Daily Roshni News

بلیو وہیل!…(قسط نمبر3)

بلیو وہیل!

کیا واقعی کوئی گیم کسی انسان کی جان لے سکتا ہے؟

(قسط نمبر3)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔بلیو وہیل) چر الا یا اور اس سے یہ مجرمانہ کاروائی انجام دی۔ گیم اور تشدد کا رجحان اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں نت نئی ایجادات کا استعمال بچوں کی ذہنی نشو و نما کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کمپیوٹر گیمز بھی ذہنی تربیت میں معاون ہے مگر اس کا ناقص استعمال بچوں میں انتہائی مہلک اور منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس بات کا اظہار مغربی مفکرین اور نفسیات دان کر رہے ہیں، ان کے مطابق جدید دور میں بنائے جانے والے گیمز بچوں اور نوجوانوں میں جارحیت پیدا کر رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کیم کھیلنے والے لوگوں میں پچیس فیصد گیمر زاٹھارہ سال سے کم عمر کے بچے ہیں اور بتیس فیصد وہ ہیں جو مکمل طور پر بالغ شعور رکھتے اور باقی بچنے والوں میں جن کااوسط تناسب پینتس فیصد ہے ایسے نوجوان ہیں جو ابھی بچپن اور بلوغت کی سرحد پر کھڑے ہیں۔ انڈیانا یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن کے ریسرچرز کی 2006ء کی تحقیق کے مطابق جو بچےتشدد اور جارحیت سے بھر پور گیم کھیلتے ہیں، دماغ کی اسکیننگ میں ان بچوں کے اندر جذباتی پن میں اضافہ نظر آتا ہے۔ ان بچوں کے سیلف کنٹرول، برداشت کے مادہ میں کمی آجاتی ہے، ان گیمز سے بچوں کے ریوں میں خرابی پیدا ہوتی ہے۔ ایک عام گیم کھیلنے والوں کے بر عکس جنگ و تشدد سے بھر پور گیم کھیلنے والے بچوں کے دماغ کے حصہ امیگڈالا میں غیر معمولی سرگرمی دیکھنے میں آئی۔ یہ حصہ جذباتیت سے تعلق رکھتا ہے۔

