنفیوشس)
خوب صورتی کا تعلق دل سے ہے ، دل سیاہ ہو تو چمکتی آنکھیں کچھ کام نہیں دیتیں۔ (حکیم بو علی سینا ) آئینہ میں ہر روز چہرہ دیکھو۔ بری صورت ہے تو برا کام نہ کرو تا که دو برائیاں جمع نہ ہوں۔ اچھی صورت ہے تو برا کام کر کے خراب نہ کرو۔ (افلاطون) زندگی کے دو اہم انعامات خوب صورتی اور سچائی ہیں۔ خوب صورتی کو میں نے محبت کرنے والے کے دل میں پایا کہ یہ چہرہ میں نہیں ، دل کی روشنی میں ہے جب کہ سچائی محنت کرنے والے کے ہاتھوں میں نظرآئی۔ (خلیل جبران) بہترین اور خوب صورت اشیا دیکھی اور چھوٹی نہیں جاسکتیں محسوس کی جاتی ہیں۔ (ہیلن کیلر ) خوب صورتی کی تلاش میں ہم چاہے پوری دنیا کا چکر لگا لیں ، اگر وہ ہمارے اندر نہیں ہے تو باہر نہیں ملے گی ۔ (ایمرسن)


سب تعریفیں ایک بات کہتی ہیں کہ حسن حسن عمل سے ہے۔ عمل سے بیت بنتی ہے ، بدلنےسے مقدارمیں متاثر ہوتی ہیں اور جن مقداروں پر بندہ پیدا کیا گیا ہے، اس پر دوسرا پرنٹ آجاتا ہے۔ رنگ گڈ مڈ ہوتے ہیں اور بندہ گڈمڈ رنگوں کی طرح کوئے کی مانند ہو جاتا ہے جوانس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی چال بھول گیا۔

اولیاء اللہ خواتین میں ایک نام بی بی ام ہارون ہیں ۔ بڑی تعداد میں مرد اور خواتین ان کے شاگرد تھے اور فیض حاصل کیا ۔ آپ فرماتی ہیں ، اللہ جس کو پسند کرتا ہے وہ خوب صورتی کا پیکربن جاتا ہے۔ ایک سو ایک اولیاء اللہ خواتین میں تحریر ہے، بی بی ام ہارون کو رات کی تاریکی میں اپنے خالق و مالک کی عبادت کرنے میں خاص لطف حاصل ہوتا تھا۔ جب سپیدہ سحری + نمودار ہوتا تو فرماتیں: ہائے دوری ہوگئی ۔
مطلب یہ کہ رات کی تاریکی میں اپنے خالق کی عبادت کرنے میں جو لطف حاصل ہوتا ہے وہ دن کے وقت نہیں ہوتا۔ بی بی ام ہارون کے بال خوب صورت اور لانبے تھے۔ اس قدر چمک دار اور ملائم تھے کہ خواتین رشک کرتی تھیں۔ کسی نے پوچھا! آپ کے بالوں کے حسن میں کیا راز مخفی ہے۔ فرمایا اللہ مجھے پسند کرتا ہے میری ہر چیز خوب صورت بن گئی ہے۔”سپیده سحری (صبح کی سفیدی یا روشنی )
بشکریہ ماہنامہ قلندر شعور ستمبر2019

Loading