Daily Roshni News

بھوکے رہو، بے وقوف رہو

بھوکے رہو، بے وقوف رہو

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2024

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ بھوکے رہو، بے وقوف رہو)جب کبھی لوگوں پر سب سے زیادہ اثر چھوڑنے والی کاروباری شخصیات کا نام لیا جائے گا تو اس میں ایک نام ضرور ہو گا اسٹیو جابز Steve Jobs 1955 تا 2011ء)۔ آئی فون اور آئی پیڈ بنانے والی کمپنی ایپل Apple کے اس مشترک بانی Co Founder کو دنیا ایک موجد، کامیاب کاروباری شخصیت اور بزنس مین کے ساتھ ساتھ اسپیکر اور موٹیویٹر Motivators بھی مانتی ہے۔ اسٹیو جابز نے غربت اور مشکل حالات میں اپنا سفر شروع کیا اور اپنے راستے خود بناتا گیا۔ کامیابیوں کے اس سفر میں آخری سات سال وہ کینسر سے بھی لڑتا رہا لیکن اس بیماری میں بھی وہ اپنی کمپنی کی پہچان بنا رہا۔ 5 اکتوبر 2011ء اسٹیو جابز اس دنیا سے چل بسا۔ 2005ء میں اسٹیو جابز نے اسٹین فورڈ Stanford یونیورسٹی کے طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے اپنی زندگی کی تین کہانیاں بیان کی تھیں، یہ کہانیاں دراصل ہمت اور حوصلے کی داستان ہیں۔ نوجوان قارئین کی دلچسپی کے لیے اس تقریر کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ آئیے ….! پڑھتے ہیں اسٹیو جابز کی زندگی کی تین کہانیاں جو زندگی بدل سکتی ہیں۔

12جون2005کا دن تھا جب اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے طلباءسروں پر کانوکیشن کیپس اور جسم پر کالی عبائیں پہنے عملی زندگی میں قدم رکھ رہے تھے ، کالج کے سالانہ کانووکیشن کے موقع پر ملک بھر سے نامور شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا جو باری باری ڈائس پر آکر طلباءکو اپنے تجربات سے آگاہ کر رہے تھے ، اچانک اسٹیج سیکریٹر ی کی گرجدار آواز نے سامعین کو اپنی طرف متوجہ کیا ….
دوستوں انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں،اب میں جس شخصیت کو دعوت خطاب دینے جارہا ہوں وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں، آپ نے اپنی بھر پور محنت ، لگن اور جدوجہد سے ایک ایسی مشین ایجاد کی جس نے پوری دنیا میں انقلاب بپا کر دیا۔ اس مشین کی بدولت فاصلے سمٹ گئے۔ دوریاں قربتوں میں بدل گئیں ۔ علم کے دروازے کھل گئے اور جو کام کل تک ہمارے لئے خام خیال تھا آج حقیقت بن کر ہماری آنکھوں کے سامنے ہے ۔
آپ کی بھر پور تالیوں میں دعوت خطاب دوں گا ایپل کمپنی کے بانی اسٹیو جابز کو کہ وہ آئیں اور اپنے خیالات کا اظہار کریں ۔
تالیوں کی گونج میں پختہ عمر کا یہ شخص جب ڈائس پر آیا تو ناصر ف طلبابلکہ اساتذہ بھی اس کے استقبال کیلئے کھڑے ہوئے گئے اور فضامیں کافی دیر تک تالیوں کی گونج سنائی دی ۔
‘‘آپ کا بہت بہت شکریہ !آج دنیا کی سب سے بہترین یونیورسٹیز میں سے ایک کے کانووکیشن میں شامل ہونے پر میں فخر محسوس کر رہا ہوں۔ میں آپ کو ایک سچ بتا دوں، میں کبھی کسی کالج سے پاس نہیں ہوا، اور آج پہلی بار میں کسی کالج گریجوئشن کی تقریب کے اتنا قریب پہنچا ہوں۔ آج میں آپ کو اپنی زندگی کی تین کہانیاں سنانا چاہوں گا… زیادہ کچھ نہیں بس تین کہانیاں، جویقینا آپ سب کیلئے سبق ہوں گی اور عملی زندگی میں کام آئیں گی ۔

