Daily Roshni News

تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ۔۔ہر دل عزیز کیسے بنا جائے؟۔۔(قسط نمبر2)

تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ

ہر دل عزیز کیسے بنا جائے؟

(قسط نمبر2)

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ہر دل عزیز کیسے بنا جائے؟) اس شخص کو فوراً ہی کہہ دیتا کہ آپ کا اکاؤنٹ ہمارے بینک میں نہیں کھل سکتا۔ کلرک نے اس سے کہا…. ”فرض کیجئے خدا نخواستہ آپ کا انتقال ہو جائے اور اس بینک میں آپ کی کچھ رقم ہو۔ کیا آپ پسند کریں گے کہ یہ رقم آپ کے کسی ایک رشتہ دار کو منتقل کر دی جائے۔ اس سلسلہ میں ہم بغیر حیل و حجت آپ کی خواہشات کا احترام کریں گے “۔ جلد ہی اس شخص کو یقین ہو گیا کہ اس سے جو سوالات کئے گئے ہیں یہ اسی کی بھلائی کے لئے ہیں اور اس نے فارم کو بآسانی پُر کر کے دے دیا۔ قلندر بابا اولیاء کی تعلیمات میں لوگوں کی افتاد طبع کے مطابق گفتگو کرنے کی واضح روشنی ملتی ہے۔ یہ اصول زندگی کے ہر معاملہ میں مددگار ہوتا ہے۔ ایک اچھا دکاندار گاہک کی چال ڈھال اور گفتگو سے اس کی پسند اور ناپسند کا اندازہ لگا لیتا ہے۔ اسی اندازے کے تحت وہ چیزیں پیش کرتا ہے۔ مثلاً گاہک تین ہزار روپے کا سوٹ خرید سکتا ہے۔ دکاندار فوراہی بھانپ لیتا ہے کہ اس کی رینج اتنی ہے وہ کبھی دس ہزار کے سوٹ نہیں دکھائے گا حالانکہ ایسے سوٹ دکان میں موجود ہیں۔

دنیا میں ہر دل عزیز لوگوں پر نظر ڈالی جائے تو وہ لوگوں کے ذہن کے مطابق بات کو بہت حکمت اور دانش مندی سے پیش کرتے ہیں۔ اس سے وہ شخص بات مان لیتا ہے۔ نیز دل میں تعظیم بھی پیداہوتی ہے۔

کسی کو برا مت کہئے:قلندر بابا اولیاء اکثر فرماتے کہ …..

انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ گفتگو میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی اور استعارے سے کام لیتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی آدمی کی تعریف کرنا مقصود ہو گی تو اسے عرش تک پہنچادے گا اور جب اس سے ناراض ہو جائے گا تو اسی آدمی کو فرش نہیں بلکہ تحت الثریٰ میں لے جانے کی کوشش کرے گا“۔ حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی تحریر کرتےہیں ” قلندر بابا اولیاء نے ایک صاحب کے حوالہ سے فرمایا …. ” ایک طرف تو آپ ان کو اچھا آدمی کہتے ہیں دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ آپ کی کس بات کا یقین کیا

جائے۔ بھئی ایک بات ہونی چاہیے۔ عام طور پر انسان جو کچھ کہتا ہے دراصل وہ سمجھتا نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ پہلے ایک آدمی کو وہ بہت اچھا کہتا ہے اور اس کی بہت تعریف کرتا ہے لیکن دو منٹ کے بعد ہی اسی آدمی کو وہ بہت بُرا بھی کہنے لگتا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ انسان کا نہ کسی کو اچھا کہنا سند ہے اور نہ ہی برا کہنا۔“ قلندر با با فرمایا کرتے تھے کہ انسانی گفتگو میں مبالغہ بہت ہوتا ہے اور یہ ایسی بشری کم زوری ہے جس پر قابو پانا مشکل ہے۔ بابا صاحب نے اس کمزوری سے بچنے کے لئے ایک طریقہ بتایا ہے کہ کبھی کسی آدمی کو برا نہ کہو“۔ اگر وہ برا بھی ہے تو وہ جانے اور اللہ تعالی… اگر آپ کسی کو اچھا کہیں گے اور اس میں مبالغہ بھی شامل ہو گیا تو اس کی جزا نہیں ملی تو سزا بھی نہیں ملے گی۔ اگر ہم یہ طرزِ فکر

