Daily Roshni News

انسانی شعور کا ارتقاء اور عقائد۔۔۔ تحریر۔۔۔ماہرہ شاہ

انسانی شعور کا ارتقاء اور عقائد

تحریر۔۔۔ماہرہ شاہ

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ انسانی شعور کا ارتقاء اور عقائد۔۔۔ تحریر۔۔۔ماہرہ شاہ)آج تک کے دریافت شدہ جانداروں میں انسان واحد جاندار ہے جو ارتقائی سفر کے دوران ذہنی لیاقت کے اس مقام پر پہنچا کہ اسے میٹا کوگنیشن یعنی اپنے وجود کا ادراک نصیب ہوا۔ “میں ہوں” کے شعور کے ساتھ اس کے ذہن میں کئی بڑے سوالوں نے جنم لیا۔ مثلاً میں کیوں ہوں؟ کیا ہوں؟ وہ کیوں ہے؟ کیا ہے؟

ساتھ ساتھ اس ادراک سے سوچ کا ایک اور پہلو بھی نمودار ہوا اور وہ تھا “میں کچھ ہوں”

میری عزتِ نفس ہے، میری ایک انا ہے۔ میٹا کوگنیشن نہ ہونے کے باعث اور کسی جانور میں ہمیں واضح طور پر عزت نفس کا تصور نظر نہیں آتا۔ اس تصور کی پیدائش کے بعد انسانوں کے لیے سروائیول کی جنگ میں کم از کم اتنا فائدہ تو ضرور ہوا کہ اب انہیں انسانوں سے تحفظ حاصل کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ مل گیا تھا اور وہ تھا اپنی انا کی قربانی۔ یعنی ہار مان لینا۔ جس سے مقابل فریق کی انا کی تسکین ہو جاتی اور آپ کی سروائیول کے چانسز بڑھ جاتے۔ آج سے قبل کبھی کسی جانور نے معافی مانگنے پر انسانوں کو بخشا نہیں تھا لیکن میٹا کوگنیشن سے اپنے وجود کو محسوس کرنے اور اسے افضل بنانے کی سوچ کے باعث انسان اکثر اوقات اپنے سامنے جھک جانے والے انسان کی زندگی بخش دیتا تھا اس عمل سے انسان نے یہ بات بھی سیکھی کہ طاقتور کے سامنے جھک جانا چاہیے۔یہی وہ عہد تھا جس میں انسان نے ان تمام چیزوں کی پرستش شروع کر دی جو اسے سمجھ میں نہ آتی ہوں یا جن سے اسے خوف آتا ہو۔ یہ وقت زبان کی ایجاد سے بہت پہلے کا تھا۔ انسانوں نے آگ، سورج، چاند، ستاروں، سرداروں اور تصوراتی وجودوں کو پوجنا شروع کیا۔ خوش قسمتی سے ارتقائی سفر میں انسان کے ذہنی ارتقاء کے لیے مفید میوٹیشنز شامل رہیں۔ جس سے انسانی شعور کو پھلنے پھولنے میں مدد ملی۔ لیکن اس کے باوجود پرستش کا عمل چیدہ چیدہ تبدیلیوں کے ساتھ جاری رہا۔ معاشرے وجود میں آئے، انسانی تہذیبیں بنیں۔ اجتماعی تصورِ پرستش سے مذہب کا تصور پیدا ہوا۔ یعنی ایک جیسی اشیاء کی پرستش کرنے والے ایک ہی مذہب والے بن گئے اور اپنے مذہب کو دوسرے کے مذہب سے الگ محسوس کرنے لگے۔ جس سے مذہبی شناخت کا تصور وجود میں آیا۔

انسانوں میں تواہمات اور مافوق الفطرت موجودات پر یقین کم عقلی کی علامت نہیں بلکہ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ انسان ہمیشہ سے ہی اپنے گرد موجود کائنات پر غور کرتا رہا ہے، سوال سوچتا رہا ہے اور اس کی کچھ نہ کچھ توجیح نکال کر اسے معانی کے جامے پہناتا رہا ہے۔ جس سے تواہمات یا غیر حقیقی عناصر کے تصورات انسانوں میں رائج ہوئے۔

یہی وجہ ہے کہ انسان خوابوں اور مختلف ذہنی بیماریوں کو غیبی پیغامات یا غیبی مخلوقات کہ اثر سے تعبیر کرتا آیا ہے۔ تاریخ میں کئی شخصیات نے اسی وجہ سے غیبی پیغامات موصول ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے یہ عمل بددیانتی کی غرض سے کیا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان ہمیشہ موجود علم کے مطابق کی گئی کائنات کی بہترین تشریح کو ہی حقیقت مانتا ہے۔ انہوں نے بھی یہی کیا اور اپنے مطابق سماجی اخلاقیات کی مروجہ بھلائی کو فروغ دیا۔ آج ہمیں ان کے کام کی اہمیت کو سراہتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اکیسویں صدی سائنسی سوچ کی صدی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر منطقی رسومات، عقائد اور نظریات پر کڑی نظر ثانی کی جائے اور زیادہ سے زیادہ غیر ضروری روایات سے جان چھڑائی جائے۔ نیز غیر حقیقی عناصر کے باعث آپسی انسانی تعلق کو خراب کرنے کی احمقانہ حرکتوں سے باز آیا جائے۔

Loading