Daily Roshni News

انگریز کی غلامی۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم

انگریز کی غلامی

تحریر۔۔۔حمیراعلیم

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ انگریز کی غلامی۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم )برصغیر پاک و ہند پر89 سال تک انگریزحکومت نے راج کیا۔1947 میں جب اس نے ہندوستان چھوڑا تو مسلمانوں کو پاکستان ملا۔قائد اعظم اور لیاقت علی خان جیسی مخلص و ایماندار شخصیات کواتناموقعہ ہی نہیں دیا گیا کہ وہ اس کی جڑوں کو مضبوط کرتے اور اس کو بہتر نظام دیتے۔ان کے بعد جتنے بھی جمہوری حکمران آئے صرف اپنے فارن اکاوئنٹس بھرنے اور اپنے وطن انگلینڈ،  امریکہ، دوبئی وغیرہ میں بزنس اور جائیدادیں بنانے آئے۔ڈکٹیٹرز کے دور میں چند کام ہوئے مگر وہ بھی آدھے ادھورے سے۔مجموعی طور پر سب نے مل کر ملک کو لوٹا کھسوٹا اور ریٹائر ہو کر اپنے دیس سدھار گئے۔لیکن میری یہ تحریر اس موضوع پر نہیں بلکہ اکثر پاکستانیوں کی ہر چیزکا منفی پہلو دیکھنے اور کبھی بھی مثبت رخ پر نہ سوچنے کے بارے میں ہے۔

   شاید اس منفی سوچ کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ اور کرپشن اس قدر زیادہ ہے کہ لوگ کسی پر اعتبار کرنے کی غلطی کر بھی لیں تو جلد ہی حقیقت سامنے آنے پر ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ دوبارہ ایسی غلطی دہرانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان کسی کی اچھائی دیکھ کر بھی اس سے انجان بن جائے۔اس تمہید کا پس منظر ایک بڑا عام سا جملہ ہے” انگریز چلا گیا مگر اپنے غلام چھوڑ گیا۔” اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ انگریز نے جتنے سال ہم پر حکومت کی ہمیں اپنے برابر نہیں سمجھا کیونکہ تعصب ان کی گھٹی میں پڑا ہے وہ کسی بھی ڈارک اسکن والے کو اپنے سے کمتر ہی سمجھتے ہیں کالوں کی جدوجہد سے تو سبھی واقف ہیں پچھلی صدی تک انہیں گوروں کی بسز، ریسٹورنٹس وغیرہ میں داخلے کی بھی اجازت نہیں تھی۔پھر وہ ہم ایشینز کو کیسے قابل عزت سمجھتے۔ان کے تعصب اور تنگ نظری سے قطع نظر ان کی اچھائیوں کو بھی دیکھیے۔اگر وہ آپ کے ملک میں سڑکوں،  ریلوے ٹریکس، یونیورسٹیز، اسکولز، ہاسپٹلز، پلوں،  سرنگوں اور آب پاشی کے نظام کے علاوہ دیگر نظام نہ بناتے تو یقین مانیے آپ ابھی بھی اسٹون ایج میں ہی رہ رہے ہوتے کیونکہ نہ تو آپ کو سوائے قائد اعظم اور ان کی ٹیم کے کوئی ایسا مخلص اور ایماندار حکمران ملا جو ملک کے لیے کچھ کرتا نہ وہ اس قابل تھے اور ہیں کہ ہمارے ساتھ کوئی نیکی کرتے۔

    انگریز کی بنائی ہر چیز اس قدر پائیدار تھی کےآج ڈیڑھ صدی گزرنے کے بعد بھی نہ صرف موجود ہے بلکہ کام بھی کر رہی ہے۔ہم سے تو ان کی مرمت تک نہیں ہو سکتی۔بلوچستان کا ایک چھوٹا سا پل کیا ٹوٹا اس کا ملک سے 8 ماہ تک زمینی رابطہ ہی ممکن نہیں ہو پایا کیونکہ اس پل کو دوبارہ کھڑا کرنے میں 8 ماہ لگ گئے۔خدانخواستہ کوئی سرنگ گر جائے تو شاید زندگی بھر اسے مرمت نہ کیا جا سکے۔

    ہم 76 سال میں پنجاب یونیورسٹی،  گنگا رام جیسا ایک بھی تعلیمی ادارہ یا ہاسپٹل نہیں بنا پائے۔جو بنائے بھی تو ان کا حال ہمارے سامنے ہے۔ریلوے ٹریک نیا ڈالنا تو دور کی بات ہم تو اس کی مرمت سے بھی قاصر ہیں۔نئی ٹرینز بنانا تو کجا ہم نے تو پہلی والیوں کو بھی قابل استعمال نہیں رہنے دیا۔

     ہاسپٹلز اور تعلیمی ادارے جو انگریز کے دور میں مفت اور بہترین سہولیات و خدمات سرانجام دے رہے تھے ہمارے زیر انتظام آئے تو کرپشن کا شکار ہو کر تباہ ہو گئے۔76 سال میں ہم سے یہ تک نہ ہو سکا کہ ہم اپنی قومی زبان کو سرکاری زبان بن سکتے اپنا تعلیمی نظام مرتب کر سکتے ۔اور آج بھی ہر محکمے میں انگریز سرکار کا ہی نظام چل رہا ہے۔پھر بھی ہم انہیں کوستے رہتے ہیں۔چلیے آپ کوستے رہیے مگر یہ خوبی تو مانیے کہ انہوں نے جس بھی ترقی پذیر غریب ملک میں حکومت کی بڑے خلوص سے کی۔عوام کو کئی فوائد پہنچائے۔اور جونہی اس ملک نے ان سے آزادی حاصل کی وہ پھر سے تنزلی کا شکار ہو گیا۔افریقہ اور پاکستان اس کی مثال ہیں۔

    جب کہ دوسری طرف انڈیا جیسے ممالک بھی ہیں جو زیر آب الیکٹرک ٹرینز چلا رہے ہیں دوبئی کو پل کے ذریعے اور یورپ کو بائی روڈ اپنے ملک سے جوڑ چکے ہیں۔اگرچہ وہاں بھی کرپشن کم نہیں مگر وہ اپنے ملک سے مخلص ہیں۔چند سال پہلے چین کے کسی منسٹر کا بیان پڑھا تھا کہ جب پاکستانی ہم سے کوئی چیز خریدنے یا معاہدہ کرنے آتے ہیں تو پہلا سوال کرتے ہیں کہ ہمیں کتنا حصہ ملے گا۔جب کہ انڈین پہلےپوچھتے ہیں ہمارے ملک کو کتنا فائدہ ہو گا پھر اپنا حصہ مانگتے ہیں۔

     دعائیں دیجئے انگریزسرکار کو کہ اگر ہمارے بڑے ان کے غلام نہ ہوتے تو آج جو چند بنیادی سہولیات حاصل ہیں وہ بھی نہ ملتیں۔پاکستانی حکمران تو دنیا کے واحد حکمران ہیں جو اپنی عوام کے سورج کی حرارت کے استعمال پر بھی ٹیکس لگا کر اپنی عیاشیاں پوری کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔وہ ہمیں سہولیات کیا دیں گے۔

Loading