ڈیجیٹل نشہ ڈیجیٹل نشہ کی اس لت کا شکار صرف نوجوان ہی  نہیں نو عمر لڑکے اور چھوٹے معصوم بچے بھی ہو سکتے ہیں۔ نیو یارک پوسٹ کی اگست 2016 کی اشاعت کے مطابق ماہرین نے یہ خوفناک انکشاف کیا تھا کہ جدید دور کی اشیا جیسے اسمارٹ فون اور ٹیبلیٹ وغیرہ ہمارے بچوں کو اپنی لت کا شکار کر رہی ہیں اور یہ دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہیں جیسے افیون یا کوئی اور نشہ آور شے کرتی ہے۔ امریکا میں ماہرین نفسیات کے ایک گروہ نے اپنے پاس آنے والے مریضوں کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے ان کے پاس ایسے والدین کی آمد بڑھ چکی ہے جو اپنے بچوں کے رویے تبدیل ہونے سے پریشان تھے۔ والدین یہ جاننا چاہتے تھے کہ ایسا کیوں ہوا اور اس سے اب کیسے بچا جائے۔ماہرین نے جب ان بچوں کی روز مرہ عادات کا جائزہ لیا تو انہیں علم ہوا کہ اسمارٹ فونز ان بچوں کی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن چکا ہے جو ان کی جسمانی و نفسیاتی صحت پر بھیانک اثرات مرتب کر رہا ہے۔ ان ماہرین کے مطابق بعض والدین خود بھی اس بات سے آگاہ تھے کہ جب سے ان کے بچوں نے اسمارٹ فون استعمال کرنا شروع کیا ہے تب سے ان کے رویوں اورعادات میں منفی تبدیلیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ نیو یارک کی رہائشی ایک والدہ سوزین کا کہنا تھا کہ اس کا 6 سالہ بیٹا ایک زندہ دل اور خوش مزاج بچہ تھا جو کھیلوں اور پڑھائی میں بھر پور دلچسپی لیتا تھا۔ اس کی ساتویں سالگرہ پر انہوں نے اسے آئی پیڈ تحفہ میں دیا بس یہیں سے خرابی کا آغاز ہوا۔سوزین کے مطابق انہوں نے یہ تحفہ اسے اس لیے دیا تا کہ وہ اپنی تعلیم کے لیے دنیا بھر کی ریسرچ سے استفادہ کر سکے۔ ساتھ ساتھ وہ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہو اور اس کی ذہنی استعداد میں اضافہ ہو۔ شروع میں ایسا ہی ہوا، انہوں نے دیکھا کہ ان کے بچے کی تعلیمی کار کردگی میں اضافہ ہو گیا اور گفتگو کے دوران وہ دنیا بھر میں ہونے والی مختلف سرگرمیوں کے بارے میں بات چیت کرنے لگا، لیکن پھر آہستہ آہستہ صور تحال تبدیل ہوتی گئی۔ اب انہوں نے دیکھا کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت خاموشی سے آئی پیڈ کے ساتھ گزار نے لگا۔ اس کے رویے میں تبدیلی آئی گئی۔ جس وقت آئی پیڈ اس کے پاس نہ ہوتا وہ گم صم رہتا۔ پڑھائی اور کھیلوں سے بھی اس کی دلچسپی ختم ہونے لگی۔ سوزین کا کہنا تھا کہ ایک دن رات کے وقت وہ یہ سوچ کر اس کے کمرے میں گئیں کہ وہ سو رہا ہوگا، لیکن وہ جاگ رہا تھا اور اپنے آئی پیڈ پر جانوروں کو شکار کرنے والے ایک کھیل میں مشغول تھا۔ لیکن خوفناک بات یہ تھی کہ وہ دنیا سے بے خبر آنکھیں پھاڑے، کسی حد تک ایب نارمل انداز میں اسکرین کو گھور رہا تھا اور جیسے ایک ٹرانس میں محسوس ہو رہا تھا۔ سوزین کو اسے متوجہ کرنے کے لیے کئی دفعہ زور سے ہلانا پڑا تب وہ بری طرح چونک اٹھا۔ اس صورتحال سے وہ بے حد خوفزدہ ہو گئیں اور اگلے ہی دن اسے ماہر نفسیات کے پاس لے آئیں۔سوزین جیسے کئی اور والدین بھی تھے جنہوں نے کم و بیش اسی صور تحال سے گھبرا کر ماہرین نفسیات سے رجوع کیا۔ بعض والدین نے بتایا کہ اسمارٹ فونز میں موجود گیمز بچوں کے اعصاب پر اس قدر حاوی ہو چکے ہیں کہ وہ خواب میں بھی انہیں ہی دیکھتے ہیں اور صبح اٹھ کر بتاتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں کتنے  دشمنوں کو مار گرایا۔

ماہرین نفسیات نے جب اس سلسلے میں دیگر ماہرین سے رجوع کیا اور مزید تحقیق کی تو انکشاف ہوا کہ جدید دور کی یہ اشیا بچوں کو ڈیجیٹل نشے کا شکار بنارہی ہیں۔ یہ ڈیجیٹل لت دماغ کو ایسے ہی متاثر کر رہی ہے جیسے کو کین یا کوئی اور نشہ کرتا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں شعبہ نیوروسائنٹسٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر پیٹر وائبر و Dr. Peter Whybrow الیکٹرونک کو کین Electronic Cocaine کا نام دیتے ہیں، پینٹاگون میں نشہ کے متعلق تحقیق کرنے والے ڈاکٹر اینڈریو ڈوان Dr. Andrew Doan نے اسے ڈیجیٹل فارمیکا ( فارمیکا یونانی زبان میں نشہ آور شے کو کہا جاتا ہے) کا نام دیا، چینی ریسرچر کے نزدیک ٹیکنالوجی کے یہ آلات بچوں اور نو عمر لڑکوں کے لیے ڈیجیٹل ہیروئن Digital Heroin کی مانند ہیں۔ طبی بنیادوں پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا کہ بچے جب اپنی یہ لت پوری کرتے ہیں تو ان کا دماغ جسم کو راحت اور خوشی پہنچانے والے ڈوپامائن عناصر خارج کرتا ہے۔ اس کے برعکس جب بچے اپنی اس لت سے دور رہتے ہیں تو وہ بیزاری، اداسی اور بوریت محسوس کرنے لگتے ہیں۔ بعض بچے چڑ چڑاہٹ، ڈپریشن، بے چینی اور شدت پسندی کا شکار بھی ہو گئے۔ ماہرین نے یہ بھی دیکھا کہ جو بچے اسمارٹ فونز پر مختلف گیم کھیلنے کی لت میں پھنس گئے۔ وہ حقیقی دنیا سے کٹ سے گئے اور ہر وقت ایک تصوراتی دنیا میں مگن رہنے لگے۔ یہ مسئلہ نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں میں بھی دیکھا گیا۔ ماہرین نے کہا کہ یہ تمام علامتیں وہی  ہیں جو ایک ہیروئن، افیون یا کسی اور نشے کے عادی شخص کی ہوتی ہیں۔

