Daily Roshni News

تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ۔۔۔کامیابی کیلئے انفرادیت پیدا کیجئے۔۔۔(قسط نمبر2)

تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ

کامیابی کیلئے انفرادیت پیدا کیجئے

)قسط نمبر(2

بشکریہ روحانی ڈائجسٹ جنوری2023

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔تعلیمات قلندر بابا اولیاءؒ) صلاحیتوں کے اظہار سے زیادہ مطمئن ہوئے۔ غیر حاضری میں کمی ہوئی، ملازمت چھوڑنے کا تناسب اورکام میں خلل اندازی کم ہو گئی۔

بالکل اسی طرح سے یہ نظریہ Y اسکول سسٹم میں بھی متعارف کروایا گیا۔اس کی ایک جانی پہچانی صورت OpenClassrooms ہیں، جن میں طلباء کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذاتی دلچسپی سے اپنے انداز اور اپنی رفتار سے سیکھیں اور تلاش و جستجو میں مصروف ہوں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ فرد کے اندر موجود مثالی اور اچھا بننے کا فطری تقاضہ زیادہ سر گرم اور متحرک ہوتا ہے۔

یہاں قارئین کے ذہن میں یہ سوال آیا ہو گا کہ اگر تمام انسانوں کے اندر مثالی اور اچھا بننے اور خامیوں کو چھپانے کا تقاضا موجود ہے…. تو پھر ہمارے معاشرے میں ایسا کیوں نہیں ہے ؟۔…. تو جناب …. ! اس کا سیدھا سادہ سا جواب یہ ہےکہ ہمارے معاشرے میں بھی یہ فطری تقاضہ موجود ہے لیکن اسے کس طرح پورا کیا جائے اس کا طریقہ انسان اپنے ماحول سے سیکھتا ہے۔ہمارے معاشرے میں دولت کے ارتکاز اوردولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے عدم تحفظ پیدا کر دیاہے۔ یہاں بڑائی اور برتری کا معیار تقویٰ، علم اور

اخلاقی قدریں نہیں رہا بلکہ دولت کو بڑائی کا معیار سمجھاجانے لگا ہے۔ ایسی صورت میں لوگ دوسروں کی نگاہمیں اچھا اور مثالی بننے کے لیے دولت اہم سمجھتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں مثالیت کا خارجی اور مادی پہلو بہت زیادہ نمایاں ہو گیا ہے۔ کوئی بہترین گھر بنا کراچھا بننا چاہتا ہے، کوئی بہترین لباس حاصل کرکے، اور کوئی گرین کارڈ حاصل کر کے اچھا اور مثالی بننا چاہتا ہے۔ لیکن ذرا سوچیں کیا صرف یہی چیزیں فرد اورمعاشرے کو مثالی اور ترقی یافتہ بنا سکتی ہیں ؟ علمی تحقیق، تلاش و جستجو اور علمی لحاظ سے انفرادیت حاصل کرنے کے فقدان کا ہمارے ہاں ایک جواز پیش کیا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ پاکستان ایک پس ماندہ ملک ہے یہاں کے عوام کی توجہ اپنے معاشی مسائل سے ہی نہیں ہٹتی تو وہ کیا تحقیق اور

ریسرچ کریں۔

دیکھیے …. ! اگر معاشی مسائل ہی تحقیق اور ریسرچ کی راہ میں رکاوٹ ہوتے تو آج میری کیوری(1934-1867) جیسی عظیم سائنس دان کا نام میری کیوری کو بچپن سے ہی سائنس پڑھنے کاسائنس دانوں کی لسٹ میں نہ ہوتا۔

شوق تھا جب کہ پولینڈ میں خواتین کو یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ ان کے والدین کے پاس اتنے پیسے نہ تھے کہ وہ انہیں بیرونِ ملک یونیورسٹی میں تعلیم دلوا سکتے۔ لیکن میری کیوری نے آیا کی ملازمت کر کے رقم اکٹھی کی اور پھر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے فرانس گئیں اور بالآخر طبیعات کے شعبے میں دو نوبل انعام حاصل کیے۔

