ہالینڈ (ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)کچھ لوگ جہاں جاتے ہیں،محفل کو قہقہوں سے بھر دیتے ہیں،اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ ہنستے بستے مجمعےمیں بھی اُونگھ کا سماں پیدا کر دیتے ہیں۔۔۔
ہم بات کر رہے ہیں ان لوگوں کی جن کے ساتھ بیٹھ کر وقت تو کیا،
صبر بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ یہ بوریت کے ایسے شہنشاہ ہوتے ہیں کہ محفل میں بیٹھے لوگ خاموشی سے دیوار کی طرف دیکھنے لگتے ہیں، جیسے وہاں کوئی پوشیدہ دروازہ ہو جس سے بھاگا جا سکتا ہو۔۔۔
آئیے، ان کی علامات کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ کہیں آپ بھی اس فہرست میں شامل تو نہیں…؟
یہ جب بات چیت کرتے ہیں،تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی پرانی،
زنگ آلود گھڑی کی سوئیاں بے دلی سے چل رہی ہوں۔ ان کی گفتگو یک طرفہ ہوتی ہے، یعنی یہ بولتے ہیں، باقی سنتے ہیں… یا یوں کہہ لیں، سنتے کم اور برداشت زیادہ کرتے ہیں۔
اگر درمیان میں کوئی دوسرا کچھ کہنے
کی کوشش کرے، تو یہ ایسے گھورتے ہیں جیسے گلی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر وہ بزرگ جو ہمیشہ غصے میں ہوتے ہیں۔۔۔
یہ چٹکلہ سنانے کی کوشش کریں
تو سننے والا پہلے مسکراتا ہے، پھر چہرے پر الجھن آتی ہے، اور آخر میں آنکھیں بند کر کے سوچنے لگتا ہے کہ “زندگی کے فیصلے اتنی جلدی کیوں نہیں ہوتے جتنی جلدی یہ چٹکلہ ختم ہوا؟” ان کے چٹکلے ایسے ہوتے ہیں جیسے بے نمک سالن، جسے کھانے کے بعد انسان نہ تعریف کر سکتا ہے، نہ برا بھلا کہہ سکتا ہے، بس خاموشی سے پانی پی لیتا ہے۔۔۔
یہ ہمیشہ ایک ہی کام کرتے ہیں
جو وہ پچھلے پندرہ سال سے کر رہے ہوتے ہیں۔
اگر ان کی زندگی کوئی ڈرامہ ہوتا، تو اس کا اسکرپٹ ایک بار لکھنے کے بعد دوبارہ کسی کو ہاتھ نہ لگانا پڑتا۔ صبح اُٹھے، چائے پی، دفتر گئے، شام کو واپس آئے، اور یہی کہانی اگلے دن دوبارہ نشر مکرر۔۔۔
ان کے معمولات اتنے یکسانیت بھرے ہوتے ہیں
کہ انہیں دیکھ کر گھڑی بھی شرمندہ ہو جاتی ہے، “بھئی، میں بھی وقت دکھاتی ہوں، مگر کچھ نیا تو ہوتا ہے۔۔۔!”
یہ کہانی سنانے کے فن سے
ایسے ہی ناواقف ہوتے ہیں جیسے کوئی بندہ
پہلی بار ہاتھ میں موبائل لے کر وائی فائی کا پاسورڈ تلاش کر رہا ہو۔ اگر یہ اپنی زندگی کا سب سے دلچسپ واقعہ بھی سنائیں، تو ایسا لگے گا جیسے پرائمری کی کتاب کا سب سے خشک سبق پڑھا جا رہا ہو۔ ایسے لگے گا کہ واقعہ پیش آیا نہیں، بلکہ کہیں فائلوں میں دبا ہوا مل گیا ہو۔۔۔
یہ ہمیشہ اپنی ہی بات کرتے ہیں۔
ان کے پاس ایک ہی موضوع ہوتا ہے:
“میری نوکری، میرا باس، میری صحت، میرا کھانا، میرا موبائل، میرا موسم!” اگر ان کی گفتگو کو ترمیم کر کے اخبار میں چھاپا جائے، تو کالم کا نام
“میرے مسائل ” ہونا چاہیے۔۔۔
یہ نئے تجربات سے ایسے بھاگتے ہیں
جیسے بچہ ہوم ورک سے۔ اگر ان سے پوچھیں کہ “بھائی، کبھی کچھ نیا سیکھا؟” تو وہ ایسے دیکھتے ہیں جیسے آپ نے ان سے چاند پر پکنک کا منصوبہ پوچھ لیا ہو۔ یہ ہر نئی چیز کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، جیسے نیا کھانے کا ذائقہ یا نیا کپڑوں کا فیشن، اور پھر شکایت بھی کرتے ہیں کہ زندگی میں کچھ مزہ نہیں رہا۔۔۔
یہ ہمیشہ زندگی کی شکایات ہی کرتے ہیں۔
بارش ہو تو زیادہ ہو گئی، نہ ہو تو خشکی بہت ہے۔ بجلی آئے تو بل زیادہ، نہ آئے تو حکومت کو کوستے ہیں۔ چائے گرم ہو تو زبان جل گئی، ٹھنڈی ہو تو ذائقہ خراب۔ ان کے سامنے دنیا کی سب سے بڑی خوشخبری بھی سنائیں، تو وہ فوراً کہیں گے
“اچھا، لیکن مسئلہ تو پھر بھی رہے گا نا!”
اب سوال یہ ہے: ذرا چیک کریں،
آپ میں ان میں سے کتنی علامات موجود ہیں؟
اگر ایک سے زیادہ ہیں تو فوراً سنبھل جائیں، ورنہ دوستوں کی محفل میں آپ کی آمد پر لوگ موبائل نکال کر “فلائٹ موڈ” لگا لیں گے۔۔۔!