ایرانی سینما کی 20 نمائندہ فلمیں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو انٹرنیشنل )ذوالفقار علی زلفی
(نواں حصہ)
8- نون و گلدون
سال: 1996
ہدایت کار: محسن مخملباف
عالمی نام: A moment of innocence
* ہدایت کار کا مختصر تعارف *
ہدایت کار ، اسکرین رائٹر اور اداکار محسن مخملباف کا شمار ایرانی سینما کے معماروں میں ہوتا ہے ـ انہوں نے داریوش مہرجوئی، بہرام بیضائی اور عباس کیارستمی جیسے سنجیدہ ہدایت کاروں کے سلسلے کو بخوبی آگے بڑھایا ـ محسن کی تخلیقی زندگی انقلاب کے بعد شروع ہوتی ہے ـ انقلاب کے دوران وہ ایک نوجوان سیاسی کارکن تھے ـ انقلابی ہونے کی وجہ سے وہ شاہ ایران کے عتاب کا بھی شکار ہوئے ـ
وہ 1957 کو تہران کے ایک نہایت ہی غریب خاندان میں پیدا ہوئے ـ ان کے بقول گھر میں کھانے کا اس قدر بحران تھا کہ مجھے دس سال کی عمر سے ہی مختلف قسم کی مزدوریاں کرنی پڑیں ـ نوجوانی میں وہ شاہ مخالف سیاسی تحریک کا حصہ بن گئے ـ اپنے کمیونسٹ خیالات کے باعث جلد ہی ساواک کی نظروں میں آگئے اور ان کی زندگی کے تین سال پرتشدد قید میں گزرے ـ ان کی زندگی کے یہ مختلف تجربات ان کی فلموں میں بھی نظر آتے ہیں ـ
انقلاب کے بعد انہوں نے اپنی پوری توجہ فلم سازی پر مرکوز کردی ـ وہ عباس کیارستمی سے متاثر تھے ـ انہوں نے فلم سازی میں بھی انہی کے انداز کو اپنایا ـ تہران میں واقع ان کا گھر انقلاب کے اوائل میں سینما کا شوق رکھنے والے نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کی مستقل نشست کا مرکز بن گیا ـ رفتہ رفتہ اس مستقل نشست نے ایک اسکول کی شکل اختیار کرلی اور ان کا گھر “خانہ محسن” کے نام سے ایک فلم انسٹیٹیوٹ بن گیا ـ ویسے یہ صرف فلمی اسکول نہ تھا بلکہ یہاں ہر ہفتے باقاعدگی کے ساتھ فلم، ادب، سیاست اور سماج پر مباحث ہوتے تھے ـ مباحثوں کے علاوہ ورزش کا بھی انتظام تھا ـ کہا جاتا ہے اس انسٹیٹیوٹ کی کم عمر طالب علم ان کی آٹھ سالہ بیٹی حنا تھی جو آج خود ایک معروف ہدایت کارہ ہیں ـ
محسن مخملباف کی فلمیں ایران کی سماجی و سیاسی زندگی کا احاطہ کرتی ہیں ـ اپنی بیشتر فلموں کے اسکرپٹ بھی انہوں نے خود لکھے ہیں ـ انہوں نے افغان مہاجرین کی زندگی پر بھی دو فلمیں “سفر قندھار” اور “الفبای افغان” بنائی ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ـ “سفر قندھار” میں البتہ پشتونوں کی اسٹیریوٹائپ شبیہ کا عنصر بھی موجود ہے ـ اس حوالے سے ان کی بیٹی سمیرا مخملباف کی فلم “تختہ سیاہ” بھی اہم ہے جس میں صدام حسین کے کیمیائی حملے کے بعد عراقی کردوں کی مہاجرت کا نقشہ کھینچا گیا ہے ، یہ سمیرا کی پہلی فلم ہے جس کے اسکرین رائٹر ان کے والد محسن مخملباف ہیں ـ (اس فلم پر میں تبصرہ بھی لکھ چکا ہوں) ـ