اسی طرح مائیکل فیراڈے(1867 – 1791) انہوں نے کیمسٹری، بجلی اور مقناطیسیت کے میدان میں بہت اہم دریافتیں کی ہیں وہ ایک لوہار کے بیٹے تھے اور 14 سال کی عمر میں انہوں نے کسی سائنس دان کی نہیں بلکہ ایک جلد ساز کی شاگردی اختیار کی تھی یہاں انہوں نے سائنسی رسالوں اور کتابوں کومیں بالآخر وہ ایک نامور سائنس دان بن گئے۔ معاشی مسائل کو تو آپ ایک طرف رکھیں نامور دلچسپی سے پڑھنا شروع کیا۔ اسی تلاش و جستجو کے نتیجے سائنس دان بن گئے۔

معاشی مسائل کو تو آپ ایک طرف رکھیں نامور سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ  (1942-2018) کی مثال دیکھیں کہ انہیں طالب علمی کے زمانے میں ہی پتہ چل گیا تھا کہ وہ ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس میں آہستہ آہستہ پٹھے کمزور ہو کر ناکارہ ہو جاتے ہیں، اسٹیفن ہاکنگ 25 سال ایک وہیل چیئر تک محدود رہے اور وہ بولتے بھی کمپیوٹر کی الیکٹرونک آواز کی مدد سے تھے اور وہ اس سیٹ پر ریاضی کے پروفیسر ہیں۔ جس پر کبھی آئزک نیوٹن تھے اور آج انہیں آئن اسٹائن کے بعد دوسرا بڑا سائنس دان کہا جاتا ہے۔ ان کی کتاب  ا A brief history of time دنیا  کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے۔

ان سب مثالوں سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ معاشی یا دیگر مسائل تحقیق و تلاش کے راستے کی اصل دیوار نہیں ہیں بلکہ اصل دیوار وہ غلط معیارات ہیں جوماحول اور معاشرتی رسومات سے ملتے ہیں اور لوگ

انہیں اپنانے پر مجبور محسوس کرتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں روایت پرستی اور

بھیڑ چال بہت بہت بڑھ گئی ہے۔

لوگ اچھے بُرے یا صحیح غلط کی تمیز کیے بغیر اورغور و فکر کیے بغیر وہی کرنا چاہتے ہیں جو عام طور پر ہو رہا ہے یا ان کے باپ دادا نے کیا۔

آپ غور کیجیے …. ہماری روزمرہ زندگی میں بے شمار ایسی چیزیں موجود ہوں گی کہ جن کی دلیل ہمیں معلوم نہیں ہو گی۔ ہم محض اُن چیزوں کو محض اس وجہ سے بار بار دہراتے ہیں کہ وہی باتیں آباؤ اجدادنے کی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اکثر بچوں کو خود غور و فکر کرنے اور حقیقت کا کھوج لگانے کی صلاحیت کو ابھارا ہی نہیں جاتا۔ اگرچہ ان کے اندر مثالی اور اچھابننے کا فطری تقاضہ موجود ہوتا ہے۔

پچھلے صفحات میں نظریہ X اور Y کا ذکر کیا گیا تھا کہ کس طرح ایک کمپنی نے اپنا سیٹ اپ نظریہ Y کے مطابق تبدیل کیا اور ڈرامائی طور پر اچھے نتائج حاصل کیے۔ افراد پہلے بھی وہی تھے لیکن محض سیٹ اپ کو افراد کے فطری تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جب تبدیل کیا گیا تو ان لوگوں کے اندر موجود مثالی اور اچھا بننے کے فطری تقاضے نے سر ابھارا اور ناصرف پیداوار بڑھی بلکہ کارکنوں میں طمانیت کا احساس بھی

پیدا ہوا۔

پاکستانی معاشرے میں زمین تو زرخیز ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس میں کون سا بیج بویا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افراد کے متعلق مختلف پالیسیاں بناتے وقت انسانی فطرت کے متعلق حضرت قلندر بابا اولیاء کے بیان کردہ سنہری اصول کو مد نظر رکھا جائے۔ ایسا سیٹ اپ فراہم کیا جائے جس میں افراد کے فطری تقاضے یعنی کچھ کر دکھانے، مثالی اور اچھا بننے کی تسکین کا سامان موجود ہو۔ افراد کو احساس ہو کہ اُنہوں نے کچھ حاصل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اخفاء کے اصول کو بھی مد نظر رکھا جانا چاہئے جو کہ نظریہ Y میں موجود نہیں۔ ایسا ماحول فراہم کرنا بھی ضروری ہے جس میں اخفاء موجود ہو۔

