Daily Roshni News

انٹرویو۔۔۔محمد مجیب احمد۔۔۔انٹرویو کار۔۔۔عیشا صائمہ

محمد مجیب احمد

محبت ان کی شخصیت کا خاصہ ہے۔

ادب کا رشتہ سرحدوں کا محتاج نہیں !!

انٹرویوکار۔۔۔۔ عیشا صائمہ(نمائندہ  خصوصی)

ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔انٹرویو۔۔۔محمد مجیب احمد۔۔۔انٹرویو کار۔۔۔عیشا صائمہ)آج جس شخصیت سے آپ کوآن لائن اردو نیوز پیپر ڈیلی روشنی انٹرنیشنل ہالینڈکے نمائندہ کی حیثیت سےمتعارف کرایا جا رہا ہے ان کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ محنت ان کی شخصیت کا خاصہ ہے –

ادب کارشتہ سرحدوں کا محتاج نہیں

بلکہ جو بھی انسان حساس دل رکھتا ہے وہ اپنے اردگرد ہونے والے واقعات کو

نہ صرف محسوس کرتا ہے بلکہ ان سے متاثر بھی ہوتا ہے کسی کی تکلیف اور دکھ کو اپنا سمجھتے ہوئے اسے دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتا ہے چاہے لفظوں سے یا اپنے عملی اقدام سے غم ہو یا خوشی دونوں احساسات میں

اس پر روئیے اثر انداز ہوتے ہیں انہی رویوں کو ایک ادیب اپنے الفاظ میں ڈھال کر اسے کہانی کا روپ دیتا ہے ایک ایسی ہی شخصیت جن کا تعلق حیدر آباد انڈیا سے ہے اپنے اردگرد ہونے والے واقعات کو کہانیوں اور افسانوں میں ڈھالنے کا ہنر رکھتے ہیں اپنی اسی خوبی کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی شہرت حاصل کر چکے ہیں ان کے کئ مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں جن میں کورونا وبا کے حوالے سے لکھے گئے 63 تریسٹھ افسانوں کا مجموعہ ورلڈ ریکارڈ قائم کر چکا ہے ادب سے اسی لگاؤ کی وجہ سے انہوں نے وہ مقام حاصل کیا جو کسی بھی ادیب کے حصے میں کم ہی آتا ہے ان سے کی گئ گفتگو پیارے قارئین کی نذر ہے جو یقینی طور پر آپ کو انتھک محنت کی طرف مائل ضرور کرے گی…آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اردو سے آپ کا گہرا لگاؤ ہے ادب میں اپنی ایک الگ پہچان بنا چکے ہیں – ان کی تصانیف کی فہرست بہت طویل ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں –

تصانیف :

*” نئی صبح ” (بچوں کی کہانیاں)۔سال،2009ء۔

* “دل سے”( افسانوی مجموعہ)۔سال، 2014ء۔

* ” نیا سویرا “(بچوں کی کہانیاں)۔سال، 2014ء۔

* حیوانات اور جنگلات ” (بچوں کی کہانیاں)۔ سال، 2016۔ء

* ” کوئی چارہ ساز ہوتا ” (افسانوی مجموعہ)۔سال، 2018ء۔

* “محبت زندگی ہے ” (افسانوی مجموعہ)۔سال، 2018ء۔

* ” ماں ” (افسانوی مجموعہ)۔سال، 2019

* ” زندگی کا سفر “( کہانیوں کا مجموعہ)۔سال، 2019 ء۔

: انعامات و اعزازات :

* ‘ صداقت نامہ'(قومی کونسل برائے فروغِ اردوِ زبان)،[دہلی] بضمن صدارتِ بین الاقوامی سمینار۔سال،2021ء۔

ایوارڈز :

* “الفانوس عالمی ادبی ایوارڈ ” (پاکستان)، سال،2018ء۔

* ” عالمی بھیل ادبی سنگت ادبی ایوارڈ “،(پنجاب۔پاکستان) سال، 2018ء۔

* ” الفانوس عالمی ادبی ایوارڈ “(پاکستان)سال، 2019ء۔

* ” سر بشیر احمد ادبی ایوارڈ

. 2021ء۔

* ” HYDERABAD ICON”AWARD۔

(The Most Desirable & Popular Person In Hyderabad City۔),

For The Year, 2021.