محسن مخملباف نے یوں تو درجنوں فلمیں بنائی ہیں لیکن میری نگاہ میں ان کی اہم ترین فلمیں “نون و گلدون” ، “شبھای زایندہ رود” ، “بائیسیکل ران” ، “ہنر پیشہ” ، “دست فروش” ، “سفرِ قندھار” ، “سیکس اور فلسفہ” اور “الفبای افغان” ہیں ـ ان میں سے “شبھای زایندہ رود” کو ایران میں پابندی کا سامنا کرنا پڑا ـ حکومت نے اسے انقلاب مخالف فلم قرار دیا تھا ـ “سیکس اور فلسفہ” ایرانی نہیں بلکہ تاجک فلم ہے ـ محسن نے یہ ایامِ جلاوطنی میں تاجکستان میں بنائی اور اس کی زبان بھی تاجک فارسی ہے ـ
حکومت کی سینسر شپ پالیسی سے اختلاف کے باعث 80 کی دہائی کے اواخر میں انہوں نے ترکِ وطن کرکے فرانس میں رہنے کا فیصلہ کیا ـ آج کل وہ فرانس میں ہی رہائش پزیر ہیں ـ یہ طے ہے ایرانی سینما کی تاریخ میں ان کا کردار ہمیشہ زندہ رہے گا ـ
* فلم پر مختصر تبصرہ *
یہ فلم بھی ہدایت کار عباس کیارستمی کے انداز پر حقیقت اور مجاز کے درمیان بنائی گئی ہے ـ حقائق اور فکشن کبھی مرکب لگتے ہیں تو گاہے آمیزے کی صورت اختیار کرکے دونوں کو الگ الگ دیکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں ـ
ہدایت کار محسن مخملباف اپنی جوانی کے ایک واقعے کو فلم کی صورت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں ـ نوعمر محسن مخملباف قبل از انقلاب کے بیشتر نوعمروں کی مانند دانش ور علی شریعتی کے مارکسی اسلام کے نظریے سے متاثر تھے ـ تاہم فلم میں پیش کردہ حالات و واقعات سے اسلام کے مارکسی نظریے کا درست اندازہ لگانا دشوار ہے ـ دشواری کا سبب یہ ہے نوجوان مخملباف مسلح جدوجہد کے ذریعے دنیا کو بدلنے کا نظریہ تو رکھتا ہے مگر یہ نظریہ روس کے کمیونسٹ نظریہ دان و انقلابی رہنما ولادیمیر لینن کا ہے یا ایران کے نابغہِ روزگار دانش ور ڈاکٹر علی شریعتی کے نظریات سے متاثر ـ فلم کا گہرا تجزیہ البتہ علی شریعتی کی جانب اشارہ کرتا ہے ـ بہتر ہوگا مختصراً پس منظر بیان کردیا جائے ـ
شاہ ایران کے زمانے میں ایرانی طلبا کے دو مختلف گروہ مسلح جدوجہد میں مصروف تھے ـ
ایک مارکسسٹ_لیننسٹ طلبا تھے جن کی قیادت بیژن جزنی کر رہے تھے ـ یہ “سازمان چریک ہای فدای خلق ایران” (Organization of Iranian People’s Fedai Guerrillas) کے نام سے مسلح جدوجہد کے ذریعے انقلاب بپا کرکے ایران میں کمیونسٹ نظام لانے کے خواہش مند تھے ـ
دوسری جانب لبرل ازم، مارکس ازم اور شیعہ اسلام کے مزاحمتی تفکر کے مرکب کا نظریہ رکھنے والے “سازمان مجاہدین خلق ایران” (People’s Mojahedin Organization of Iran) نامی مسلح تنظیم تھی جس کی قیادت نوجوان طالب علم رہنما محمد حنیف نژاد کر رہے تھے ـ یہ تنظیم ایران میں انقلاب لاکر عوام دوست اسلامی نظام قائم کرنے کی تمنا رکھتے تھے ـ اس تنظیم پر ڈاکٹر علی شریعتی کے نظریات کا گہرا اثر تھا ـ