اختیار کر لیں کہ ہماری ذات سے کسی دوسری ذات کو تکلیف نہیں پہنچے گی تو اس عمل سے اچھائی کا ایک دروازہ کھل جائے گا۔

غصہ سے گریز کیجئے:

کسی دانا کا قول ہے “غصہ ہمیشہ حماقت سے شروع ہوتا ہے اور ندامت پر ختم ہوتا ہے“۔ لوگوں کے دل پر حکم رانی کرنے والوں پر غور کیا جائے تو دکھائی دے گا کہ وہ ہمیشہ غصہ پر غالب رہتے ہیں۔ یہ نہ صرف ہر دل عزیز ہونے کا طریقہ ہے بلکہ کامیاب زندگی کا بنیادی اصول بھی ہے۔ ڈگلس باور ڈ ایک بڑی ادویاتی کمپنی کا سٹی سیلز منیجر تھا۔ دوسو ملازمین اس کے حکم پر چلتے تھے۔ ایک روز نہایت اجڈ سپر وائزر کمرے میں داخل ہوا اور بولا ”سانڈ کی شکل کے بڑھے ! کیا تم نے مجھے چھٹی دینے سے انکار کیا ہے۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری چھٹی منسوخ کرنے کی، میری پروڈکشن اتنی اتنی ہے “۔ بوڑھے ڈھکس نے ایک لفظ ادا نہیں کیا اور اس کی چھٹی کی درخواست منظور کرلی۔ اس کے لئے بہت آسان تھا کہ سپر وائزر کو دھکے دے کر کمپنی سے باہر نکلوادے مگر وہ اس کے کام کا قائل تھا۔ ڈگلس کی ترقی کا راز یہی نرم مزاجی تھی جس کی بناء پر Cooled Mindness وہ معمولی ورکر سے اتنا بڑا افسر بن گیا۔ اگر وہ افسران بالا اور زیریں ملازمین سے ہی الجھتا رہتا تو کبھی بھی اتنا بڑا مقام حاصل نہیں کر سکتا تھا۔

ہماری زندگی کا عام تجربہ بھی یہی ہے کہ غصیلی طبیعت افراد سے لوگ دور بھاگتے ہیں، نرم

خو اور ملن سار لوگوں سے ہر ایک محبت کرتا ہے، یہ خوبی زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتی ہے۔

رحم قلندر با با فرماتے ہیں …..

غصے کی آگ پہلے غصہ کرنے والے کے خون میں ارتعاش پیدا کرتی ہے اور اس کے اعصاب متاثر ہو کر اپنی انرجی ضائع کر دیتے ہیں۔ اس کے اندر قوت حیات ضائع ہو کر دوسروں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نوع انسانی کے لئے کسی قسم کے نقصان کو پسند نہیں فرماتے“۔ ایک مرتبہ ہمارے پیارے نبی یا ہم نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا ” طاقت ور شخص کون ہے ؟“ صحابہ نے عرض کیا ” طاقت ور وہ ہے جو کسی دوسرے کو پچھاڑ دے“۔

ہمارے پیارے نبی علی علیہ السلام نے فرمایا ” طاقت ور وہ نہیں جو کسی دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقت ور وہ ہے جسے غصہ آئے اور وہ اسے ضبط کرلے“۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

جو لوگ غصہ ضبط کرتے ہیں اللہ ایسے احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے “۔ لوگوں کی مالی معاونت کیجئے:

یہ دنیا دار الاسباب ہے۔ یہاں ہر شخص دوسرے کے تعاون سے زندگی گزار رہا ہے۔ لوگوں میں ہر دلعزیزی اور مقبولیت حاصل کرنے میں ذریعہ معاش اور سرمائے کی اہمیت کو نظر اندازنہیں کرنا چاہیے۔