Awarded By :

MGM ARTS & EVENTS,

Hyderabad, (Telangana- India:

خصوصی گوشہ جات ..

* ” آفتابِ نٙو “( تعارف)، روزنامہ ‘ رہنمائے دکن ‘حیدرآباد۔ شمارہ ، 22/اکٹوبر، 1984ء۔

* ” شخصیات ” (تعارف مع افسانے)۔روزنامہ ‘ پندار ‘ پٹنہ۔بہار۔شمارہ، 3/دسمبر، 1989ء۔

تحقیقی مقالات میں شمولیت :

پانچ (5) تحقیقی مقالہ نگاروں نے اپنے مقالہ جات میں ان کی تصانیف کو شامل کیا ہے۔

تو آئیے ان سے گفتگو کا باقاعدہ آغاز کرتے ہیں – –

سوال : آپ کا تعلق کس شہر سے  ہے ؟

جواب : تاریخی، تہذیبی، ثقافتی اور علمی شہر حیدرآباد(دکن)۔انڈیا

سوال : کون سے شعبے سے وابستہ رہے ہیں۔کیا یہ آپ کا پسندیدہ شعبہ ہے؟

جواب : شعبہ اردو۔۔۔جی ہاں ! میرا یہ پسندیدہ شعبہ ہے۔

سوال : کہانیاں لکھنے کا آغاز کب کیا ؟

جواب : باقاعدہ آغاز تو نویں جماعت میں زیرِ تعلیم کے دوران  ہوا۔اس سے قبل بچپن میں لکھنے  کی ابتدا لوگوں کے درمیان ہورہی بات چیت کو اپنی انگلی کے ذریعے تحریر میں  لایا کرتا تھا اور یہ تحریری عمل بعد میں رفتہ رفتہ قلم کے ذریعے صفحہ قرطاس پر منتقل ہوتاچلا گیا۔ویسے اردو زبان و ادب سے رغبت اوائل عمر ہی سے رہی ہے۔ اگر چہ میرا ذریعہ تعلیم ابتداء سے گریجویشن تک انگریزی رہا ہے۔لیکن ‘اردو’ اختیاری مضمون تھا۔ابتدائی جماعتوں میں اردو کے پرچے پر تاریخ بھی اردو میں تحریر کیا کرتا تو ٹیچرز مسرت کا اظہار کرتے تھے.مرحوم والد محترم کا ذوقِ مطالعہ کافی وسیع تھا۔وہ اردو و عربی زبان کے بہترین خوشنویس تھےاور ریاستی محکمہ روڈ ٹرانسپورٹ میں ملازم تھے۔ان کےزیرِ مطالعہ اخبارات و رسائل رہتے تھے۔جن کو میں بڑے ہی اشتیاق سے پڑھنے کی کوشش کرتا تھا اور مشکل الفاظ ان سے دریافت کر لیتا۔املا اور خطوط نویسی کی تربیت ان ہی سے حاصل کی۔ تیسری جماعت  سے اپنے اقرباء کو خط لکھنے لگا تھا۔ایک طرح سے گھر کا ماحول علمی و مذہبی تھا۔مرحومہ والدہ محترمہ دینی و مذہبی کتب کا مطالعہ کرتی تھیں۔اردو سے میرا لگاو دیکھ کر والد بچوں کا رسالہ ماہنامہ ” کھلونا ” پابندی سے لایا کرتے تھے۔اگر کبھی نہ لاتے تو یاد دہانی کے لئے ان کی جیب میں چھٹی رکھ دیتا تھا:

” ابّا ! ‘کھلونا’ ضرور لانا۔”

مگر افسوس کہ والد عین جوانی میں انتقال کر گئے۔اللہ انھیں غریقِ رحمت کرے۔آمین ! اس وقت میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا۔جب رسالہ’ کھلونا’ آنا بند ہوگیا تو میں والد کی کتابوں سے مستفید ہوتا رہا۔انہوں نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ” یہ سب کتابیں تمہارے لئے ہی ہیں۔”ان کی تربیت اور درس میرے لئے ایک عظیم سرمایہ سے کم نہیں ہے۔بچپن کے یہ اثرات مستقبل میں میری ذہنی ارتقاء کا سبب بن گئے اور یہی حساس دور میری زندگی فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔

  سوال : ادب کی کون سی صنف پہ سب سے پہلے کام کیا ؟

جواب : افسانوی ادب پر۔

سوال : آپ کے پسندیدہ ادیب کون سے رہے اور آج کے لکھنے والوں میں کس کا لکھا پسند ہے ؟

جواب : منشی پریم چند، علی عباس حسینی، کرشن چندر،عصمت چغتائی،قرة العین حیدر، بشریٰ رحمن، جیلانی بانو،راجندر سنگھ بیدی، سریندر پرکاش،خلیل جبران اور موپاسںاں وغیرہ۔

موجودہ دور میں قاضی، مشتاق احمد،زیب سندھی،آکاش مغل،محمد جمیل اختر اور ہر چھوٹے و بڑے ادیب کی عمدہ و بہترین تخلیق کو۔

سوال : پہلی کہانی کی اشاعت پہ کیسا لگا تھا اور وہ کس رسالہ یا اخبار میں شائع ہوئی تھی ؟

جواب : پہلی کہانی بعنوان ” مظلوم ” کی اشاعت پر ایسا لگا کہ گویا میرا پیامِ مقصد قارئین تک پہنچ گیا ہے اور وہ کہانی حیدرآباد کے ایک روزنامہ”رہنمائے دکن ” کے ہفتہ واری گوشہ ” طلباء و نوجوانوں کا صفحہ” میں شائع ہوئی تھی۔

سوال : آپ سنجیدہ لکھتے ہیں کیا شخصیت میں شروع ہی سے ذمہ داری کا احساس زیادہ تھا۔؟ اس وجہ سے طبیعت میں سنجیدگی آگئی یا معاملہ اس کے برعکس ہے ؟

جواب : جی ہاں ! سنجیدگی اور ذمہ داری میری شخصیت کا نمایاں پہلو ہیں۔میں بہت حساس واقع ہوا ہوں۔میں نے سنجیدہ ادب کے ساتھ رومان پرور ادب بھی تخلیق کیا ہے۔دراصل ادب کا مقصد ہی انسانیت کی خدمت ہے۔ سماجی برائیوں کے خلاف آواز اٹھانا ایک لکھاری کا فرض ہے۔ میں ادب برائے انسانیت، خدمت، صداقت اور مسرت پر ایقان رکھتا ہوں۔حالات و واقعات اور مشاہدات نے مجھے سنجیدہ ادب تخلیق کرنے پر مجبور کردیا ہے۔مجھے سنجیدہ اور حقیقت پسند کی تخلیقیت پر مسرت ہوتی ہے۔

سوال : آپ نے ادب کے لئے بہت کام کیا ہے اب تک کون سے اعزازات اپنے نام کرواچکے ہیں؟

جواب : مجھے اپنے ملک کی مختلف ریاستی اردو اکیڈیمیوں و تنظیموں اور قومی کونسل کی جانب سے انعامات و اعزازات اور صداقت نامہ جات حاصل ہوچکے ہیں۔ان کے علاوہ یہ ایوارڈز بھی مجھے عطا ہوچکے ہیں:

* ” سہیل عظیم آبادی ادبی ایوارڈ “، سال،2013ء۔(بِہار اردو اکیڈیمی۔انڈیا)۔

* عالمی ادبی تنظیم الفانوس(گجرانوالہ۔پاکستان) نے مسلسل تین دفعہ سال، 2017ء،سال2018ء اور سال 2019ء نیز سال،2023ء کےلئے ادبی ایوارڈز سے سرفراز کیا ہے۔

* عالمی ادبی تنظیم ” بھیل ادبی سنگت ” (پنجاب۔ پاکستان) نے دو مرتبہ سال،2017ء اور سال، 2018ء کے لئے ادبی ایوارڈز سے نوازا ہے۔

* ” سر بشیر احمد ادبی ایوارڈ “(کوٹلی محمد صدیق ریسرچ لائبریری۔پاکستان) سال،2021ء۔

* ” HYDERABAD ICON AWARD”  Awarded by :(MGM Arts & Events)Hyderabad.India,for the year,2021.

