اولاد کی روحانی تربیت
بچوں کی اچھی تربیت و تعلیم کے لئے
اولیاء اللہ سے رہنمائی
قسط نمبر1
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ اولاد کی روحانی تربیت)صوفیا، اولیاء کرام اور بعض دیگر مشاہیر کی زندگیوں پر غور کیا جائے تو ان کی ابتدائی تربیت میں والدین کا کردار نہایت اہم نظر آتا ہے۔ ان کی روحانی طرزفکر بننے میں بھی گھر کے ماحول خصوصاً والدین کا بہت حصہ ہے۔
طرزِفکر کی تشکیل کا عمل پیدائش سے پہلے ہی شروع ہوجاتا تھا۔ پھر والدین بچے کے اخلاقی و روحانی جوہر ابھارنے میں خاص کردار ادا کرتے ہیں ۔ شعور سنبھالنے کے بعد ایسے لوگ جب کسی روحانی اُستاد کی شاگردی اختیار کرتے تو روحانی منازل طے کرنا ان کے لیے زیادہ آسان ہوجاتا۔
ایک صاحب کی شادی ہوئی۔ یہ صاحب نرم مزاج تھے جبکہ بیگم بہت غصے والی۔ ان کے بچوں میں ایک بچہ بالکل والد کی طرح نرم مزاج تھا جبکہ ایک لڑکا اور لڑکی میں ماں کی غصیلی طبیعت منتقل ہوئی۔ والدین کی سوچ اور طرز فکر منتقل ہونے کی بہت سی مثالیں دیکھی جاسکتی ہیں۔
علم نفسیات میں ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ ایک انگریز ماں کے بطن سے ایک ایسا بچہ پیدا ہوا جس کے نقش و نگار اور رنگ حبشی نژاد بچوں کی طرح تھا۔ موٹا ناک نقشہ، گھونگریالے بال، سیاہ رنگ۔ اس بچے کے رنگ و روپ پر ماں باپ دونوں ہی بہت حیران ہوئے۔ انہوں نے اور ان کے خاندان والوں نے سوچا کہ ایسا کیونکر ہوا۔ کئی ٹیسٹ اور دیگر تحقیق کے بعد یہ راز کھلا کہ حمل کے زمانے میں ماں جس کمرے میں رہتی تھی وہاں دیوار پر ایک سیاہ فام حبشی بچے کا فوٹو آویزاں تھا۔
بڑے بڑے نفسیات داں، دانشوروں اور ڈاکٹرز کا بورڈ بیٹھا ۔ ان کے باہمی صلاح مشورے سے یہ بات طے پائی کہ عورت حمل کے زمانے میں بار بار حبشی بچے کی اس تصویر کو دیکھتی رہی تھی، دیکھنے میں اتنی گہرائی پیدا ہوگئی کہ اس کے تصورات پیٹ میں موجود بچے کو منتقل ہوگئے۔
دوسرا تجربہ یہ کیا گیا کہ آئندہ جب وہ امید سے ہوئی تو وہاں ایک بہت خوبصورت بچے کا فوٹو آویزاں کیا گیا اور تجرباتی بنیادوں پر ماں کو ہدایت کی گئی کہ اس فوٹو کو زیادہ سے زیادہ دیکھا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پیدا ہونے والے بچے کے نقوش تقریباً وہی تھے جو دیوار پر آویزاں بچے کی تصویر کے تھے۔
اس واقعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حمل کے دوران ماں کے جذبات و احساسات بچے پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں۔ ماں کی سوچ یا طرزِ فکر کا اثر بچے پر پڑتا ہے۔ ماں اور باپ کی اکثر عادتیں بچے میں جینیاتی طور پر منتقل ہوجاتی ہیں۔
روحانی سائنس بتاتی ہے کہ ذہن میں دو قسم کے نقوش ہوتے ہیں۔ ایک قسم کے اندر لطیف انوار کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ دوسری قسم کے نقوش کثیف جذبات کے ہوتے ہیں۔ کثیف جذبات میں خود غرضی، تنگ نظری، کم ظرفی، احساس کمتری یا احساس برتری جیسے جذبات شامل ہیں۔