دونوں تنظیموں کے اراکین فنڈز کے حصول کے لئے بینکوں کو لوٹا کرتے تھے ـ بیژن جزنی خفیہ ادارے ساواک کے ہاتھوں ایک جعلی مقابلے میں قتل کر دیے گئے جب کہ حنیف نژاد گرفتار ہوکر تختہ دار پر لٹکائے گئے ـ تاہم یہ تنظیمیں برقرار رہیں اور آج بھی ایران سے باہر بالخصوص یورپ میں یہ کم زور صورت میں فعال ہیں ـ
فلم میں نوجوان محسن مخملباف اپنی خاتون ساتھی کے ذریعے ایک ریاستی اہلکار کو دھوکہ دے کر اس کا اسلحہ چھیننا چاہتا ہے تاں کہ اس اسلحے کے ذریعے بینک لوٹ کر مسلح تنظیم کی مدد کرسکے ـ مزکورہ ریاستی اہلکار جو اب ریٹائر ہوچکا ہے، محسن سے مل کر اس واقعے کے دوسرے پہلو، یعنی اہلکار کی زندگی کو پیش کرنے کی پیشکش کرتا ہے ـ فلم کی شوٹنگ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے ـ
سابق ریاستی اہلکار اپنی جوانی کی زندگی کو ہدایت دیتا ہے جب وہ ایک سپاہی تھا اور اسے کالج جاتی ایک لڑکی سے محبت ہوتی ہے ـ دوسری جانب محسن اپنی جوانی کو پیش کرتا ہے جب وہ مسلح انقلاب کا نظریہ رکھتا تھا اور اس کی خاتون کزن اس جدوجہد میں اس کے ہم راہ تھی ـ
انقلابی منصوبہ بناتے ہیں کہ لڑکی سپاہی کو روٹی دے کر اس کی توجہ بٹائے گی اس دوران لڑکا اس پر چاقو سے حملہ کرکے اس کا ہتھیار چھین لے گا ـ دوسری جانب سپاہی اپنی پہلی محبت، جس کی تلاش میں وہ آج بھی سرگرداں ہے، اسے اسی دن پھول دے کر اظہار محبت کرنے کا منصوبہ بناتا ہے ـ سپاہی اس حقیقت سے لاعلم ہوتا ہے کہ جس لڑکی کو وہ اپنی محبوبہ سمجھ کر اس کی تلاش میں آج بھی بھٹک رہا ہے درحقیقت محسن کی انقلابی ساتھی تھی ـ
پھول اور روٹی کے درمیان مسلح انقلاب ہے ـ سپاہی جسے نہ شاہ ایران سے غرض ہے اور نہ ہی وہ اس کے استبدادی نظام میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے ـ وہ نوخیز حسینہ کے عشق میں اپنا سب کچھ تیاگ دینے کو تیار ہے ـ دوسری جانب مسلح انقلاب کے ذریعے دنیا بدلنے کی چاہ میں گرفتار آتش زیر پا نوجوان ہیں جنہیں عشق و محبت کی لطافتوں میں الجھنے سے زیادہ کشت و خون میں دلچسپی ہے ـ چاہے اس کی قیمت پہلو میں پھول چھپائے عاشق سپاہیوں کی جان ہی کیوں نہ ہو ـ
ایک نکتے پر آکر فلم مسلح جدوجہد کو مسترد کرتا ہے ـ فلم کے مطابق مسلح جدوجہد کا مقصد چاہے کتنا ہی اعلی اور انسان دوست کیوں نہ ہو یہ اپنی فطرت میں اندھا اور بے رحم ہوتا ہے ـ نوجوان اذہان دنیا بدلنے کی منہ زور خواہش رکھتے ہیں اگر ان کی اس خواہش کو درست راستہ فراہم نہ کیا جائے تو وہ تاریک راہوں کے مسافر بن کر سامنے آنے والی ہر چیز کو تباہ کرنے پر تل جاتے ہیں ـ زندگی کے لئے روٹی جس قدر ضروری ہے اتنا ہی پھول (محبت) بھی انسان کی ضرورت ہے ـ مسلح تصادم یہ دونوں چیزیں انسان سے چھین لیتا ہے ـ