حل کیا ہے؟؟

اب آتے ہیں اس مسئلہ کے حل اور تدارک کی طرف۔ ہمارے اس مضمون کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ ٹیکنالوجی کو بچوں اور نوجوانوں کے لیے خطرناک قراد دے کر ان کے پر ہمیشہ کے لیے پابندی لگادی جائے، بلکہ یہ بتانا ہے کہ بچوں اور نوجوانوں کو حد سے زیادہ اس کا عادی بنے نہ دیا جائے، بچپن سے نوجوانی اور پھر جوانی تک عمر کے ساتھ ساتھ شعور اور ذہنی سطح میں بھی فرق ہوتا ہے، ایسے بچے اور نوجوان جو ابھی پختہ شعور تک نہیں پہنچے ہیں انہیں خصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے منفی استعمال سے اپنے بچوں کو محفوظ رکھنے کی پوری ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ان کی ہر حرکات پر نظر رکھیں اور انہیں اس بارے میں آگاہ کریں۔ اگر آپ دیکھیں کہ آپ کا بچہ ، نوجوان سوشل میڈیا سائٹس پر حد سے زیادہ مگن ہے اور سوشل میڈیا سے دوری بچوں میں بد تمیزی، بے ادبی، بد زبانی، سرد مہری، معاشرے سے بے زاری اور لاتعلقی، چڑ چڑا پن، الھڑ اور ضدی پن، عدم برداشت، تنک مزاجی، غیض و غضب، میجان، جھنجھلاہٹ، اشتعال انگیزی، جھگڑالو پن اور خود سری جیسے رویوں کو جنم دے رہی ہے تو فورا الرٹ ہو جائیں اور اپنے بچے کا رخ دوسری صحت مند سر گرمیوں کی طرف مائل کرنے کی کوشش کریں۔ بحثیت والدین لوگوں کو بچوں اور نوجوانوں کو خود کے قریب تر ہونا ہو گا۔ بلیو وہیل کا شکار ہونے والے کی کثیر تعداد ان نوجوانوں کی تھی  جن کو ماں باپ نے ان کے اپنے حال پر چھوڑ رکھا تھا۔ جو واقف نہ تھے کہ ان کے بچے ان کے نوجوان اگر ذہنی طور پر کوئی انتشار محسوس کریں تو مسئلہ کا حل سوچا جائے اور اگر خود حل نہیں کر سکتے تو کسی ماہر نفسیات کے پاس لے جایا جائے۔

بلیو وہیل اور اس سے ملتی جلتی گیمز کا اثر زائل تبھی کیا جا سکتا ہے جب والدین اپنے بچے کو ، اپنے نوجوان کو یہ اعتماد دیں کہ وہ کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہ ہو۔ اگر کسی بچے میں کوئی مشکوک حرکت نظر آئے تو اس کو اس حالت سے نکلنے میں اس کی مدد کی جائے۔ اور اگر آپ والدین نہیں بھی ہیں تو بحثیت اس معاشرے کے فرد آپ کا فرض بنتا ہے کہ لوگوں کو مایوسی سے نکالیں۔ ایسے افراد جو الگ تھلگ رہنا شروع کر دیں۔ غم میں مبتلا ہونے لگیں جن کو زندگی بوجھ لگنے لگے ان کے لئے امید کی کرن بن جائیں۔

پریشانی کی بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر بلیو وہیل چیلنج کی جس طرح سے کوریج کی جارہی ہے اب بچے تجس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ اپنے بچوں کو اس معاملے میں آگاہی دینے کی ضرورت ہے لیکن یہ خیال رکھیں کہ آپ کے بچے کہیں اس آگاہی کی وجہ سے متجسس ہو کر الٹابلیو وہیل چیلنج کا شکار مت ہو جائیں۔یہاں بات صرف بلیو وہیل گیم ہی کی نہیں ہے، ٹیکنالوجی کے منفی اور حد سے زیادہ استعمال کی ہے، والدین اور نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ٹیکنالوجی کو استعمال تو کریں لیکن ٹیکنالوجی کو اپنے اوپر اس حد تک حاوی نہ کریں کہ خود اس کا استعمال بن جائیں۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ  اکتوبر2017

Loading