Daily Roshni News

ایام رقص طاؤس

ایام رقص طاؤس

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کیسے ہو دوست ؟ بہت دنوں بعد آئے ہو ۔ ہاں اب ادھر آنا کم ہی ہوتا ہے۔ زندگی بہت مصروف ہو گئی ہے ۔“

ہاں یہ تو ہے۔ اب وہ پہلے کی سی بات کہاں!“

وہ طالب علمی کا زمانہ تھا۔ شہر کے شور شرابے سے بیچ کر یہاں اسٹڈیز کے لئے آنا ہوتا تھا۔ اب تو یہ ہے کہ کبھی بہت دل کرتا ہے تو ماضی کو یاد کرنے آجاتا ہوں ۔“ اچانک مجھے سکی کی آواز سنائی دی اور پھر چند بوندیں سی مجھ پر آگریں ۔ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

ارے یہ کیا دوست! تم رو رہے ہو؟“ ہاں یار! آج تمہیں یہاں دیکھ کر دل بھر آیا۔ ” مجھے دیکھ کر۔ لیکن میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی تم نے کچھ نہیں کہا۔ بلکہ تمہارے آنے سے تو مجھے مسرت ہوئی ہے ۔“

پھر یہ آنسو کیسے ؟“

یہ آنسو اپنی بے قدری پر ، لوگوں کی طوطا چشمی پر نکل آئے ۔ ایک زمانہ بیت گیا یہاں پر لوگ جاتے ہیں تو جھوٹے منہ بھی پلٹ کر نہیں پوچھتے تم کبھی کبھار آ جاتے ہو تو دل کو ڈھارس سی ہوتی ہے۔“ مجھے تمہارے دکھ کا احساس ہے۔ ایسا کرو دوست، آج اپنی کہانی سناڈالو، دل کا بوجھ ہلکا کر لو۔“

ہاں دوست تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں تو یہاں ڈیڑھ سو سال سے موجود ہوں۔ قریب 1878 میں اس جگہ انگریزوں نے یہ پارک بنایا تھا۔ میں تب سے یہاں ہوں۔ پھر کچھ عرصے کے بعد اس پارک میں ایک چڑیا گھر کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لاہور کے بعد یہ ملک کا دوسرا قدیم ترین چڑیا گھر ہے۔ یہ لان جہاں تم اس وقت بیٹھے ہو قریب سن 1905 میں بنایا گیا۔ تب یہ کافی خوبصورت تھا۔“

تم صحیح کہہ رہے ہو، آثار سے ظاہر ہورہا ہے کہ کافی خوبصورت رہا ہوگا۔

سامنے وہ حسین فوارہ دیکھ رہے ہو۔ یہ اس شہر کے ایک مہربان پارسی شہری نے تعمیر کروایا تھا۔ قدیم کراچی کے یہ شہری اپنے شہر سے کتنی محبت کرتے تھے۔ کیا ہندو، کیا پارسی، کیا مسلمان ، کیا عیسائی ، سب کے لئے یہ شہر ایک محبوبہ کی مانند تھا۔ وہ اس کی دلنوازی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے تھے ۔ ہائے کیا دن تھے وہ بھی ۔“

لیکن بعد والوں نے بھی تو پارک کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ مغلئی طرز تعمیر کی بہترین عکاسی کرتی ہوئی ، یہ بارہ دری بھی تو موجود ہے۔“

ہاں بہت دیدہ زیب ہے، بہت خوبصورت ہے۔ لیکن جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ بنا کر بند رکھی ہے۔ سچ بتاؤ کتنے لوگوں نے اس کا اندر سے نظارہ کیا ہے۔“ سچ کہہ رہے ہو یار ، شروع میں دو چار بار اندر جانے کا موقع ملا تھا۔ اب تو بالکل بند پڑی ہے۔ بہت سے لوگوں کو شاید پتا بھی نہ ہوگا کہ اس گارڈن میں کثیر خرچے سے بنائی گئی ایک خوبصورت بارہ دری بھی موجود ہے۔ ہاں پیسے خرچ کر کے بھوت بنگلہ اور ممتاز بیگم جیسی

اوٹ پٹانگ چیزیں دیکھ سکتے ہیں ۔ شکر ہے کہ اب کچھ بہتر آئی ہے۔ پانی کی جھیل بھی صاف ستھری کر دی گئی ہے اور اس میں نئی کشتیاں بھی ہیں ۔ نیچرل ہسٹری میوزیم بھی ٹھیک حالت میں ہے اور بچوں کی تفریح کے لیے جھولے وغیرہ بھی ہیں ۔“

لیکن دوست جب اتنا کچھ اچھا ہوتا جا رہا ہے اور یہ پرانے لوگوں کا گاندھی گارڈن جسے نئی نسل کراچی زو کے نام سے جانتی ہے اب کچھ بہتر حالت میں ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ تمہاری آنکھوں میں آنسو ہیں۔ میرے دوست تم رو کیوں رہے تھے ۔“ ”میرے دوست میرا یہ رونا کچھ اپنے لیے نہیں تھا۔ یہ ایک میری اپنی ذات کا دکھ نہیں ۔

یہ ہم درختوں کی پوری برادری کا ماتم تھا۔ یہ ایک المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ہم جو اس شہر میں برسوں سے موجود ہیں۔ پرانے شہر میں جا بجا قدیم درخت اپنے گھنیرے سایوں سمیت زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ کیا کسی نے کبھی سوچا کہ ہمارے سانے کی ٹھنڈک میں اب تک کتنے مسافروں نے تپتی دھوپ میں پناہ لی ہوگی ۔ ہم جو دن بھر اپنی سانس کے ساتھ آکسیجن خارج کرتے رہے ہیں۔ اس نے اس شہر کے ماحول پر کتنا خوشگوار اثر ڈالا ہوگا ۔ یہ نیم کے دافع جراثیم درخت، پیپل اور برگد کے قدیم چھتناور ، سایہ دار درخت ، یہ گل مہر، یہ بوگن ویلیا، املتاس اور یوکلپٹس کے رنگین اور مہک دار درخت ، ہم نے تو ہمیشہ اس شہر کی خدمت کی ہے اور اس کے صلے میں کبھی کچھ نہیں مانگا۔ لیکن اس شہر کے جفا پیشہ لوگوں نے کبھی ہماری قدر افزائی نہیں کی ۔ سیمنٹ اور فولاد کی عمارتیں بنانے کے لئے ہمیں بے ڈھرک کاٹا جاتا ہے۔ ہماری کوئی خبر گیری نہیں کی جاتی ۔ ہم بھی تو اس شہر کے خدمت گزار باسی ہیں۔ بے لوث محبت کے جواب میں کیا یہی کچھ کیا جاتا ہے۔ کیا خدمت کرنے والوں کو یہی صلہ دیا جاتا۔ کیا یہی اس شہر فتنہ پرور کا دستور ہے؟ ایک بار پھر ایک سسکی کے ساتھ چند آنسو ٹپک پڑے ۔ لیکن اس بار یہ آنسو میری آنکھوں سے ٹپکے تھے۔

Loading