انسان کسی کا ہو نہ ہو، مگر زبان کا ضرور ایک ہونا چاہیے۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میں سمجھتا تھا کہ انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اپنی غلطیوں کا احساس ضرور ہوتا ہوگا، وہ غلط فیصلے، وہ رویے جو انا کی زد میں آکر اپنائے جاتے ہیں، وہ لمحے جب آدمی اپنی ناک اونچی رکھنے کے خمار میں دوسروں کے جذبات کو روند دیتا ہے… مگر میں غلط تھا۔ میں واقعی غلط تھا۔
میں نے لوگوں کو پرکھا، میں نے رویوں کو سمجھا، اور پھر جانا کہ اس دنیا میں کچھ لوگ اتنے بے حس ہوتے ہیں کہ اگر تم ان کے لیے اپنا سب کچھ بھی قربان کر دو، وہ پھر بھی پلٹ کر ایک نئی طلب لے آئیں گے— جیسے قربانی ان کا حق ہو، جیسے تمہارے خلوص کا کوئی مول نہ ہو۔
میں نے انہیں غلط پایا۔ کوئی بھی باشعور انسان انہیں غلط کہے گا، مگر شاید ان کی انا کا جھنڈا اتنا بلند ہوتا ہے کہ یا تو وہ سمجھنا نہیں چاہتے، یا ان کے اندر سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی۔ وہ اپنی غلطی پر اکڑتے ہیں، ایسے جیسے— جیسے کوئی خستہ مکان کی چھت پر کھڑا ہو اور اس زعم میں مبتلا ہو کہ وہ آسمان کو چھو رہا ہے۔
میں نے فرعونوں کو ٹوٹتے دیکھا ہے، مگر ان کے ماتھے کی شکن بھی سیدھی نہ ہوئی۔ میں نے سنگ دلوں کو نرم ہاتھوں سے تھامنے کی کوشش کی، مگر وہ میری انگلیاں چبا گئے۔ میں نے انہیں ہار ماننے کے بعد بھی جیت کے ترانے گاتے سنا۔
سوچتا ہوں کہ معافی کا خیال آنا بھی اللہ کی ایک بڑی رحمت ہے، اور اپنی غلطی کا احساس ہونا ایک عظیم نعمت۔ لیکن وہ اس خیال سے بے نیاز رہتے ہیں ۔۔لیکن شاید وجہ یہ ہے کہ ان کی انا میں دراڑ پڑ جائے گی، ان کی عزت دفن ہو جائے گی… مگر کس چیز سے؟ بس اتنا کہنے سے کہ “ہاں، میں غلط تھا”؟
مگر میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے جو اپنے یقین دلانے کے وعدے کرتے ہیں، جو قسمیں اٹھاتے ہیں کہ وہ کبھی اعتبار نہیں توڑیں گے، مگر ان کے الفاظ مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ نازک نکلتے ہیں۔ کیوں؟ کیا انہیں خدا کا خوف نہیں؟ یا ان میں سچ کو نبھانے کی ہمت نہیں؟ یا پھر سامنے والے کے جذبات ان کے لیے ایک کھیل ہیں؟
میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو تمہیں توڑ کر بھی اکڑ کر کھڑے رہتے ہیں، کیونکہ ان کے سینے میں “میں معصوم ہوں” کا آئینہ ہمیشہ چمکتا رہتا ہے۔ وہ آئینہ جو انہیں اپنی حقیقت کبھی دکھنے نہیں دیتا۔
اور میں نے انہیں بھی دیکھا ہے، جو تمہارے ہر درد سے واقف ہونے کے باوجود تمہیں چھوڑ جاتے ہیں… وہ جو وعدہ کرتے ہیں کہ ساتھ کبھی نہیں چھوڑیں گے، مگر ہوا کے ایک جھونکے کے ساتھ اپنی بات کو اڑا دیتے ہیں۔ میں نے پھر انسانوں کی باتوں پر یقین رکھنا چھوڑ دیا۔ میں نے وعدوں سے اعتبار اٹھا لیا۔
اور اس سب کی وجہ صرف ایک شخص ہے۔
انسان کسی کا ہو نہ ہو، مگر زبان کا ضرور ایک ہونا چاہیے۔
نامعلوم