انسان کی طرز فکر مثبت ہے تو اس کے جسم میں صحت بخش اور پرسکون لہریں دور کریں گی اور یہی لہریں بچے کی طرزِ فکر کا حصہ بن جائیں گی۔
میڈیکل سائنس بتاتی ہے کہ ذہنی طور منتشر اور پریشان ماؤں کے ہاں ہونے والے بچے خوفزدہ ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ماؤں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ دورانِ حمل ذہنی طور پر ریلیکس رہیں۔ باپ کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی حاملہ بیوی کو پرسکون ماحول فراہم کرے۔ والدین خصوصاً ماں کی سوچ بچے پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔
ماں اور باپ کے خیالات اور طرز فکر بچے کی جین کا حصہ ہوتے ہیں۔ شوہر اور بیوی کے خلیات مل کر جب نئی تخلیق عمل میں آتی ہے تو باپ اور ماں کی طرز فکر کا اثر اس میں پایا جانا لازمی ہے۔ اگر میاں بیوی کی سوچ میں پیغمبرانہ اور روحانی طرزفکر موجود ہے تو تخلیق کی ابتداء میں ہی طرزفکر کا یہ عکس اگلی زندگی میں بھی منتقل ہوسکتا ہے۔ اگر میاں اور بیوی کی طرز فکر میں تخریب ہے تو اس کا اثر بھی نئی نسل کو منتقل ہوسکتا ہے۔
اولاد کی ذہنی و جسمانی تخلیق میں ماں اور باپ دونوں کا حصہ ہوتا ہے لیکن اس میں ماں کا شیئر زیادہ ہوتا ہے۔
بعض علمائے باطن تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اولاد کو نوے فیصد ذہن ماں کا منتقل ہوتا ہے۔ اس لیے بچے کی ذہنی تربیت اور اسے روحانی اقدار سے آشنا کرانے میں ماں کا کردار بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یہ ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ جینیاتی کوڈ میں طرز فکر محفوظ ہوجاتی ہے اور یہ اگلی نسلوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔
سائنس دان یہ بات جان چکے ہیں کہ پیدائش سے بہت پہلے ہی بچہ کے دماغ میں خلیوں کی چارجنگ شروع ہوجاتی ہے۔1997ء کے اوائل میں ایک سائنسی پیش رفت کا چرچا رہا جس سے معلوم ہوا کہ نوزائیدہ بچہ کا دماغ کورا کاغذ یا صاف سلیٹ کی مانند نہیں ہوتا بلکہ اس کے دماغی خلیات جن کا براہِ راست تعلق کارکردگی سے ہے، پیدائش سے پہلے ہی اپنا کام شروع کردیتے ہیں۔
بچے کے سیکھنے اور یادداشت کا نظام رحمِ مادر میں ہی فعال ہوجاتا ہے۔ دماغ پیدائش سے قبل انسانی ضروریات سے متعلق سرکٹ کی تکمیل میں لگا ہوتا ہے۔ یوں سماعت، بصارت، گویائی وغیرہ کے لئے وہ پہلے ہی پروگرامنگ شروع کردیتا ہے۔
اب یہ والدین، رشتہ داروں اور معاشرہ پر منحصر ہے کہ وہ بچے کے دماغ میں موجود مختلف پروگراموں میں سے کتنے پروگرامز آن کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی بچے کی پیدائش کے بعد تین سال تک اس کے ہاتھ کو اس طرح باندھ کر چھوڑدیا جائے کہ وہ حرکت ہی نہ کرسکے تو بعد میں ہاتھ کھولنے کے بعد بھی بچے کا ہاتھ ساری زندگی مفلوج رہے گا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ دماغ نے اس ہاتھ سے متعلق جو پروگرامنگ کی تھی اسے آن نہیں کیا گیا۔ اس سلسلے میں سائنس دان مختلف تجربات میں مصروف ہیں۔
