Daily Roshni News

تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ۔۔۔اعتدال کا راستہ۔۔۔قسط نمبر2

تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ

اعتدال کا راستہ

قسط نمبر2

بشکریہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2023

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تعلیمات قلندر بابا اولیاء)قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں:بعض لوگ استغنا کا مفہوم غلط بیان کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں! جب اللہ تعالیٰ ہی سب کچھ دیتا ہے تو کام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور ایسے لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس طرح وہ جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گھر اور معاشرے کے دیگر افراد سے کٹ کر تنہائی اور ویرانے میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ معاشرے میں بھر پور اور فعال کردار ادا کرنے کے بعد بندے کو جو تجربات حاصل ہوتے ہیں۔ ان تجربات سے اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین مستحکم ہوتا ہے۔

ساخت اور عمر کے لحاظ سے اُس کی خوراک میں دوسرے شخص کے مقابلے میں معمولی سا فرق تو ہو سکتا ہے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی امیر آدمی کی خوراک کسی غریب شخص سے دس گنا زیادہ ہو یااُسے سونے کے لئے بہت وسیع جگہ درکار ہو۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ سرمایہ جمع کرنے اُسے سینت سینت کر رکھنے کی ہوس کا تعلق انسان کی بنیادی ضروریات سے نہیں بلکہ اس کا تعلق دولت سے لگاؤ پر ہے۔

اب یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں وسائل اور مال و دولت کے حصول کےلئے کوشش ہی نہیں کرنی چاہئے؟….

اس کا جواب یہ ہے کہ دین اسلام نے دولت کی مذمت نہیں کی ہے بلکہ دولت کی ہوس سے، اُسے ضرورت مندوں کے لئے خرچ نہ کرنے سے منع کیا ہے، دولت جمع کرتے رہنا اور اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا ایسی راہ ہے جس پر چلتے رہنے سے دل میں سختی پیدا ہوتی ہے۔ اس سے بچنے کا راستہیہی ہے کہ اللہ کی دی ہوئی دولت میں سے ضرورت مندوں کے لئے زیادہ سے زیادہ خرچ کیاجائے، تاکہ دل میں سختی پیدا نہ ہو۔

معروف صوفی شاعر حضرت بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں ” دولت اور وسائل اگر کسی کے پاس

وافر مقدار میں ہیں تو یہ اللہ کی عطا ہے ، اُس کی ذاتی کوششوں کا ثمر نہیں، لیکن انسان اللہ کی عطا کردہ دولت کو ذاتی ملکیت قرار دے کر مزید کی ہوس میں گرفتار ہو جاتا ہے“۔

 

موجودہ دور میں بھی لوگوں کی اکثریت نے دولت کے حصول کو اپنی زندگی کا مقصد اولین بنارکھا ہے ، جبکہ دوسری جانب ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس نے معاشی ترقی کے شعبے کو نظر انداز کر کے کسی نہ کسی نام سے خود کو محدود کر لیا ہے۔

دراصل دونوں ہی طبقے حد اعتدال سے تجاوزکر چکے ہیں۔

سلسلہ عظیمیہ کے امام حضرت قلندر بابا اولیاء نوع انسانی کو اعتدال کی راہ دکھاتے ہوئے

سمجھاتے ہیں کہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ مادی زندگی کل زندگی کا نصف ہے ، اگر اس نصف کا کسی مسلک میں کوئی مقام نہیں ہے تو معاشی زندگی کی تمام تعمیریں مسمار ہو جائیں گی“۔ حقیقت یہی ہے کہ ایسی صورت میں مادہ پرستی کو فروغ ملتا ہے اور انسانی معاشرہ وحی کی بنیادوں سے ہٹ کر نفس پرستی اور مادہ پرستی کی تاریک راہوں پر چل پڑتا ہے۔

حضرت قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں ….. انسانی عقل کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ خارج کے بارے میں سوچتا ہے، دوسرا رخ «نفس» کے بارے میں۔ پہلا رخ مظاہر کو دیکھ کر جو کچھ خارج میں ہے اس کے بارے میں تجربات اور محسوسات کی حدیں قائم کرتا ہے، دوسرا رخ دو نفس کے متعلق فکر کرتا ہے اور مظاہر کی گہرائی میں جو امور منکشف ہوتے ہیں ان کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ پہلے رُخ کا استعمال عام ہے۔ اس کی تمام طرزیں اور فکریں وحی اور الہام سے الگ ہیں۔ البتہ دوسرا رخ وحی اور الہام – وابستہ ہے جو پہلے رخ پر محیط ہے۔ چنانچہ پہلا رخ سےعلم نبوت کی راہوں پر چل کر حقائق کا انکشاف کرتا ہے۔ دوسرا رخ اشیاء میں تلاش کے ذریعے مادیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔

تمام مذاہب جو دوسرے رخ کی بنیادوں پر مرتب کئے گئے ہیں زیادہ تر لادینی، بت پرستی،

مظاہر پرستی، مادیت پرستی اور فلسفیانہ قدروں پرمشتمل ہیں۔ یہ سب کے سب مادی علم یا علم حصولی کی راہوں پر چل کر اپنی منزلیں متعین کرتےہیں۔

قلندر بابا اولیاء فرماتے ہیں ….. زاہدانہ زندگی یہ نہیں ہے کہ آدمی خواہشات کو فنا کر کے خود فنا ہو جائے، آدمی اچھا لباس پہننا ترک کر دے، پھٹا پرانا اور پیوند لگا لباس پہننا ہی زندگی کا اعلیٰ معیار قرار دے لے، اگر ایسا ہو گا تو دنیا کے سارے کارخانے اور تمام چھوٹی بڑی فیکٹریاں بند ہو جائیں گی اور لاکھوں کروڑوں لوگ بھوک زدہ ہو کر ہڈیوں کا پنجر بن جائیں گے۔ اللہ نے زمین کی کوکھ سے وسائل اس لئے نہیں نکالے کہ ان کی بے قدری کی جائے، ان کو استعمال نہ کیا جائے ….۔ اگر روکھا سوکھا کھانا ہی زندگی کی معراج ہے تو بارش کی ضرورت نہیں رہے گی، زمین بنجر ہو جائے گی، زمین کی زیبائش کے لئے اللہ نے رنگ رنگ پھولوں، پتوں ، درختوں،پھلوں، کہساروں اور آبشاروں کو بنایا ہے “۔ بابا صاحب اعتدال کے راستہ کی جانب نوع انسانی کی رہنمائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

بندہ کو چاہئے کہ اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت کو خوش ہو کر استعمال کرے، لیکن خود کو اس کا مالک نہ سمجھے۔ اللہ روکھی سوکھی دے تو اسے بھی خوش ہو کر کھائے اور اللہ مرغ پلاؤ دے تو اُسے بھی خوش ہو کر کھائے۔ دروبست اللہ کو اپنا کھیل سمجھےاور ہر حال میں اللہ کا شکر گزار بندہ بنار ہے “۔

بشکریہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2023

Loading