* “الوکیل کتاب ایوارڈ “(عاشق حسین خان ایڈووکیٹ میموریل آرگنائزیشن۔حاصل پور۔پاکستان)، سال،2023ء۔

* ” کارنامئہ حیات ایوارڈ” برائے’فکشن’ (تلنگانہ ریاستی اردو اکیڈیمی) سال،2019ء۔

  سوال : آپ کا سب سے اہم کارنامہ وبا کے حوالے سے لکھے گئے آپ کا افسانوں کا مجموعہ ہے۔جس نے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔ آپ کو پتہ تھا ایسا ہوگا ؟

جواب : جی ! اس پذیرائی کے لئے بے حد ممنون ہوں۔ہاں۔۔۔وبا کے تناظر میں تحریر کردہ افسانوی مجموعہ” پت جھڑ کا موسم ” بلا شبہ اپنی ایک انفرادیت و معنویت رکھتا ہے۔جو کہ وبا کے قیامت خیز حالات اور جان لیوا صدمات کا حقیقت پر مبنی بر ملا اظہار ہے۔جس میں واقعات و مشاہدات کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے۔اس موضوع پر میں نے کُل 63 (تریسٹھ ) افسانے و کہانیاں قلمبند کی ہیں۔میں نے ہر افسانے میں ماحول کے مطابق ترجمانی کی ہے۔مجھے لکھتے وقت تو صرف اپنی قلمی ذمہ داری کا احساس تھا۔جب حالات معمول پر آئے تو ایسا لگا کہ میں نے  اپنے افسانوں میں منفی پہلووں پر مثبت رویوں کی سبقت کو صحت مندانہ طور پر پیش کر کے کامیاب رہا ہوں اور اپنا فرض بخوبی نبھایا ہے۔میرے پیشِ نگاہ تو بس انسانیت کی خدمت کار فرما تھی۔ جو بفضلِ ربی کامیاب رہی۔

 سوال : جب آپ کا نام ورلڈ ریکارڈ کے لئے نامزد ہوا تو آپ کے احساسات کیا تھے؟

جواب : یہ احساس ہوا کہ میری کاوش کو قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا گیا ہے اور وہ مقبول ہوئی ہے۔

سوال : ادبی دنیا میں سب سے بڑی خوشی کا لمحہ کون سا تھا ؟

جواب : جب مجھے ہماری ریاست’ تلنگانہ’ کی اردو اکیڈیمی نے باوقار ” کارنامئہ حیات ایوارڈ ” برائے’ فکشن’سال،2019ء کے لئے نامزد کیا۔

سوال : درس و تدریس سے منسلک ہیں آپ’ یہ بتائیے کون سا مضمون پڑھانا اچھا لگتا ہے اور طالب علمی کے زمانے میں کون سا مضمون پسند تھا ؟

جواب : بلا شبہ اردو زبان و ادب۔

سوال : اساتذہ سے کبھی ڈانٹ یا مار پڑی؟ شرارتی طالب علم تھے یا خاموش طبع ؟

جواب : میں نے ایسا موقع کبھی فراہم نہیں کیا۔البتہ سائنس میں(ڈائی گرام) شکل اتارنا اور حساب دانی میں عدم دلچسپی پر اسا تذہ کی خفیف سی خفگی کا سامنا ہوتا تھا۔دورانِ تعلیم ایک ذہین و محنتی طالبِ علم تھا۔خاموش طبع کے ساتھ بائیں ہاتھ کا اچھا کرکٹ کھلاڑی بھی تھا بسا اوقات پریکٹس سے جی چرانے پر کوچ کو شکایت رہتی تھی۔

سوال : وہ کون سے عوامل ہیں جو استاد اور طلباء کے تعلقات میں بہتری لانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں؟

جواب : استاد اور شاگرد کے رشتے کے درمیان ادب و احترام کے ساتھ دوستانہ و مخلصانہ رویہ تعلقات میں بہتری لا سکتا ہے۔