فرض کریں کسی شہر کی معیشت میں ایک ارب روپے گردش میں ہیں۔ اس شہر کا ایک آدمی اگر گردش کرنے والے سرمائے سے دس کروڑروپے سمیٹ کر تجوری میں بند کر کے رکھ دے تو مارکیٹ میں صرف نوے کروڑ روپے گردش کریں گے اس طرح مارکیٹ میں پیسہ کم ہو جائے گا نتیجتا گوگوں کی معیشت کم زور ہو جائے گی کیونکہ ان کے ہاتھ میں کم پیسہ آئے گا۔

پیسہ کم ہو گا تو مارکیٹ کی معیشت سست پڑ جائے گی۔ لوگوں کے پاس پیسہ نہیں ہو گا تو لوگ خریداری کم کر دیں گے۔ خریداری کم ہو گی تو کاروبار پر فرق پڑے گا۔ جوتوں کی دکان میں فروخت کم ہو جائے گی، کپڑوں اور دیگر آسائش کی،چیزیں کم فروخت ہوں گی۔پیسہ چند ہا تھوں میں مرتکز ہونے کا مطلب یہ ہے کہ معیشت کی دوڑ سست پڑ گئی ہے۔ یہ ایک اجتماعی نقصان ہے۔لوگوں کی مالی معاونت کرنے کے دو فائدے ہیں اول یہ کہ معاشرے میں آپ کے دیئے گئے پیسوں سے معیشت کی رفتار تیز ہو جاتی ہے اور کسی نہ کسی ذریعے سے اس کا مالی فائدہ آپ کو پہنچتا ہے۔ دوسرا یہ کہ لوگ آپ کی قدر کریں گے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی بے شمار مثالیں تاریخ میں موجود ہیں جن کی لوگ آج بھی تعظیم کرتے ہیں۔

موجودہ دور میں عبدالستار ایدھی صاحب کی مثال پر غور کیجئے۔ ہر شخص دل و جا دل و جان سے ایدھی صاحب کو عزیز رکھتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟

یہی ناکہ لوگوں کے دکھ سکھ میں ان کی اخلاقی اور مالی مدد کرتے ہیں۔

قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں. اللہ کی مخلوق کی خدمت اللہ تک پہنچنے کا آسان اور قریبی راستہ ہے “۔

ہمیشہ سچ بولیں:

سچ بولنا ایک مسلمہ اخلاقی قدر ہے۔ دنیا کا کوئی مذہب ایسا نہیں جس نے سچائی کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین نہ کی ہوا اور دنیا کا کوئی معلم ایسا نہیں جس نے بیچ پر کار بند رہنے کا درس نہ دیا ہو۔ سچائی میں بہت سے ذہنی، جسمانی اور روحانی فوائد بھی مضمر ہیں۔ سچ بولنے سے انسان کا دل مطمئن رہتا ہے۔ اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور اسے کسی قسم کا ڈر یا خوف نہیں رہتا۔ یہی ڈر و خوف آگے چل کر بہت سے امراض کو جنم دیتا ہے۔ سچ بولنے کی عادت یعنی سچائی ہمیں ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور بہت سے امراض سے نجات دلاتی ہے تو دوسری جانب یہ ہمیں معاشرے میں عزت اور مقام بھی عطا کرتی ہے۔ سچ کی طاقت ہمارے بزنس پر بھی ایک خوشگوار اثر چھوڑتی ہے۔ یاد رکھیے …. ! سچائی اور دیانت داری زندگی میں قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ حضرت قلندر بابا اولیاء نے فرمایا:

ایسے کام کیجیے کہ جس سے آپ خود مطمئن ہوں ، آپ کا ضمیر مردہ نہ ہو جائے اور یہی وہ رازہے جس کے ذریعے آپ کی ذات دوسروں کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

بشکریہ ماہنامہ  روحانی ڈائجسٹ جنوری 2022

Loading