connecting the dots
کڑی سے کڑی جوڑنا

میری پہلی کہانی معلومات اکٹھا کرنے یا کڑی جوڑنے Connecting Dots سے متعلق ہے ۔
میں جب 17سال کی عمر کا تھا تب میں نے ریڈکالج Reed College میں داخلہ لیا، لیکن 6مہینوں بعد میں نے کالج کو الوداع کہہ دیا اور بقیہ 18مہینے کالج کے اردگر د منڈلاتا رہا ۔
آپ سو چ رہے ہوں گے کہ میں نے کالج کیوں چھوڑا ؟ یہ جاننے کیلئے آپ کو تھوڑا سا پیچھے جانا ہوگا۔
میری والدہ کالج کی ایک کم عمر طالبہ تھیں اور اُن کیلئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ میری کفالت بھی کرتیں لہٰذا میری ولادت سے قبل ہی اُنہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ مجھے کفالت کیلئے کسی کے سپر د Adoptionکر دیں گی ۔اُن کی شدید خواہش تھی کہ میری پرورش کوئی ایسا جوڑا کرے جو کم از کم گریجویٹ ہو ۔
اس سلسلے میں ایک وکیل اور اُس کی بیوی سے بات ہوئی تو انہو ں نے حامی بھر لی، تمام قانونی تقاضے پورے ہو گئے لیکن اچانک انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ہمیں تو بیٹی چاہئے ۔ خیر میری والدہ نے ایک اور جوڑے سے رابطہ کیا جنہوں نے میری پرورش کی حامی بھر ی لیکن معاملہ جب آخری دستاویزات پر دستخط کا آیا تو پتہ چلا کہ وہ دونوں تعلیم یافتہ نہیں ۔ میر ی والدہ نے دستخط سے انکار کر دیا لیکن کچھ ماہ بعد اس شرط پر راضی ہوئیں کہ وہ ہرحال میں مجھے تعلیم دلائیں گے ۔ لہٰذا 17برس کی عمر میں مجھے کالج جانا پڑا اور غلطی سے میں نے ایک ایسے کالج کا انتخاب کیا جو اسٹین فورڈ کی طرح مہنگاتھا۔ میرے سرپرست والدین ،جوکہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے ، کی تمام جمع پونجی خرچ ہونے لگی۔ 6 مہینے بعد مجھے پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں نظر آئی۔ مجھے کچھ آئیڈیا نہیں تھا کہ میں اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہتا ہوں، اور کالج مجھے کس طرح سے اس میں مدد کرے گا۔ اوپر سے میں اپنے والدین کی زندگی بھر کی کمائی خرچ کرتا جا رہا تھا۔ اس لئے میں نے کالج چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا اور سوچا جو ہوگا اچھا ہوگا۔
اُس وقت شاید یہ میری زندگی کا سب سے احمقانہ فیصلہ ہو لیکن آج جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو یہ میری زندگی کے بہترین فیصلوں میں سے ایک تھا ۔ کیونکہ اس وقت میرے پاس یہ آپشن تھا کہ میں ان بور کلاسوں سے چھٹکارا حاصل کر کے وہ کام کروں جو میرے مزاج سے مطابقت رکھتا ہو اور جس کے کرنے میں مجھے مزا آئے ۔
کالج چھوڑنے کے بعد میری زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا، یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں تھا۔ میرے پاس رہنے کے لئے کوئی کمرہ نہیں تھا، اس لئے مجھے دوستوں کے کمروں میں فرش پہ سونا پڑتا تھا۔ میں کوک کی بوتل کو لوٹانے سے ملنے والے پیسوں سے کھانا کھاتا تھا…. میں ہر اتوار 7 میل پیدل چل کر ایک مندر جاتا تھا، تاکہ کم سے کم ہفتے میں ایک دن پیٹ بھر کر کھانا کھا سکوں۔ یہ مجھے کافی اچھا لگتا تھا۔