پاکستانی معاشرے کے استحکام اور پاکستان کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور پاکستانی قوم کےلیے ہمیشہ مثبت تصور ذات کا پرچار کیا جائے تاکہ

پاکستانی معاشرے میں انفرادیت، خود کو منوانے اور مثالی بننے کارجحان پیدا ہو۔ ایسے تقاضے کو ابھارنے کے ساتھ ساتھ کچھ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے جو کہ کاروباری کمپنی نے نظریہ Y کے مطابق کیے۔ تخلیقی صلاحیت اکتسابی حافظے Learned

Memory کی مرہونِ منت نہیں …… یہ ضروری نہیں کہ بہترین حافظے والا شخص تخلیقی بھی ہو۔ البتہ بہت کم میموری اسکور حاصل کرنے والا فرد بہت زیادہ تخلیقی بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا ربط اپنے پیدائشی حافظے In-born Memory کے ساتھ ہو سکتا ہے…. یہ ضروری نہیں کہ ایک فرد کا اکیڈمک ریکارڈ بہت اچھا ہو تو ہی وہ تخلیقی بن سکتا ہے۔ تخلیقی صلاحیت کبھی بھی اور کسی بھی عمر میں متحرک ہو سکتی ہے۔ ہے نہیں تھی اور اس کی مثال نامور سائنس دان آئن اسٹائین ہے کہ اس کی اسکول کی کار کردگی اتنی اچھی نہ اس کی پہلی ملازمت ایک دفتر میں بطور جونیئر کلرک کے تھی لیکن بعد میں جب اُس نے غور و فکر کر کے اپنے پیدا کشتی حافظے سے رابطہ کیا تو وہ ایک نامور اور

عظیم ترین سائنس دان بن گیا۔ ریسرچ محض سوالنامے بنانے اور انہیں لوگوں سے پر کروا کے رزلٹ اخذ کرنے کا نام نہیں ہے۔ اصل ریسرچ اپنے پیدائشی حافظے سے رابطہ کر کے ہی ہوتی ا ہے۔ انسان اس قابل ہو جائے کہ اپنے ذہن میں آنے والے سوالات کے جوابات اُسے اپنے پیدائشی حافظے سے درست اطلاعات کی صورت میں ملنے شروع ہو جائیں۔ اکتسابی حافظہ ریسرچ کے لیے تحریک پیدا کرنے اور مفروضات تشکیل دینے میں تومدد کر سکتا ہے لیکن یہ ریسرچ یا حقیقت تک پہنچنے کاذمہ دار نہیں ہے۔

المختصر یہ کہ ہر ذی روح کے اندر اپنے آپ کو مثالی بنا کر پیش کرنے کا تقاضہ یا اپنی اصلاح اور بہتری کا تقاضہ موجود ہے۔ ضرورت صرف اس تقاضے کو درست سمت دینے کی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک اگر تمام دنیا پر اپنی انفرادیت منوا رہے ہیں تو اس کا سبب یہی ہے کہ وہاں اپنے آپ کو مثالی اور منفرد بنانے کےمحرک پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اسٹین فورڈ یونی ورسٹی امریکا کے ماہرین نفسیات

فلپ زمبارڈ و Philip Zimbardo اور رچرڈ اپنی کتاب Richard Gerrig گیرگ سائیکالوجی اینڈ لائف“ میں لکھتے ہیں کہ و کسی طالب علم کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ امریکہ میں حصول Achievement پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ خواہ کاروبار ہو یا کھیل ہو یا تعلیمی نظام ہو ہر جگہ کچھ Achieve کرنے پرخصوصی زور دیا جاتا ہے “۔

آج پاکستان میں بھی ایسا سیٹ اپ قائم کرنے کی ضرورت ہے کہ دولت کی دوڑ اور مادی حصول کی بجائے علمی تحقیق اور تلاش کی زیادہ حوصلہ افزائی اور کی. قدر کی جائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ریسرچ کے مفہوم کی اصلاح کی جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب ہر شخص انفرادی طور پر بہتری اور ترقی کی طرف مائل ہو گا تو پوری سوسائٹی ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گی۔ یہ ذمہ داری سب سے پہلے بچے کےوالدین اور ماحول کی ہے۔

Loading