انسان کتابوں جیسے ہوتے ہیں۔📚
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کچھ دن پہلے کسی جگہ پڑھا تھا کہ انسان کتابوں کے جیسے ہوتے ہیں۔
بات دل کو لگی تو سوچا کیا واقعی ایسا ہے پھر غور کیا تو لگا بات تو بلکل سچ ہے واقعی ہم سب کتابوں کی مانند ہی تو ہیں۔ جیسے ہر کتاب اچھی نہیں ہوتی ہے ویسے ہی ہر انسان اچھا نہیں ہوتا۔
کتابوں میں بھی بہت سی قسمیں پائی جاتی ہیں۔ اچھی کتابیں، گھٹیا کتابیں، بری کتابیں ، اور نارمل کتابیں وغیرہ بلکل ایسے ہی انسانوں میں بھی مختلف قسمیں ہیں اچھے انسان ، گھٹیا انسان ، برے انسان اور نارمل انسان وغیرہ۔
اب زیادہ تر ہوتا یوں کہ ہم جب کوئی کتاب خریدتے تو اس کا ٹائٹل پڑھ کے خرید لیتے ہیں کہ جی نام بہت اچھا لگ رہا کتاب کا لیکن ہم اکثر ناموں سے اور کتاب کی ظاہری تراش خراش اس کے ٹائٹل سے دھوکہ کھا جاتے ہیں ۔
اور جب ہم اس کو پڑھتے ہیں تو پھر سمجھ آتی کہ ہم نے نا صرف پیسے بلکہ اپنا قیمتی وقت بھی ضائع کیا ہے۔
کتاب کو پڑھنے پہ اس کے اندر کے مواد کا پتہ چلتا ہے نا بلکل ویسے ہی انسان کے اندر کا بھی اس کے ساتھ رہ کے بات کر کے پتہ چلتا ہے ۔
ایسا ہوا ہے کہ ظاہری طور پر جو نظر آتا باطنی طور پر نہیں ہوتا تو انسان ہی انسان سے دھوکہ کھا جاتا ہے۔
ہم ظاہری وضع قطع پہ مر مٹتے ہیں اور جب مستقل کسی ایسے انسان سے پالا پڑتا تو پھر سمجھ آتی کہ جو چیز دور سے چمکے ضروری نہیں وہ سونا ہی ہو۔
اچھا کچھ کتابیں ظاہری طور پہ اتنی خاص نہیں لگتی لیکن جب انہیں پڑھا جاتا ہے تو وہ پوری زندگی کا نچوڑ ہوتا ہے۔ مطلب کتاب میں پوری دنیا سمائی ہوتی ہے تو بلکل ایسا انسانوں میں بھی ہوتا ہے ۔
ضروری نہیں جو دکھنے میں عام سا ہو وہ باطنی طور پہ بھی عام ہی ہو۔
ہو سکتا ہے وہ خاص دل خاص جذبات رکھتا ہو۔؟
ایسے لوگ اپنے اندر پوری دنیا سموئے ہوتے ہیں۔ ان کے ہونے پہ کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوتی ہیں ۔
لیکن مسئلہ پتا ہے کیا۔؟
ہم انسان ظاہری خوبصورتی پہ مرنے والے ہیں تو باطنی خوبصورتی کدھر سے نظر آنی ہیں ۔
ہم ہمیشہ اچھے لوگوں کو نظر انداز کر کے ایسے لوگوں کی طرف بڑھتے جو دکھنے میں تو خوبصورت ہوتے لیکن وہ خوبصورت ہوتے نہیں ہیں ۔
بلکل ایسے ہی جیسے دکھنے میں خوبصورت سانپ بھی لگتا ہے پر کیا وہ دل کا بھی خوبصورت ہوتا ہے؟
زہر سے بھرا خوبصورت ترین دشمن جس کے پاس جانا خود موت کو دعوت دیناہے۔
یہی حال ہم انسانوں کا بھی ہے ظاہر خوبصورت باطن زہریلا۔
تو دیکھے اپنے ارد گرد آپ کو ہر طرف چلتی پھرتی کتابیں ملے گی۔ مگر آپ نے ان چلتی پھرتی کتابوں کے سرورق اور ظاہری صورتوں پہ نہیں جانا ہے۔
کوشش کریں ان کو پڑھیں اور پھر فیصلہ دیں کہ آپ کو کیسی کتاب چاہیے۔
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
علامہ اقبال