سوال : اس وقت کے اور آج کے تعلیمی نظام میں کیا فرق ہے۔؟

جواب : تعلیمی نظام ہر دور کے مطابق بدلتا رہتا ہے اور یہ تغیرات ارتقا و بقا اور حالاتِ عصر کے لئے ضروری بھی ہیں۔آج کتاب کی جگہ الیکٹرانک آلات نےلے لی ہے مگر کتاب کی اہمیت ہمیشہ برقرار رے گی۔موجودہ زمانے میں تعلیمی ترقی کے باوجود انسانی قدریں متزلزل ہورہی ہیں۔اخلاقیت کا فقدان ہے۔

 سوال : زندگی سے کوئی گلہ ہے؟

جواب : گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی

وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ۔

 سوال : کوئی خوشی یا کامیابی سب سے پہلے کس سے شیئر کرتے ہیں ؟

جواب : اہل خانہ اور مخلص احباب سے۔

سوال : آپ والد بھی ہیں یہ بتائیے والدین اور بچوں کے درمیان دوستی کی فضا قائم کی جا سکتی ہے ؟

جواب : جی ہاں ! والدین کو اپنی اولاد کے لئے شفیق و مہربان ہونا چائیے۔ان کی خامیوں و غلطیوں اور نا فرمانیوں کی اصلاح مثبت اور معتدل انداز میں ہونی  چائیے۔ضرورت پڑنے پر سختی میں بھی میانہ روی  اختیار کی جائے تاکہ ان میں خوشگوار احساس پیدا ہوسکے۔تب ہی خیر سِگالی اور دوستی کا ماحول قائم ہوگا۔

سوال : بچوں کا آپ سے، اور آپ کا ان  سے دوستی کا رشتہ ہے ؟

جواب :  ہاں ! سچی اور کھری دوستی کا۔

 سوال : فارغ وقت میں آپ کے مشاغل کیا ہیں ؟

جواب : اعزا و اقربا اور احباب کی خبرگیری، ملاقات اور عیادت،ٹوٹتے ازدواجی رشتوں کو جوڑنا،سیر و تفریح اور فلمی گیتوں ونغموں سے لطف اندوزی، ادبی، مذہبی و دیگر تقریبات میں شرکت، پالتو پرندوں کی دیکھ بھال اور پیارے و مخلص دوستوں سے تعلقات استوار رکھنا وغیرہ۔

سوال : بہت سے شعبوں سے وابستہ ہیں آپ، لوگوں کو جانجچتے کیسے ہیں اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو کیسے خوشگوار رکھتے ہیں ؟

جواب : جی بالکل ! لوگوں کا خلوص اور رویہ ہی ان کی محبت اور منافقت کا پتہ دیتا ہے۔اگر وہ مخلص نہ ہوں تو ان سے تعلق و قربت رکھنا اور بار بار جانچنا فضول اور تضیع اوقات ہے۔میں اپنے ماحول کو للہیت و محبت اور اپنے اخلاق و کردار سے ہمیشہ خوشگوار رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔

سوال : کوئی اہم پیغام جو دینا چاہیں ؛

جواب : ہاں ! آج دنیا کو انسانیت و محبت، امن و آشتی کی سخت ضرورت ہے۔عالمی سطح پر اس جانب توجہ مرکوز ہونی چاہئیے۔  سرسبز و شادب اور خوشحال دنیا کےحصول کےلئے ہمارا مقصد ہونا چائیے۔انتہا پسندی، دہشت گردی، جنگ و جدال، شورش، نسل کشی، جہالت، غربت، لالچ، بے روزگاری،  کے خاتمے کے لئے سب کو آگے آنا چاہئیے۔عالمی مسابقت اور عصری ٹیکنالوجی کا مقصد انسانی کی ارتقا و بقا ہونا چاہئیے۔

میرا پیغام۔۔۔ پیغامِ انسانیت و محبت ہے جہاں تک پہنچے۔

اسی کے ساتھ ہم نے محمد مجیب احمد سے اجازت چاہی اس دعا کے ساتھ کہ وہ مزید کامیابیاں سمیٹتے رہیں –

Loading