اٹلی کے ایک شہر میں ایک خاتون نے اپنی ایک منت پوری کرنے کے لئے اپنے بچے کی ایک آنکھ پر چند ماہ کے لیے پٹی باندھ دی۔
بچہ کچھ بڑا ہوا تو خاتون کو احساس ہوا کہ اس بچے کی وہ آنکھ ٹھیک کام نہیں کررہی جس پرپٹی باندھی گئی تھی۔ پریشان ماں نے اسے کئی ڈاکٹروں کو دکھایا۔ ڈاکٹرز کسی تسلی بخش نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ پھر دنیا کے کئی ماہر ڈاکٹروں کے سامنے یہ کیس آیا۔ اس بچے کی آنکھ کا کئی طرح معائنہ کیا گیا ۔ بظاہر اس کی آنکھ میں کوئی خرابی نہ تھی۔ اس بچے کی ایک آنکھ کا نابینا پن ڈاکٹروں کے لئے معمہ بن گیا تھا۔ آخرکار ایک ماہر نیورولوجسٹ طویل تحقیق کے بعد معاملہ کی تہہ تک پہنچ گیا۔
جدید آلات کے ذریعے پتہ چلا کہ آنکھ کے اعضاء اور اعصاب تو نارمل ہیں لیکن دماغ میں وہ خلیات مردہ ہوچکے ہیں جو بینائی کی اطلاع وصول کرتے ہیں۔ پیدائش کے بعد ان خلیات کو کام کرنے کا موقع نہ مل سکا لہٰذا کچھ ہی عرصہ میں ان خلیات نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا۔ مزید چند ماہ میں یہ خلیات مردہ ہوگئے اور اس طرح بچہ آنکھ کے اعضاء و اعصاب صحیح ہونے کے باوجود ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہوگیا۔
بچے کو روحانی طرزِ فکر پر گامزن کرنے کی ابتداء بھی اس کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ ایک روحانی انسان بننے میں بچے کی ماں کا کردار بہت اہم ہے۔ کتنے ہی اولیائے کرام کے ایسے واقعات موجود ہیں کہ جن میں ماں کی طرزِ فکر اور تربیت کا حصہ نمایاں ہے۔ماں کے ساتھ ساتھ بچے میں باپ کی طرزِ فکر کا بھی حصہ ہے۔ کئی بڑے اولیاء کرام کے حوالے سے شواہد ملتے ہیں کہ ان کے والدین، دادا دادی یا نانا نانی میں سے اکثر پیغمبرانہ طرز فکر پر گامزن تھے یا خود اﷲ کے دوستوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
اس عالمِ رنگ و بو میں آنے کے بعد بچہ کی تربیت یا سیکھنے Learningکا نیا دور شرو ع ہوتا ہے۔ اس ابتدائی دور میں بھی ماں کا کردار اہم ہے۔
حضرت با با فرید گنج شکرؒ کے والد کا انتقال آپؒ کے بچپن میں ہی ہوگیا تھا۔ آپ کی ابتدائی تربیت آپ کی والدہ نے کی۔ والدہ نے چاہا کہ بچہ کا نماز میں اﷲ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوجائے۔ بچہ میں نماز کا شوق بڑھانے کے لیے وہ محترم خاتون یہ کرتیں کہ جائے نماز کے نیچے ایک پڑیا میں شکر رکھ دیتیں اور فرمایا کرتیں کہ جو بچے نماز قائم کرتے ہیں انہیں روزانہ شکر مل جاتی ہے۔
فرید الدین مسعود نماز ادا کر کے جائے نماز کا کونا الٹتے تو وہاں شکر موجود ہوتی۔ فرید الدین وہ شکر پا کر بہت خوش ہوتے۔
ایک روز فرید الدین کی والدہ جائے نماز کے نیچے شکر رکھنا بھول گئیں۔ اس روز نماز کے بعد جب فرید الدین مسعود نے جائے نماز اٹائی تو وہاں شکر کی پڑیا موجود تھی۔
فرید الدین کی والدہ محترمہ نے اس روز بعد میں بیٹے سے پوچھا بیٹا تم نے نماز پڑھ لی۔
فرید الدین نے جواب دیا ، جی اماں میں نے۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مئی 2021