میں نے کبھی اس چیز کی پروا نہیں کی کہ کون کیا کہتا ہے ، میں صرف وہی کرتا جو میرا دل چاہتا ۔ اپنے جنون کی خاطر میں نے کئی ایسے کام کئے جس کا نتیجہ بعد میں صفر نکلا لیکن پھر بھی میں نے کرنا وہی تھا جو میرا دل چاہتا ۔ مثلاً ریِڈ کالج Reed College میں اُن دنوں کیلیگرافی کی تربیت کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ پورے کیمپس کا کونہ کونہ ہاتھ سے بنی خوبصورت پینٹنگز سے سجا یا گیا ۔میں چونکہ فارغ تھا لہٰذا میں نے سوچا کہ کیوں نہ یہی سیکھا جائے۔ میں نے حروف تہجی کی مختلف اقسام Serif اور Sans Serif خطاطی میں مہارت حاصل کرنا شروع کی، الگ الگ حروف کے بیچ میں وقفہ دینا اور اچھی Typography طباعت کو کیا چیز اچھا بناتی ہے، یہ بھی سیکھا۔
دھیرے دھیرے میں نے محسوس کیاکہ میرے فن میں مہارت آرہی ہے، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میر ادعویٰ تھا کہ میرے ہاتھ سے کی گئی خطاطی سائنس کے بس کی با ت نہیں ۔ لیکن یہ سب کچھ اُس وقت تک تھا جب تک میں کالج میں رہا ، جس دن کالج چھوڑا خطاطی بھی چھوٹ گئی۔
دوستو! یہ کہانی سنا نے کا مقصد یہ تھا، زندگی میں تجربات ،خواہ وہ اچھے ہوں یا برے ، بڑی اہمیت رکھتے ہیں،میں نے کالج کے زمانے میں جو کچھ سیکھا، ممکن ہے وہ اُس وقت میرے لئے احمقانہ اور فضول ہو ، اس وقت مجھے ذرا سی بھی امید نہیں تھی کہ میں ان چیزوں کا استعمال کبھی اپنی زندگی میں کرسکوں گا ۔ لیکن 10سال بعد جب ہم نے پہلا میکنٹوش Macintoshکمپیوٹر ڈیزائن کیا تو یہ سب میرے کام آگیا ۔ ہم نے اس کمپیوٹر میں نہ صرف حروف تہجی کے خوبصورت نمونے Fontشامل کئے بلکہ خطاطی کے نت نئے انداز بھی متعارف کروائے اور اور Mac خوبصورت طباعت (ٹائپنگ) پر مشتمل دنیا کا پہلا کمپیوٹر بن گیا۔ یہی اس کمپیوٹر کی اہم خصوصیت تھی جس کی بدولت یہ آتے ہی مارکیٹ میں چھا گیا۔
اب آپ سوچئے کہ اگر میں نے کالج نہیں چھوڑا ہوتا تو تونہ ہی میں خطاطی کی کلاسیں لیتا اور نہ ہی Mac میں مختلف گوناگوں خط یا فونٹ fonts ہوتے، اور چونکہ ونڈوز Windows کمپیوٹر نے Mac کی کاپی کی تھی تو شائد کسی بھی کمپیوٹر میں یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔
یہ کہانی یہ بھی بتاتی ہے کہ ہمارا مستقبل ہمارے ماضی کے کسی نہ کسی نقطے (کڑی)سے ضرور جڑا ہو تا ہے ، ہمیں بس اپنے ماضی میں جھانک کر اُن نقطوں کو پہنچاننا ہے اور اُن دونوں کو آپس میں جوڑناہے۔
آپ سوچئے کہ جب میں کالج میں تھا تب مستقبل میں دیکھ کر کڑی سے کڑی ملانا ناممکن تھا، لیکن دس سال بعد جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو سب کچھ بالکل صاف نظر آتا ہے۔
آپ کبھی بھی مستقبل میں جھانک کر کڑی سے کڑی نہیں جوڑ سکتے آپ صرف ماضی دیکھ کر ہی کڑی سے کڑیDots Connect جوڑ سکتے ہیں، اس لئے آپ کو کسی نہ کسی چیز میں یقین کرنا ہی ہوگا کہ ابھی جو ہو رہا ہے وہ آگے چل کر کسی نہ کسی طرح آپ کے مستقبل سے Connect ہو جائے گا۔ اپنی ہمت میں، اپنی قسمت میں، اپنی زندگی یا پھر اپنے کام میں…کسی نہ کسی چیز میں یقین کرنا ہی ہوگا… تب بھی جب آپ بالکل الگ راستے پر چل رہے ہو ں گے…. اور پھر آپ امتیاز حاصل کرلیں گے۔
یہی میری کامیابی کا پہلا ٹوٹکا ہے ۔ لہٰذا فارغ رہنے کے بجائے سیکھئے اور بس سیکھتے رہیے ۔

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ فروری 2024

Loading